پنجاب کے محکمے،عمومی جائزہ

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آبادی کا بڑھتا ہوا رجحان خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے، چالیس سے زائدانتظامی محکموں والے صوبہ کی انتظامی حالت کا جائزہ لیا جائے تو جواب غیر تسلی بخش ملتا ہے،محکموں کی اپنی حالت کا تنقیدی جائزہ لیں تو ان کی حالت بھی پتلی دکھائی دیتی ہے،قواعد و ضوابط سے قطع نظر غیر متعلقہ حکام کے اشارہ ابرو پر فیصلے ہوتے ہیں، صوبائی سیکرٹری جو اصل میں مجاز اتھارٹی ہے اکثر بے بس ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے صوبائی محکموں کی کارکردگی مثالی نہیں،صوبے اور عوام کے مفاد میں اہم نوعیت کے منصوبوں کو پس ِ پشت ڈال کر وزراء،حکومتی جماعت کے رہنماؤں،حکومتی ارکان اسمبلی کے ذاتی مفاد کے منصوبوں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔

پنجاب حکومت محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے میں دلچسپی رکھنے کی بجائے صرف وزیراعلیٰ کو خوش کرنے اور ان کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے میں مصروفِ عمل ہے، نتیجے میں معاملات مزید بگڑ رہے ہیں،البتہ کلیدی محکموں کے سیکرٹریوں کو خراجِ تحسین پیش نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی وہ ذاتی طور پر مختلف منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں،جن کا براہِ راست فائدہ صوبہ کے عوام کو ہو رہا ہے اگر چہ دائرہ کار محدود ہے،کسان کارڈکا اجراء کیا گیا،جس کی تشہیر زیادہ اور فائدہ کم نظر آ رہا ہے، کسان کو کھاد،بیج،زرعی ادویہ اور آلات خریدنے کے لئے آڑھتی کو اُونے پونے فصل اب بھی بیچنا پڑتی ہے،طلبا،طالبات کو سکالر شپ،لیپ ٹاپ، ای موٹر بائیک دی جا رہی ہیں،پنجاب کو آئی ٹی انجن بنانے کے لئے چینی کمپنیوں سے معاہدے کئے جا رہے ہیں، غریب شہریوں کو علاج کی مفت سہولت پر کام شروع ہو چکا،سکول آنے والے بچوں کو دودھ اور کھانا دینے کا پروگرام بھی دیا گیا،تاہم ان تمام اقدامات کے اعلان پر عملدرآمد کم ہی نظر آ رہا ہے۔

انتظامی معاملات کو درست کئے بغیر،محکموں کے آئینی نہیں انتظامی سربراہوں یعنی صوبائی سیکرٹری حضرات کو اختیار، اعتماد اور وسائل مہیا کئے بغیر کسی محکمے کی کارکردگی درست نہیں کی جا سکتی،جب تک آئین کی پاسداری اور قانون کی عملداری نہیں ہو گی تب تک کسی بھی محکمہ کی اصلاح ممکن نہیں،قانون اور محکمانہ قواعد و ضوابط ہی اصل نگران ہیں،ان پر عمل سے ہی کرپشن،بے ضابطگی اور بے قاعدگی پر قابو پایا جا سکتا ہے، جن ریاستی ملازمین کی ذمہ داری ہے انہی کے کندھوں پر بوجھ ڈال کر مناسب وقت دیکر معاملات کو سدھارنا ممکن ہے۔

دوسری طرف صوبہ کے انتظامی اداروں کا کیا رونا روئیں یہاں تو آئینی ادارے بھی کسمپرسی کا شکار ہیں، ہمارے حکمرانوں کا وتیرہ رہا ہے کہ آئین،قانون،ریاستی ادارے،آئینی عہدیدار جو مفادات کی راہ میں حائل ہوا اس کے پرخچے اُڑا دئیے جاتے ہیں،ایسے میں انتظامی محکموں کی کیا اہمیت اور حیثیت رہ جاتی ہے؟حکومت کی توجہ اداروں پر اس قدر ہے کہ آصف علی زرداری کے سابق صدارتی دور میں 17محکمے صوبوں کے حوالے کئے گئے، مگر آج آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ان اداروں کے وفاق میں بھی ملازم بیٹھے ہیں اور اربوں روپے سالانہ تنخواہ کی مد میں وصول کر رہے ہیں۔

ہماری معیشت شعبہ زراعت پر انحصار کرتی ہے، 70 فیصد سے زائد آبادی کا روز گار زراعت سے وابستہ ہے،مگر ہم آلو،ٹماٹر،پیاز،لہسن،ادرک،چینی،گندم،دالیں تک درآمد کر رہے ہیں،کپاس ہمارے ملک کی پہچان تھی، مگر آج ہم کپاس بھی درآمد کر رہے ہیں اور ٹیکسائل انڈسٹری تیزی سے بنگلہ دیش منتقل ہو گئی،کاشتکار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ تو جاری ہو چکا مگر کسان آج بھی مڈل مین اور آڑھتی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے،برآمدات میں ہم پسماندہ ترین ملکوں کی صف میں آتے ہیں،ہماری صنعت بھی زبوں حال ہے اور محکمہ صنعت بے بس، سرمایہ کار کو نئی صنعت لگانے کے لئے درجنوں محکموں سے این او سی لینا پڑتا ہے اس کے لئے ون ونڈو ادارہ ضرور قائم کر دیا گیا ہے، مگر اس کے لئے بھی فائلوں کا پیٹ تو بھرنا پڑتا ہے، بعینہ ہر محکمہ کی یہی صورتحال ہے،مگر حکومت پہلے سے موجود اداروں میں اصلاحات لا کر ان کو کارآمد بنانے کی بجائے نئے محکمے،نگران ادارے اور اتھارٹیز بنانے میں مصروف ہے،دعویٰ سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر ہنگامی بنیادوں پر سرکاری اداروں کو درست کرنے کا اقدام کیا جائے تو مہینوں میں تمام ادارے متحرک،فعال اور کار آمد بنائے جا سکتے ہیں،اس کے لئے ماہرین کی تقرری کرنے کی بجائے دستیاب بیورو کریسی کو اعتماد میں لے کر اختیار اور ٹارگٹ دیا جائے تو بہترین نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔

پنجاب کے حکومتی ادارے مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی، ساخت اور گورننس کے حوالے سے اکثر تنقید کی جاتی ہے۔آج ہم چند اداروں کی کارکردگی، مسائل اور اصلاحات کے ممکنہ پہلوؤں کا مختصر تجزیہ کریں گے،یہ ادارے بنیادی طور پر عوامی خدمات فراہم کرنے، امن و امان قائم رکھنے، اور ترقیاتی منصوبے نافذ کرنے کے لئے قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں تعلیم، صحت، پولیس، بلدیاتی حکومت، زراعت، اور دیگر محکمے شامل ہیں۔ تاہم،ان اداروں کو بدانتظامی، کرپشن، اور گورننس کی کمزوریوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔پنجاب میں تعلیم کا شعبہ حکومت کا ایک اہم ادارہ ہے۔ حکومت نے تعلیمی شعبے میں بہتری کے لئے مختلف منصوبے متعارف کروائے ہیں، جیسے کہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور دانش سکول لیکن ابھی تک بہت مسائل باقی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سیاسی دباؤ آڑے آتا ہے،اساتذہ کی بھرتیوں میں شفافیت اورسکولوں میں پانی، بجلی اور بیت الخلاء جیسی سہولتوں کی کمی ہے، نصاب کی غیرمعیاری تشکیل اور اپ ڈیٹ کا فقدان ہے۔تعلیم کے لئے بجٹ میں اضافے اور جدید تکنیکس استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

پنجاب میں صحت کے محکمے کی کارکردگی بھی سب سے زیادہ متنازع ہے، سرکاری ہسپتالوں میں سہولتوں کی کمی اور عملے کی بدانتظامی جاری ہے،دیہی تو درکنار شہری علاقوں میں بھی ڈاکٹروں اور عملے کے غیرپیشہ ورانہ رویہ کی شکایات ہیں،اِس سلسلے میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے،پنجاب پولیس پر عوام کے تحفظ کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ادارہ اکثر بدعنوانی، طاقت کے غلط استعمال اور عوامی اعتماد کی کمی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتا ہے،رشوت خوری اور بدعنوانی کی شکایات بہت زیادہ، جدید تربیت اور وسائل کی کمی ہے۔بلدیاتی حکومتیں عوامی مسائل کے حل کے لئے بنائی جاتی ہیں، لیکن پنجاب میں بلدیاتی نظام اکثر غیر مؤثر رہتا ہے،اسے لاگو کرنے اور اس میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے،بلدیاتی حکومت کو مزید اختیارات،مالیاتی خودمختاری اور عوامی مشاورت کا نظام متعارف کروانا ہو گا۔زراعت کے حوالے سے جدید زراعتی ٹیکنالوجی کی کمی ہے، کسانوں کے لئے قرضوں کی سہولتیں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ پانی کی قلت اور ناقص نظام آبپاشی کو بہتر بنانا ہو گا،اسی طرح جدید زرعی تحقیق اور کسانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ سبسڈی کی ضرورت ہے۔

پنجاب کے حکومتی ادارے عوامی فلاح و بہبود کے لئے قائم کیے گئے ہیں، لیکن ان میں بدانتظامی، کرپشن اور گورننس کی کمزوریاں نمایاں ہیں، ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جامع اصلاحات، شفافیت اور احتساب کے نظام کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں