جنرل پرویز مشرف کا دور تھا، میں ایک ٹی وی پروگرام میں بیٹھا، ہمارے اینکر صاحب نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ جس طرح گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے، اسی طرح ڈکٹیٹر شپ کی دہائیوں کی حکومت سے جمہوریت کی چند دن کی حکومت بہتر ہے۔ میں نے اینکر کو کٹ کیا اور برملا کہا کہ ہماری ڈکٹیٹرشپس میں کچھ کام اچھے بھی ہوئے ہیں، جیسے ایوب دور میں ڈیم بنے،،،ابھی میں نے کچھ چیزیں گنوانا ہی شروع کی تھیں کہ اینکر نے مجھے کٹ کر دیا اور مزاحاََ کہا کہ بس کردیں! یہ بری چیز ہے تو مطلب ہے! میں خاموش ہوگیا،، کہ شاید اُسے ایسی ہی Instructionsدی گئی ہوں….پھر چند سال بعد یعنی 2018ءمیں اُسی اینکر کو میں نے یاد دلایا کہ ہاں جی! کیسا لگا پانچ سالہ پیپلزپارٹی ، اور پانچ سالہ ن لیگی دور”جمہوری“ دور۔ اس پر موصوف مسکرائے اور کہا کہ مجھے ان دونوں ادوار سے زیادہ مشرف کی ڈکٹیٹر شپ والا دور اچھا لگ رہا ہے۔ میں نے اُن صاحب سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک یہ دونوں پارٹیاں جمہوری ہے ہی نہیں!،،، میں نے کہا کیوں بھئی! انہوں نے کہا یہ ون مین آرمی ٹائپ جماعتیں ہیں، جو ”اوپر“ سے پیغامات وصول کرتی اور اُن پر من و عن عمل کرنے کی عادی ہیں،،، اور درمیان میں اپنا ”داﺅ“ بھی لگا لیتی ہیں۔ انہی پارٹیوں کی وجہ سے آج ہماری جمہوریت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
جی ہاں ! ہماری جمہوری پارٹیوں کا یہی مسئلہ ہے، اُن میں جمہوریت برائے نام رہ گئی ہے، ورنہ وہ ملک میں سیاسی سرگرمیوں کو کبھی نہ رُکنے دیتیں۔ آپ گزشتہ روز ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کو ہی دیکھ لیں، اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے کون سا حربہ استعمال نہیں کیا اسے روکنے کے لیے۔ کونسا ایسا روڈ تھا جسے بڑے بڑے کنٹینر لگا کر بند نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ جلسے میں آنے والے افراد کی گاڑیاں تک تھانوں میں بند کر دی گئیں، اور پھر جو لوگ جلسے کے قریب پہنچ گئے اُن پر پولیس نے شیلنگ کر دی۔ جبکہ مظاہرین نے بھی پتھر برسائے جس سے چند اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ پولیس کا موقف تھا کہ آپ کے جلسے کا وقت 7بجے ختم ہو جاتا ہے، اس لیے اب آپ جلسہ نہیں کر سکتے۔ ویسے علم نہیں کہ جلسے کے لیے اتنے مخصوص وقت کا تعین کیوں کیا گیا؟ لیکن یہ بھی حوصلے والی بات ہے کہ حکمرانوں نے جلسہ کی اجازت 40شرائط کے ساتھ دی تھیں،،، یہ بھی یقینا ایک قومی ریکارڈ ہے!خیر اس شیلنگ کے درمیان میں میرے ذاتی ذرائع نے بتایا کہ کسی وچولے نے ”سرکار“ کو فون گھمایا کہ دو گھنٹے کا مزید وقت دے دیں ہم جلسہ کرکے چلے جائیں گے ، پھر مزید وقت ملا اور جلسہ ختم کر دیا گیا۔
چلیں! مان لیا کہ تحریک انصاف نے 9مئی کو وہ کیا جو اُسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کو ہے، کیا اس حوالے سے تحقیقات مکمل ہوگئیں؟ کیا اس حوالے سے کوئی جوڈیشل کمیشن بنا؟ چلیں یہ بھی چھوڑ دیں،،، آپ نے قصور وار کارکنوں اور قائدین کو پکڑا ہوا ہے،،، تو باقی کارکنان کا کیا قصور ہے؟ اُنہیں تو جمہوری سرگرمیاں کرنے دیں! اُن سے آپ کو کیا خطرات ہیں؟ میرے خیال میں اگر کسی کے ذہن میں یہ ہے کہ اس طرح پارٹی ختم ہو جائے گی تو ایسی کوشش ڈکٹیٹر حضرات نے بھی بہت کیں،،، لیکن نہ تو آج تک پیپلزپارٹی کا وجود ختم ہو سکا اور نہ ہی کسی دوسری پارٹی کا۔
لہٰذاریاست ماں کا کردار ادا کرے،،، اور سب کو ساتھ لے کر چلے ایسا کرنے سے یقینا ملک میں مفاہمتی فضاءقائم ہوگی۔ اور پھر ایسا کب نہیں ہوا کہ صدق دل سے اقدامات کیے ہوں ۔ اور اُس کے بہتر نتائج نہ ملے ہوں؟ آپ تاریخ کو اُٹھا کر دیکھ لیںآپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بڑا دل رکھ کر اقدامات کیے جائیں تو اُس کے مثبت نتائج ہی ملتے ہیں۔ مثلاََ فتح مکہ کے واقعہ کو ہی لے لیجیے کہ جب آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے اور مفتوحین کے ساتھ کس قدر محبت شفقت اور معافی کا معاملہ فرمایا کہ جب مہاجرین مکہ دس ہزار لشکر جرار لے کر لشکر کفر و شرک پر چڑھائی کرتے ہیں اور فرطِ مسرت میں ڈوبے ہوئے اس عظیم اسلامی لشکر سے آواز آتی ہے کہ آج بدلے کا دن ہے اور خوب بدلہ لیں گے، آج ہم سمیعہؓ کی آہوں اور صہیبؓ کی سسکیوں کا بدلہ لیں گے۔ آج ہم حضرت بلال حبشیؓ کی چیخوں کا بھی بدلہ لیں گے۔ آج کوئی نہیں بچے گا۔ ہر کوئی اپنے انجام کو پہنچے گا۔ مگر ہمارے کریم آقا ﷺ نے سب پر نگاہِ رحمت ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”بولو! تم لوگوں کو کچھ معلوم ہے، آج میں (محمد ﷺ) تم لوگوں سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟“یہ سوال سن کر سب قیدی کانپ اُٹھے اور اُن پہ لرزہ طاری ہوگیا، کیوں کہ ماضی قریب میں آپ پر اپنے ہاتھوں اور زبان سے کیے ہوئے ظلم و ستم ایک ایک کرکے سب یاد آرہے تھے۔ سب کے سب بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں سر جھکا کر یک زبان ہو کر بولے: یارسول اللہ ﷺ! آپ کریم بھائی اور کریم باپ کے بیٹے ہیں۔ یہ جواب سُن کر رحمتِ عالم ﷺ نے اپنے دل نشین اور کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا: ”آج میں وہ کہتا ہوں، جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ اسلام نے کہا تھا کہ آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔“آپ نے عفو عام کا اعلان فرما دیا، معافی کا اعلان سنتے ہی جنگی قیدیوں کی آنکھیں فرطِ جذبات سے اشک بار ہو گئیں اور زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہوگیا۔ ان معافی پانے والوں میں کیسے کیسے لوگ تھے ذرا تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھیے۔انہی صحابہ ؓ کرام نے اگلی فتوحات کو انجام دیاتھا۔
پھر صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد بڑا دل رکھا اور عام معافی کا اعلان کیا تھا، جس کے دورس نتائج دیکھے گئے۔ پھر آپ 2021ءمیں افغانستان میں بننے والی طالبان کی حکومت کو دیکھ لیں،،، طالبان نے 20سال کون کون سے امریکی ظلم نہیں سہے مگر اُس نے اقتدار میں آتے ہی قومی ہم آہنگی کا اعلان کیا۔ طاقت میں واپس آنے کے بعد طالبان نے برداشت اور اعتدال کی فضاءقائم کرتے ہوئے سب سے پہلے سرکاری ملازمین کےلئے عام معافی کا اعلان کیا۔پھر انہوں نے اُن کے لیے عام معافی کا اعلان کیا،،، اس بڑے اقدام کا فائدہ یہ ہوا کہ آج اُن کی کرنسی اور معیشت پاکستان سے بہتر ہے۔ وہاں آج بھی ہر دفتر میں ایمانت داری سے کام ہو رہا ہے۔
الغرض نیلسن مینڈیلا کہا کرتے تھے کہ عظیم لوگ اعلیٰ مقصد کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے سے کبھی گھبرایا نہیں کرتے، اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کو اپنا شراکت کار بنا لیں۔یہی بات امریکہ کے سولہویں صدر ابراہام لنکن بھی کہا کرتے تھے کہ میں اپنے دشمن کو دوست بناکر دشمنی ختم کرنے کا قائل ہوں، عظیم امریکی لیڈر ابراہام لنکن نے سیاہ فام غلامی کے خاتمے کیلئے اپنا بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔ میں ہر فورم پر اپنا یہ موقف پیش کرتا ہوں کہ کامیابیوں کے حصول کیلئے ہرمذہب کی اعلیٰ تعلیمات اور تاریخ کے عظیم انسانوں کی زندگیاںہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔ لہٰذامیں پھر یہی کہوں گا، کہ 9 مئی کا واقعہ قابل مذمت ہے مگر 8 فروری کے مینڈیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عوام الناس نے اس فروگزاشت کو قابل اعتناءنہیں سمجھا اور عمران خان کو قطار اندر قطار ووٹ ڈالے ہیں، اگر کسی غلطی پر عوامی گواہی میسر نہ آئے تو وہ غلطی بھی ہوا میں اڑ جاتی ہے۔
ایک دوست صحافی کہتے ہیں کہ یاد کریں کہ 1977ءمیں قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی میں خونیں جنگ جاری تھی، قومی اتحاد کی قیادت جیلوں میں بند تھی مگر پھر ان کو سہالہ ریسٹ ہاﺅس منتقل کرکے مذاکرات شروع کئے گئے۔ اب بھی ملکی استحکام، سیاسی ساکھ اور معاشی مستقبل کیلئے ایسا کرنا اشد ضروری ہے۔ عمران خان خوشحال اور پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ایچی سن کالج اور آکسفورڈ میں پڑھے، کرکٹ میں آئے تو سلیبریٹی بن گئے۔ مقتدرہ کا غصہ بھی اب ٹھنڈا ہوجانا چاہیے اور عمران کے ساتھ ہونے والا سوتیلا سلوک اب ختم ہونا چاہیے۔اُن کی پارٹی کو جلسے جلوس کرنے کی اجازت دے دینی چاہیے،،، فرض کریں میری یہ تجویز مان لی جائے تو یکایک ملک میں کشیدگی کا ماحول بدل جائے گا اور ریاست اپنی بھرپور توجہ معیشت کی بہتری کی طرف مرکوز کر سکے گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مقتدرہ اور عمران خان میں ذاتی اختلافات تو ہیں پالیسی اختلاف کوئی بھی نہیں، اسلئے اس رابطے میں دونوں طرف سے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔اسی طرح باقی سیاسی اسیران جیسے ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید کو اہل لاہور دہائیوں سے جانتے ہیں یہ شرپسند نہیں، ہاں پارٹی کے وفادار ہوسکتے ہیں۔ انہیں جیلوں میں بند ہوئے مہینوں ہوچکے اب ان کو ریلیف ملنا چاہیے وہ سیاست میں واپس آئیں گے تو اس سے اعتدال آئے گا، اسی طرح روپوش حماد اظہر اور اسلم اقبال کو ان کے حلقہ نیابت نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے یہ دونوں نوجوان ہیں ان کا سیاسی مستقبل روشن ہے، ان کیلئے جمہوری راستہ کھولنا چاہیے۔ بلکہ گرفتار تمام افراد کو چھوڑ دینا چاہیے تاکہ ملک آگے بڑھ سکے!
اور رہی بات مذکورہ جلسے کی تو یہ جلسہ جیسے تیسے ہوگیاہے، اسی طرح آئندہ جلسے جلوس بھی ہو جائیں گے،،، تو اُس سے کیا فرق پڑے گا؟ لہٰذان لیگ اور پیپلزپارٹی ،،، تحریک انصاف کے لیے اتنے کانٹے بچھائے جتنے کل کو یہ برداشت کرسکیں کیوں کہ بقول شاعر
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے