پرانی بات ہے کہ ہمارے ساتھ والے گاﺅں میںایک زمیندار کی دوسرے زمیندار سے لڑائی اتنی بڑھ گئی کہ یہ خاندانی دشمنی میں بدل گئی جو کئی جانوں کو لے ڈوبی۔ وجہ تنازعہ بڑی معمولی سی تھی، کہ ان دونوں مذکورہ گھرانوں کی زرعی زمین ایک ساتھ لگتی تھیں، جہاں پر1988ءمیں سیلاب آگیا، اور زمینیں برابر ہوگئیں۔ اب ان کی زمینیں پٹواری کی مدد سے دوبارہ الگ کی جانے تھیں، تاکہ کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ لیکن ایک زمیندار کے حصے میں کم و بیش ایک فٹ زمین زیادہ آگئی ، یہیں سے ان کی لڑائی شروع ہوئی اور سالہا سال تک چلتی رہی۔ ایک دن میری اُسی زمیندار سے ایک جگہ پر ملاقات ہوگئی، تو میں نے کہا چوہدری صاحب چھوڑیں زمین کے جھگڑے کو،،، آپ کے پاس سینکڑوں ایکٹر زمین موجود ہے۔ توآپ کو ایک دو فٹ سے کیا فرق پڑتا ہے،،، موصوف اس پر فرمانے لگے کہ اگر آج اس ایک فٹ پر ہم نے اُنہیں چھوڑ دیا تو کل کو یہ باقی زمینوں کی طرف بھی دیکھیں گے اور اس طرح انہیں لت پڑ جائے گی۔ مجھے چوہدری صاحب کی بات کسی حدتک درست بھی لگی،،، اور آج سالوں بعد یہ اس لیے بھی یاد آگئی کہ جب بھارت نے پاکستان کا مکمل پانی بند کر دیا ہے تو ہم سٹپٹا سے گئے ہیں، اور کھلا اعلان جنگ کر دیا ہے۔
حالانکہ جب ہمارے حصے کے دریاﺅں پر بھارت سلال ڈیم(1978)، گلیہار ڈیم(2005)، کشن گنگا ڈیم (2010)اور رتلے ڈیم (2016)بنا رہا تھا ، تب پاکستان کو نہ تو کسی جنگ کا یاد آیا اور نہ ہی کہیں سخت ترین ایکشن لیا، بلکہ مصلحت پسندی سے کام لے کر کبھی عالمی بینک سے شکایت کی گئی، کبھی عالمی عدالت سے التجا کی گئی تو کبھی کسی ملک کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے زور ڈالا گیا۔ مطلب! اب جب ہمارے حصے کا پانی بھارت ہڑپ کرکے جنگ چاہ رہا ہے تو ہمارے وزیر اعظم ابھی بھی کہہ رہے ہیں کہ فلاں ملک آئے اور ثالثی کا کردار ادا کرے،،، ارے بھئی ! اگر اب پانی کے حوالے سے بھارت کو اُس کی اوقات سے بڑھ کر جواب نہ دیا گیا تو وہ آپ کو حقیقت میں ریگستان بنا دے گا۔ اور کیا یہاں کسی کو علم نہیں ہے کہ عالمی قوانین کے مطابق جس طرف دریا کا بہاﺅ ہوتا ہے، اُس کے راستے میں آنے والے ممالک کا اُس دریا پر حق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یعنی دریا کی ”ٹیل“ پر موجود ممالک کا دریا پر زیادہ حق سمجھا جاتا ہے۔ یہی قوانین دریائے نیل پر بھی لاگو ہیں جو 11ممالک سے ہو کر گزرتاہوابحیرہ روم میں گرتا ہے۔ان گیارہ ممالک میں بھی ممکن ہے پانی کی تقسیم پر کبھی فساد ہوا ہوگا۔ آپس میں ناچاقی ہوئی ہوگی۔ مگر آج کے ماڈرن دور میں ہم نے کبھی کوئی ایسی خبرنہیں سنی۔ ان ممالک میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کی طرح کا ”نیل ایگریمنٹ“ موجود ہے ، جسے 1929ءمیں تمام فریقین کی مدد سے لاگو کیا گیا تھا اور آج بھی وہی چل رہا ہے۔ مگر مجال ہے کہ کسی بڑے ملک نے اس پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن یہاں دو ملکوں کے درمیان چند دریاﺅں میں وہ رسہ کشی موجود ہے جو دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں ہے، اور یہ بھارت کی وجہ سے ہے، کیوں کہ وہ ان دریاﺅں کے ”ہیڈ“ پر بیٹھا ہے۔ اور تبھی وہ سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم کیے بیٹھا ہے،،، یعنی اطلاعات یہ ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہونے والے بھارت کے سکیورٹی کونسل اجلاس میں دو فیصلے کیے گئے ہیں۔ ایک تو دریائے چناب اور جہلم پر پانچ ڈیم بنانے کی منظوری اور انہیں جلد از جلد مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں اور دوسرا نومبر 1971ءمیں مشرقی پاکستان پر حملے کی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی آرمی کویہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جنگ کے بارے میں جو حکمت عملی اختیار کرنا چاہے اور جس وقت کا تعین کرنا چاہے‘ آزادانہ طور پر کر سکتی ہے۔
خیر آگے چلنے سے پہلے سندھ طاس معاہدے پر ایک نظر ڈالیں تو سندھ طاس معاہدے کی رو سے پنجاب کے تین مشرقی دریاﺅں راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا ، جبکہ تین مغربی دریاﺅں سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔ 1950ءکی دہائی میں امریکی اخبارات میں مضامین لکھے جا رہے تھے کہ مستقبل میں پانی کے مسئلے کو لے کر پاکستان اور بھارت کی جنگ ہو سکتی ہے۔ امریکی ماہرین اور ورلڈ بینک کے صدر بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اگر دونوں ملکوں کے مابین دریاﺅں کی تقسیم کا معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان اور بھارت کے مابین اس مسئلے پر خون ریز جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ اکتوبر 1955ءمیں جب پاکستان میں وَن یونٹ بنا اُس وقت بھی ملک میں نہری پانی کا جھگڑا چل رہا تھا اس کے باوجود پاکستانی حکومت امریکہ کے آبی ماہر رابرٹ تھل کے تجویز کردہ سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اُس موقع پر صدر اسکندر مرزا نے پنجاب کی لیڈر شپ ختم کرنے کیلئے ڈاکٹر خان صاحب (خان عبدالجبار خان)کو مغربی پاکستان کا وزیراعلیٰ بنادیا جنہیں عطا محمد نامی شخص نے قتل کر دیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کے قتل کے بعد غیر معروف سیاسی شخص نواب مظفر علی قزلباش کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ شنید ہے کہ مظفر علی قزلباش قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والوں میں شامل تھے۔ پنجاب میں مظفر قزلباش کی حکومت کے دوران مرکز میں فیروز خان نون کو وزیراعظم بنادیا گیا‘ جو برطانوی حکومت کے خصوصی نمائندے تھے۔ نواب مظفر قزلباش کی سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی نے مغربی پاکستان میں جمہوری ادارے کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نواب مظفر قزلباش اور صدر اسکندر مرزا نے امریکہ کی اشیر باد سے ملک میں مارشل لاءنافذ کرکے کمانڈر انچیف ایوب خان کو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا جنہوں نے بعد ازاں 27اکتوبر1958ءکو صدر اسکندر مرزا کو ملک بدر کرکے خود صدرِ مملکت کا منصب سنبھال لیا۔ صدر ایوب خان کی کابینہ میں عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد شعیب کو مرکزی وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مرکزمیں اہم وزارت سے نوازا گیا۔ محمد شعیب نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے چند ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملا کر صدر ایوب خان کے گرد گھیرا تنگ کیا اور انہیں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیلئے آمادہ کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے ابتدائی خاکے کی تیاری کے دوران جب 1957ءمیں کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان سے رائے مانگی گئی تو انہوں نے اپنے ریمارکس میں لکھا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایسے کسی معاہدے کے حق میں نہیں جو پاکستان کیلئے خود کشی کے مترادف ہو اور انہوں نے تحریری طور پر سندھ طاس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔ مگر اقتدارکی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں،،، لہٰذاصدر ایوب بھی سندھ طاس معاہدے کے حامی بن گئے ۔ حالانکہ محترمہ فاطمہ جناح اس معاہدے کے سخت خلاف تھیں اور سمجھتی تھیں کہ یہ معاہدہ پاکستان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا اور اندیشہ ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے کیونکہ جہلم‘ چناب اور سندھ کے پانی سے جو نہریں نکالی جائیں گی ان کی افادیت وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کم ہوتی جائے گی اور بھارت جدید ترین ٹیکنالوجی کیساتھ بالآخر چناب‘ جہلم اور سندھ کا پانی بھی کشمیر کے بالائی حصے میں روک لے گا۔ اس پس منظر میں سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر1960ءکو کراچی میں طے پایا اور جس پر بھارت کی طرف سے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے دستخط کیے تھے۔ اس موقع پر پاکستان کے قدرتی وسائل کے مرکزی وزیر ذوالفقار علی بھٹو‘ سیکرٹری قدرتی وسائل نذیر احمد‘ وزیر خزانہ محمد شعیب‘ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر اے کے بروہی‘ سندھ طاس معاہدے کے مرکزی کردار جی معین الدین‘ جو بعد میں چیف الیکشن کمشنر پاکستان مقرر ہوئے‘ اور دیگر رہنماﺅں نے اس تقریب میں اظہارِ تشکر کے بیانات جاری کیے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ خدا کے فضل و کرم سے صدر ایوب خان نے پاکستان کو ریگستان بننے سے بچا لیا‘ ہمارے صدر کی عظیم صلاحیتوں کا دنیا بھر میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
خیر سندھ طاس معاہدہ دونوں ملکوں کیلئے اتنا اہم تھا کہ اسے اس سے قبل ہونے والی تین پاک بھارت جنگوں کے موقع پر کبھی زیر بحث نہ لایا گیا کیونکہ اس کے سنگین نتائج نکلتے‘ لیکن نریندر مودی کی پالیسی ماضی کی بھارتی حکومتوں سے مختلف ہے۔ ان کی سیاست اپنی مسلم مخالف پالیسیوں اور پاکستان مخالف نعروں پر ٹکی ہوئی ہے اس لیے پہلگام واقعہ کے دو روز بعد ہی انہوں نے اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت 23کلو میٹر طویل سرنگ بنا کر چناب کا پانی اپنی طرف منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔اس سرنگ کے ساتھ دریائے توی کو بھی جوڑا جائے گا‘ جو چھب جوڑیاں سے منسلک ہے۔ راوی اور بیاس سے پانی ستلج جمنا لنک کینال سے ہریانہ اور یوپی کو سپلائی کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔اسی طرح دریائے جہلم کا پانی وولر جھیل میں ذخیرہ کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے لیکن اُن بڑے بڑے پہاڑوں کی وجہ سے‘ جہاں سے دریائے جہلم نکلتا ہے‘ اس کا پانی مکمل طور پر روکنا بھارت کیلئے ممکن نہیں۔ پاکستان کیلئے بھارت کی جانب سے پانی روکنے سے بھی زیادہ بڑا خطرہ یہ ہوگا کہ بھارت بغیر اطلاع دیے پاکستانی دریاﺅں میں سیلابی پانی چھوڑ دے، جو یہاں بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ پنجاب کے تین مشرقی دریا پہلے ہی بھارت کے پاس ہیں اور بھارت اب دو مغربی دریاﺅں سے ہریانہ اور اُتر پردیش کو پانی فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ پانی پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ اگربھارت اس آبی جارحیت سے باز نہیں آتا تو پاکستان کیلئے بھارت سے جنگ لازم ہو جائے گی۔ اگرچہ مسئلہ کشمیر بھی دونوں ملکوں میں وجہ کشیدگی بنا رہا ہے مگر ہر بار جنگ کے خطرات ٹل جاتے رہے تاہم اگر بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی روک لیا تو پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گی کہ وہ اپنے حصے میں آنے والے دریاﺅں پر بنائے جانے والے ڈیموں کو بموں اور میزائلوں سے اُڑا دے۔یقینا ایسا کرنے پر پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
بہرکیف پانی کے مسئلے پر جنگ آج نہیں تو کل ناگزیر ضرور ہے،،، یہ ہو کر ہی رہے گی۔ہمیں اس کے لیے ابھی سے مربوط تیاری کرنے کی ضرورت ہے،،، یہ نہیں کہ جب جنگ سر پر کھڑی ہو تب ہم بھاگ دوڑ کریں، اور پھر یہ جو ہمارے حصے کے دریاﺅں پر ڈیم بنے ہیں، اور ہم نے ان پر مجرمانہ غفلت کا مظاہر ہ کیا اور خاموش رہے، ،، اس کی وجہ سے بھی آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمیں اُسی وقت ان پر سخت ایکشن لے لینا چاہیے تھا۔ حتیٰ کہ ہمارے لوگ بھارت کے ہاتھوں فروخت ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے پراجیکٹ پر ایسے بندوں کو لگایا جائے جن کی ساکھ بہتر ہو۔ ورنہ کرپٹ لوگ تو باقی دریا بھی اونے پونے داموں بیچ ڈالیں گے۔ ویسے یہ بات تو طے ہے کہ جن جگہوں پر وہ ڈیم بنانا چاہتا ہے اور دریاﺅں کے رُخ موڑنا چاہتا ہے وہ ایسا فوری طور پر تو نہیں کر سکتا۔ اُس پر تو اُسے کم از کم 5، 7سال تو لگیں گے،،، اور پھر دریائے سندھ پر اس کے لیے دریا کا رُخ موڑنا نسبتاََ مشکل ہے کیوں کہ یہ دشوار گزار راستوں سے گزر کر آتا ہے۔
پھر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو درست کرنا چاہیے، ہمیں چین سے کہلوانا چاہیے کہ اگر اُس نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو چین سے بھارت میں داخل ہونے والے اہم ترین دریادریائے براہماپترا (Brahmaputra River) کو چین بند کر دے گا،،، یہ دریا تبت (Tibet) کے پہاڑوں سے نکلتا ہے، جہاں اسے یارلنگ سانگپو کہا جاتا ہے۔ پھر یہ دریا ہمالیہ کے ذریعے مشرق کی طرف بہتا ہے اور ایک گہری گھاٹی سے گزر کر بھارت کے شمال مشرقی علاقے اروناچل پردیش میں داخل ہوتا ہے۔ بھارت میں اسے براہماپترا کہا جاتا ہے، اور یہ آگے جا کر آسام اور بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔
یہ بھی ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جب سندھ طاس معاہدہ ختم ہوتا ہے تو پھر مشرقی دریاﺅں پر بھی پاکستان کا حق ہوگا، ہمیں وہ حاصل کرنے کے لیے بھی کارروائیاں کرنی چاہیے، اس پر پالیسی بنانی چاہیے،،، کہ جیسے جہاں سے راوی کا پانی پاکستان میں داخل ہوتا ہے وہاں بند بنا دیا جائے، ،، ایسا کرنے سے بھارتی پنجاب کا ایک بڑا حصہ پانی سے متاثر ہوگا۔ ستلج پر بھی ایسا ہی کرنا چاہیے،،، لیکن ایسے اقدامات کے لیے ایک مربوط اور قابل افراد پر مشتمل ایکشن کمیٹی بنائی جائے جو یہ ابھی سے ہی یہ کام سرانجام دے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو بھوکے پیاسے مریں گے۔۔۔ اور مرنے سے بہتر ہے کہ لڑ کر مرا جائے!
