پنجاب بیورو کریسی اور گزشتہ سال

ایک طویل عرصے کے بعد پنجاب میں بیورو کریسی کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ چیف سیکرٹری کے عہدہ پر کسی افسر کی تعیناتی کا عرصہ اچھا گردانا جا رہا ہے، ورنہ یہاں ایک درجن سے زائد تعینات سابق چیف سیکرٹریوں کا عرصہ تعیناتی مذاق ہی بنا رہا،وہ تعینات ہوتے،کام شروع کرتے،ساتھ ہی ان کی تبدیلی کی باتیں شروع ہو جاتیں اور اچانک خبر آتی کہ وہ تبدیل ہو گئے ہیں ،زاہد زمان خوش قسمت ہیں جو دو سال مکمل کر رہے ہیں اور اگر ان کی کارکردگی اور وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہم آہنگی کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تین سال بھی مکمل کریں گے،وہ پنجاب میں نگران دور کے آغاز میں 24جنوری2023ء کو چیف سیکرٹری تعینات ہوئے اور بعدازاں مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت نے بھی ان کی کارکردگی کی وجہ سے انہیں اپنے ساتھ برقرار رکھا، انتظامی افسروں کو کسی بھی عہدے پر مناسب عرصہ تعیناتی ملے تو تبھی انہیں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع مل سکتا ہے،گزشتہ ایک سال کے دوران اگر پنجاب میں بیورو کریسی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اسے اچھا قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کی ایک وجہ ان کا مناسب عرصہ تعیناتی ہے۔سابق نگران دور میں چیف سیکرٹری زاہد زمان نے سیکرٹریوں کی جو ٹیم منتخب کی تھی اس کی اکثریت کو انہوں نے منتخب دور میں بھی اپنے ساتھ رکھا، ٹاپ کلیدی عہدوں پر ان کے ساتھ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بھی برقرار رہے،مگر چیئرمین پی اینڈ ڈی کے عہدے سے افتخار سہو کو تبدیل کر دیا گیا،حالانکہ انہوں نے مثالی کام کیا تھا،ان کی جگہ پر ایک اور اچھے افسر بیرسٹر نبیل اعوان کو لگا دیا گیا،نبیل اعوان نے مسلم لیگ کے سابقہ دو تین ادوار حکومت میں پنجاب اور وفاق میں میاں حمزہ شہباز،میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے سیکریٹریٹ میں کلیدی عہدوں پر کام کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں مسلم لیگ(ن) کے سیاسی اور انتظامی امور کا کافی تجربہ ہے۔

کسی بھی اچھی حکومت کے لئے اچھی انتظامی ٹیم کا ہونا ناگزیر ہے،بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اچھے ٹیم ممبران کے چناؤ میں ہمیشہ باتونی،چالباز،موقع پرست لوگوں کے چنگل میں گرفتار رہیں،سیاسی مداخلت بھی اپنی جگہ ایک نا پسندیدہ امر رہا،لہٰذا اچھی ٹیم کے انتخاب میں ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،تاہم ایسا بھی نہیں کہ ملکی بیورو کریسی بانجھ ہو چکی ہے، اچھے، قابل، تجربہ کار،محنتی،اصول پسند بیورو کریٹس ہر حکومت کا اثاثہ رہے،انتظامی ٹیم کے انتخاب میں اگر احتیاط برتی جائے،بیورو کریٹس کے ماضی اور ان کی اہلیت، قابلیت، لیاقت،خدمات کو پیش نظر رکھا جائے اور سیاسی وابستگی سے قطع نظر ٹیم کا انتخاب کر کے انہیں با اختیار بنا کر کام کرنے کا موقع دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں حکومت اپنے منشور پر کامیابی سے عملدرآمد نہ کرا سکے،پالیسیوں کا کامیابی سے نفاذ ممکن نہ ہو،ڈیلیور نہ کیا جا سکے اور عوام کو ریلیف میسر نہ آ سکے۔

کوئی حکومت اگر ڈیلیور نہیں کرتی اور عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا تو وہ حکومت کسی بھی طور کامیاب نہیں کہلا سکتی،تاہم اس کے لئے ایک منظم،مربوط،مستحکم اور اہل ٹیم کا ہونا انتہائی ضروری ہے،اس مقصد کے لئے ہر حکومت اپنی مرضی کی ٹیم کے انتخاب میں سر کھپاتی رہی،مگر یہ بھول گئی کہ ڈیلیور کرنے، ریلیف دینے اور اچھی حکومت کے قیام کے لئے مستقل نہ سہی تو لمبے عرصہ کے لئے انتظامی ٹیم کا قیام لازمی ہے،ہمارا المیہ یہ رہا کہ کسی بھی حکومتی رہنماء،وزیر یا منتخب رکن کی شکایت، افواہ نما اخباری خبروں،یا کسی زبانی حکم کی تعمیل سے انکار پر بہت اہل،قابل،مستند افسروں کو بیک جنبش قلم تبدیل کیا جاتا رہا،نتیجے میں کوئی حکومت اپنے منشور پر عملدرآمد تو دور کی بات ڈیلیور کر سکی نہ ریلیف دے سکی،تاہم گزراسال اس حوالے سے منفرد رہا،موجودہ حکومت نے بیوروکریسی کی ٹیم پر اعتماد کیا۔چیف سیکرٹری پنجاب نے بھی اپنی ٹیم کی تیاری میں محنت کی اور افسروں کو تحفظ بھی دیا، جس کے نتیجے میں حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کو تسلسل ملا،اگر چہ اس دوران بھی تبادلوں کا جھکڑ چلتا رہا اور پابندی کے باوجود وزیراعلیٰ کی منظوری سے تھوک کے حساب سے تبادلے عمل میں آئے،مگر اس کے باوجود صورتحال تسلی بخش رہی،وزیراعلیٰ مریم نواز کا رویہ بھی بیورو کریسی کے حوالے سے بہتر رہا اور بیورو کریسی کی اچھی کارکردگی کو حکومتی اور عوامی سطح پر سراہا گیا،اچھے افسروں کو اعزاز بھی دیا گیا،ایسا رویہ محنتی او ر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔

تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں ذوالفقار بھٹو کی حکومت کو بیورو کریسی نے چلایا،اگر چہ حکومتی ذمہ داروں کے بعض نام نہاد عوامی اقدامات کے نتیجے میں بیوروکریسی کی کوششیں رائیگاں گئیں،سیاسی مداخلت بھی آڑے آئی، بعدازاں فوجی آمر ضیاالحق کی حکومت کو بھی بیورو کریسی کی بیساکھیوں نے ہی دس سال تک کامیابی سے حکمرانی کرنے کا موقع دیا،نواز شریف کا تو انحصار ہی بیورو کریسی پر رہا،اب ان کی بیٹی مریم نواز بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیورو کریسی کے حوالے سے نرم اور محتاط رویہ رکھتی ہیں،جس کی وجہ سے مداخلت اور تبادلوں کے باوجود مریم نواز ڈیلیورر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، جس بناپر سال 2024ء نہ صرف بیورو کریسی کے لئے اطمینان بخش تھا اور عوام کو بھی زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ ریلیف ملا،یہ بات ذہن نشین رہے کہ منتخب ادارے اور نمائندے پانچ سال کے لئے آتے ہیں، جبکہ بیورو کریسی کو ریاست نے25سال ریاستی مفادات کی نگرانی کے لئے دیئے ہوتے ہیں،حکومت مدت پوری کر کے رخصت ہو جاتی ہے،ممکن ہے اگلے الیکشن میں عوام کسی دوسری سیاسی جماعت کو مینڈیٹ دیں،ریاست کا وجود برقرار رہے گا،اگر حکومت بدلنے کے فوری بعد تمام پالیسیاں اور اقدامات بھی ریورس ہو جائیں تو ریاست پانچ سال پیچھے چلی جائے گی اور زیرو پوائنٹ سے نئی حکومت آگے بڑھے گی،جو ریاست کے لئے بھی نقصان دہ ہے اور جمہور کے لئے بھی،اور اگر مستقل بیورو کریسی کا تقرر ہو تو وہ آنے والوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ پالیسیوں کا تسلسل بہتر ہے،فلاں پالیسی نئی حکومت کے لئے بھی سود مند ہے البتہ فلاں پالیسی میں یہ معمولی ترمیم کی جا سکتی ہے،یوں ریاست مستقل مزاجی سے آگے بڑھتی رہے گی اور ترقی کے خواب کو تعبیر سے ہمکنار کیا جا سکے گا۔

گزرے سال میں حکومت اس تناسب سے ڈیلیور کر سکی نہ عوام کو ریلیف دے سکی جس قدر عوام مسائل و مشکلات کا شکار ہیں،لیکن جو تھوڑا بہت ڈیلیور کیا گیا اور جو ریلیف عوام کا مقدر بنا وہ صرف بیوروکریسی کو ملنے والے معمولی استحکام کا نتیجہ ہے،اگر آنے والی کوئی بھی حکومت بیورو کریسی کو اعتماد میں لے کر پالیسیاں وضع کرے، اقدامات کا اعلان کرے اور پھر عملدرآمد کے لئے فری ہینڈ اور اعتماد دے، اختیار دے،جہاں فنڈز کی ضرورت ہو، بخیلی نہ کرے تو سالوں میں عوامی مسائل و مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے،سال2024ء کو اگر ابتدائیہ کہا جائے اور اسی طرح بیوروکریسی اور انتظامی مشینری کو بلا خوف تبادلہ کام کرنے کی اجازت دی جائے تو معاملات سالوں نہیں مہینوں میں اپنی ڈگر پر آ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں