پیپلز پارٹی،مسلم لیگ اختلافات؟

موجودہ اتحادی حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں میں اختلاف ان کے گلے ملنے کے وقت بھی موجود تھا، ماضی پر نگا ہ دوڑائیں تو بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کے مخالف ایک سیاسی فورس تشکیل دینے کا کام جنرل ضیاالحق نے شروع کیا تھا اور وقت کے ساتھ اختلاف کا یہ پودا پروان چڑھتا گیا،بینظیر کی واپسی سے قبل غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن کرا کے پیپلز پارٹی کے مخالفین کو مسلم لیگ کے نام سے پارٹی کا پلیٹ فارم دیا جا چکا تھا،یوں سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوا جو بھٹو کے گرد ہی گھومتا تھا، اینٹی بھٹو مسلم لیگ(ن) کے پلیٹ فارم اور پرو بھٹو پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی میدان میں سرگرم ہوئے،سیاست میں یہ کھیل 2004ء کے الیکشن تک جاری رہا،اس دوران نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے ایماپر یہ آگ اور پانی میثاق جمہوریت کے معاہدہ میں بندھ کر وطن واپس لوٹے اور پرویز مشرف کے راستے میں حائل ہوئے،اِسی دوران بینظیر کو دہشت گرد حملہ میں شہید کر دیا گیا،پارٹی کی زمام کار آصف علی زرداری نے سنبھالی،اس کے بعد سیاست کا نیا باب شروع ہوا، مگر دور اور سوچ وہی مخاصمانہ رہی۔

2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی اور اس نے حکومت بنائی،آصف علی زرداری نے قصر صدارت سنبھالا،اور مفاہمت کا ڈول ڈالا،جس کے نتیجے میں پانچ سال کامیابی سے حکومت میں گزارے، مگر اس دوران میثاق جمہوریت،وقت کی گرد میں دب گیا اور دونوں جماعتوں میں اختلاف بڑھتا گیا، 2013ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی بھی خم ٹھوک کر میدان میں اُتری، مگر کامیابی نواز شریف کا مقدر بنی،اِس دوران عمران خان دونوں، جبکہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر برستے رہے، 2018ء الیکشن کے نتائج نے ایک بار پھر دونوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا، مگر ان کی روش بدلی نہ چلن میں تبدیلی آئی،نتیجے میں عمران خان دونوں کو روندتے ہوئے الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔یہاں سے پھر ایک نئے دور کا آغاز ہوا، موسم بدلا،نا دیدہ قوت نے عمران خان کو معزول کرنے کا سوچا تو ماضی کی حلیف، مگر آپس میں حریف جماعتوں کی ضرورت پڑی اور بزورِ بازو ایک غیر فطری اتحاد تشکیل دیا گیا جس میں آگ اور پانی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو بغل گیر کرایا گیا، عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی، کامیاب ہوئی اور یوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر حکومت بنائی۔

پی ڈی ایم حکومت کا ڈیڑھ سالہ دور آیا، مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ کربے قابو ہو گیا،ٹیکسوں کی بھرمار نے کاروبار مشکل کر دیا،کرنسی کی قدر گھٹتی گئی،نتیجے میں عوام کی زندگی عذاب بن گئی،اِسی دوران نگران حکومت نے سال بھر کے وقفے سے الیکشن کرائے تو تحریک انصاف کی اکثریت کو اقلیت میں بدل ڈالا گیا،ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کومشترکہ حکومت سازی پر مجبور کیا گیا، مگر پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مشترکہ حکومت سازی سے گریزاں دکھائی دی،تا ہم ایک بار پھر آگ اور پانی ایک ہی حکومت میں گلے مل لئے،آئینی عہدے برابر لئے، مگر حکومت کے انتظامی امور سے خود کو دور رکھا،جہاں ہو سکا حکومت کی مخالفت بھی کی،آج یہ اختلافات بام عروج پر ہیں،اگر چہ عمران خان کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے دونوں کا اتحاد ضروری تھا، مگر پیپلز پارٹی کو ن لیگ پر اعتبار ہی نہیں ہے،اعتماد سازی کی ہر کوشش اعتماد توڑنے کے لئے کی جاتی رہی، اوپر سے مل بیٹھنے کا حکم تھا اس لئے چارو ناچار غیر فطری اتحاد بن گیا،سب کو لگتا ہے کہ یہ اتحاد بس چند روز کا مہمان ہے، مگر جس طاقت نے یہ اتحا کرایا اور پھر یہ اتحادی حکومت بنائی ہے وہ جب تک نہیں چاہے گی دونوں روتے دھوتے ساتھ رہیں گے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتحاد زرداری کی جادوگری ہے جس کے نتیجے میں آدھی ٹرم کے لئے بلاول وزارتِ عظمیٰ سنبھال سکتے ہیں،تاہم پیپلز پارٹی کے پاس مرکز میں اتنی افرادی قوت نہیں ہے کہ بلاول مضبوط وزیراعظم کے طور پر زمام کار سنبھال سکیں گے،پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی بہت پیچھے ہے،پیپلز پارٹی کی پنجاب میں تنظیم سازی پر توجہ بھی نہیں،اگرچہ پنجاب میں گورنر بھی پیپلز پارٹی کا ہے، مگر پارٹی میں ہل جل اب بھی دکھائی نہیں دے رہی،شائد گورنر کا عوامی نہ ہونا اس کی وجہ ہو، اگر قمر زمان کائرہ یا ندیم افضل چن کو یہ عہدہ سونپا جاتا تو وہ آئینی امور کی انجام دہی کیساتھ پارٹی کو بھی صوبہ میں منظم کر نے کی کامیاب کوشش کرتے،یہ بات طے ہے کہ موجودہ گورنر پارٹی کے پنجاب میں مردہ گھوڑے میں جان نہیں ڈال سکے،پارٹی کو اگر نئے سرے سے پنجاب میں منظم کر کے متحرک اور فعال کر بھی لیا جائے تو بھی فی الحال بلاول کے وزیراعظم بننے کا خواب بوجوہ تعبیر سے عاری رہے گا۔

یہ بات البتہ پتھر پر لکیر ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد تا دیر قائم نہیں رہ سکتا،دونوں کے منشور میں زمین آسمان کا بعد ہے،پیپلز پارٹی نجکاری کی مخالف ہے مسلم لیگ تمام ریاستی اثاثے فوری فروخت کرنے کی خواہشمند،پیپلز پارٹی پی آئی اے کی نجکاری کے حق میں نہیں، جبکہ مسلم لیگ(ن) اسے فوری گلے سے اتارنا چاہتی ہے،قانون سازی میں بھی دونوں کے نقطہ نظر میں خاصا اختلاف ہے،مختلف نوعیت کی قانون سازی میں بھی اتفاق رائے کا فقدان ہے،البتہ عمران خان کے خوف سے اگر دونوں اکٹھے رہے بھی تو بادل نخواستہ اور اتفاق رائے کے بغیر معاملات چلاتے رہیں گے،فوری طور پر پنجاب میں قدم جمانا بھی پیپلز پارٹی کے لئے ممکن نہیں،اور اسٹیبلشمنٹ کب تک یہ اتحاد اور ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانا چاہتی ہے اس حوالے سے بھی خیال رکھنا ضروری ہے، البتہ زرداری کی جادو گری بھی ایک حقیقت ہے ان کی مفاہمت کی سیاست جانے کب کوئی مفاہمتی فارمولا تراش لے،لگتا یہی ہے کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے اتحاد کر کے گھاٹے کا سودا نہیں کیا،پنجاب میں بھی ان کی جماعت کا کوئی وزن نہیں ایسے میں صرف جادوگری اور مفاہمت سے ہی بلاول کو وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ زرداری کی اگلے الیکشن پر نظر ہے تو خام خیالی ہو گی اِس لئے کہ ہمارے سیاستدان ہاتھ میں ایک پرندے کو جھاڑیوں میں دو پرندوں پر اہمیت دیتے ہیں،ہاتھ میں اس وقت مسلم لیگ(ن) ہے وہ جو کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ(ن) سے اتحاد ہی اس شرط پر ہوا تھا کہ آدھی مدت کے لئے بلاول کو وزارت عظمیٰ دی جائے گی تو غلط نہیں کہتے،عمران خان کا مقابلہ کوئی اکیلے نہیں کر سکتا اس کے لئے اتحاد ضروری ہے،ورنہ پیپلز پارٹی تو بہت پہلے سے عمران خان کے ساتھ سیاسی اشتراک عمل کے لئے تیار بیٹھی ہے رکاوٹ صرف عمران خان کا ترش اور دوٹوک رویہ تھا، تاہم اب پیپلز پارٹی یا فضل الر حمن عمران خان کی بھی ضرورت ہیں،یہ کارڈ پیپلز پارٹی ہاتھ میں لیکر بیٹھی ہے جو دکھا کر وہ اپنی ہر بات منوا سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں