چیمپئن ٹرافی میں موقف کی جیت! اور اپنے شاہینوں کا اعزاز!

بھارتی میڈیا کی اطلاع کے مطابق اگلے سال فروری میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی میزبانی میں ہونے والی چیمپئنز کرکٹ ٹرافی کے انعقاد کا فیصلہ طے پا گیا اور بھارت کرکٹ بورڈ کی تجویز کے جواب میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا موقف مان لیا گیا، اس کے مطابق اگر بھارتی ٹیم ٹرافی کے اپنے میچ پاکستان میں کھیلنے کی بجائے غیر جانبداروینیو پر کھیلے گی تو پاکستان کرکٹ ٹیم بھی آئندہ مقابلوں کے لئے بھارت نہیں جائے گی اور اپنے میچ غیرجانبدارگراؤنڈ میں ہی کھیلے گی۔ حالیہ ٹرافی کے لئے بھارت کے بورڈ کی طرف سے دبئی کو مرکز بنایا گیا ہے اور بھارت کے حصے کے تمام میچ وہی ہوں گے چاہے وہ سیمی فائنل یا فائنل ہو جائے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے اسے پاکستان کرکٹ بورڈ کی فتح قرار دیا، اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے مبنی برانصاف موقف کو جیت ملی ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے کھیل میں بھی سیاست لائی گئی اور بھارتی حکومت نے ٹیم پاکستان بھیجنے کی اجازت نہ دی تھی، اسی کے جواب میں پاکستان نے بھی جوابی موقف اختیار کیا جسے وزیراعظم کی بھی مکمل حمائت حاصل ہوئی۔ ان سطور کے پریس میں جانے تک فیصلے اور شیڈول کا اعلان سامنے نہیں آیا، تاہم آئی سی سی اعلان کر دے گی جس کے بعد چیمپئن ٹرافی کے انعقاد پر چھائے غیر یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے۔

بھارت کی متعصب مودی حکومت کا رویہ صرف انہی امور تک محدود نہیں وہ تو پاکستانی شہریوں کو ویزا ہی جاری نہیں کرتی حتیٰ کہ بھارت میں بزرگان دین کے عرسوں کے مواقع پر بھی سختی سے کام لیا جاتا اور کم سے کم افراد کو شرکت کے لئے ویزے جاری کئے جاتے ہیں حالانکہ پاکستان کی طرف سے حالات بالکل مختلف ہیں۔ حکومت پاکستان ہندو اور سکھ یاتریوں کی تہواروں کے موقع پر آمد کے لئے فراخدلی کا مظاہرہ کرتی اور زیادہ سے زیادہ ویزوں کے اجراء کی سہولت دی جاتی ہے حال ہی میں بابا گورونانک کے یوم ولادت کے حوالے سے میلے کے لئے بھارتی سکھ شہریوں کو تین ہزار ویزے جاری کئے گئے تھے جو دس سے 15روز کے لئے تھے۔ا ن میں ننکانہ صاحب کے علاوہ حسن ابدال، کرتارپور، ڈیرہ صاحب لاہور اور دیگر مقامات کی اجازت شامل تھی۔ اس کے علاوہ ہندو یاتری بھی ویزے اور اپنے مقامات مقدسہ پر جانے کی آزادی سے مستفید ہوتے ہیں اور ان کی خاطر داری اور حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ بھارتی شہری ہمیشہ مطمئن ہو کر جاتے ہیں، بھارتی رویہ بہرحال ناپسندیدہ رہا ہے حال ہی میں نابینا کرکٹ ورلڈکپ کے پاکستان میں انعقاد پر بھارتی نابینا ٹیم کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور یہ ٹورنامنٹ بھارتی ٹیم کے بغیر ہوا اور پاکستان نے یہ جیت لیا تھا۔

چیمپئن ٹرافی کرکٹ ٹیم پر بھی سیاست ہی کی گئی اور ٹیم کو بھیجنے سے انکار کیا گیا۔ چونکہ پاک بھارت میچوں کی وجہ سے شائقین کرکٹ کی غیر معمولی پذیرائی ہوتی ہے، اس لئے براڈکاسٹنگ کے حقوق حاصل کرنے والے بھی تذبذب کا شکار تھے اور جلد فیصلے پر زور دے رہے تھے اس لئے سرکاری طور پر میٹنگ سے بالا بالا بات ہو کر نتیجہ خیز ہوئی کہ معاملہ نازک تھا، بالآخر پاکستان کے برحق موقف کی پذیرائی کی گئی۔

اس سلسلے اہم بات یہ بھی ہے کہ گوناکامی کی صورت میں انصاف کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا کہ نقصان بہت تھا، تاہم موجودہ ماڈل کے لئے تجویز پیش کرتے وقت ازالہ کے طور پر رقم لینے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔ یوں اب یہ آئی سی سی پر منحصر ہے کہ وہ اس حوالے سے ازخود کیا فیصلہ کرتی ہے کہ پاک بورڈ کے اخراجات میں بہرحال اضافہ ہوا تاہم بھارت کے میچ دوبئی میں ہونے سے براڈ کاسٹرز اوربورڈ کو ضرور فائدہ ہوگا اور دوبئی میں میچوں کی گیٹ منی بھی زرمبادلہ میں ہوگی۔اس سلسلے میں گو بھارت ہمیشہ سے آئی سی سی کی سطح پر تعصب اور سازش کرتا چلا آیاہے، اصولی طور پر رکنی ممالک بھی متاثر ہوکر بھارتی رویے کے شاکی رہے اس کے باوجود بھارت تین بڑے ممالک انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو ساتھ ملا کر من مانی کرتا چلا آیاہے اور اب تو آئی سی سی کی سربراہی بھی بھارت کے پاس آ چکی ہے، ایسے میں پاک بورڈ کے موقف کی جیت کوبہت اہمیت حاصل ہے اور اب کوشش یہ ہونا چاہیے کہ حق پر ہوتے ہوئے اصرار کیا جائے اور دوسرے اراکین کی حمائت بھی حاصل کی جائے۔

یہ بات ہوگئی، اطمینان ہوا، لیکن ہمارے شاہین معمول کے مطابق حیرت کا سامنا کراتے چلے آ رہے ہیں، آسٹریلیا اور زمبابوے کے خلاف اچھی کارکردگی کے بعد جنوبی افریقہ میں پرواز بھول گئے اور دوسرے ٹی 20میں تو جنوبی افریقہ نے ہماری ٹیم کی باؤلنگ کا زعم بھی توڑ کر رکھ دیا اور 206رنز کا ہدف بھی صرف تین وکٹوں کے عوض حاصل کرکے سیریز بھی جیت لی۔206بڑا سکور ہے اور پاکستان کو پہلی بار اتنا سکور بنا کر شکست ہوئی ہے، اب تو ایک روزہ اور ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے حوالے سے سوچنا ہوگا۔ اصولاً جو تجربے کئے جا رہے ہیں وہ اس طرح نہیں ہوتے اگر آپ نے کسی کھلاڑی کو سزا دینا ہے تو ایسی نہ دیں کہ اس کا کیرئیر ہی ختم ہو جاے، اس سے پہلے بہت کھلاڑی گھر جا چکے اب آپ فخر زمان کو بھی بھول جانا چاہتے ہیں، ذرا غور کریں کہ صائم ایوب پر بھروسہ کیا گیا کہ اس کا انداز اچھا تھا اور اب اس کی کارکردگی ٹھیک ہو گئی ہے اور دوسرے ٹی 20 میں تو وہ سنچری بناتے رہ گیا۔ اس لئے براہ کرم کھیل کی تکنیک اور کھلاڑی کا حوصلہ اور نفسیاتی کیفیت بھی پیش نظر رکھیں اور اب تو آپ کو باؤلنگ کے شعبہ پر بھی پھر سے توجہ مرکوز کرنا ہوگی،یہ نہیں کہ آزمائیں اور چھوڑ دیں، اس لئے میری تجویز تو یہ ہے کہ کرکٹ اکیڈیمی کے فرائض میں شامل کریں کہ کھلاڑیوں (جو ٹیلنٹڈ ہوں) کے نقائص پر توجہ دے اور ان کی تربیت کرے، بیٹنگ اور باؤلنگ کے الگ الگ کیمپ بھی لگائے جا سکتے ہیں، اس سلسلے میں میری سابق کھلاڑیوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ صرف نقائص کو بنیاد بنا کر تنقید کی بندوقیں نہ چلائیں بلکہ کھیل کی مجموعی کیفیت پربات کریں اور کھلاڑیوں کے تکنیکی نقائص بھی اجاگر کریں کہ وہ اصلاح کر سکیں۔ میری نیک تمنائیں اپنی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں