ڈرائیور نے اپنی جان دے کر اسکول کے 28 بچوں کو بچا لیا

دنیا میں عظیم انسانوں کی کمی نہیں ایسے ہی ایک عظیم انسان نے اپنی جان دے کر اسکول کے 28 بچوں سمیت 29 افراد کی زندگی بچا لی۔زندگی سب کو پیاری ہوتی ہے اور جو لوگ دوسروں کیلئے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں وہ دنیا کے عظیم لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک عظیم ڈرائیور کریم راشد، جس نے اپنی جان دے کر اسکول کے 28 بچوں کو بچا لیا۔

انسانیت سے محبت کا یہ واقعہ مصر میں پیش آیا جہاں اسکول بس ڈرائیور نے اپنی جان بچانے کے بجائے 28 بچوں کی جانوں کو ترجیح دی اور بس کو پُل سے گرنے سے بچانے کیلئے کنکریٹ سے ٹکرا دیا۔سبق نیوز کے مطابق قاہرہ کے جنوبی علاقے کے رنگ روڈ پر اسکول بس حادثے کا شکار ہوئی جس میں ڈرائیور کریم راشد موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

حادثے کا شکار بس میں بس ڈرائیور کے علاوہ 28 طلبہ اور ایک خاتون معاون موجود تھیں لیکن باقی تمام محفوظ رہے۔ بس میں سوار خاتون اور بچوں نے بتایا کہ ڈرائیور نے ان کی جانیں بچانے اپنی جان قربان کی۔عینی شاہدین کے مطابق بس جیسے ہی پُل کی ڈھلوان پر پہنچی تو ڈرائیور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک گاڑی راستے میں کھڑی تھی جس کی وجہ سے پُل پر آگے جانے کا راستہ بند ہو گیا تھا۔

اس اچانک صورتحال میں ڈرائیور کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو بس کو طلبہ سمیت پل سے نیچے گرا دے یا پل کی سائٹ کنکریٹ سے ٹکرا دے کیونکہ اچانک بریک لگانے سے بس کے الٹنے کا خطرہ تھا۔ڈرائیور نے فوری طورپر معاون خاتون کو تمام بچوں کو بس کے پچھلے حصے میں لے جانے اور دروازے کو لاک کرنے کی ہدایت کہ تاکہ کوئی بچہ بس سے باہر نہ گرے۔

خاتون بچوں کو لے کر جیسے ہی بس کے عقبی حصے میں پہنچیں، اس کے فوری بعد ڈرائیور نے بس کو پل کے کنکریٹ سے ٹکرا دیا تاکہ بس رک جائے اور کوئی بڑا سانحہ نہ ہو۔اس واقعہ میں بس کا اگلا حصہ مکمل تباہ اور ڈرائیور کریم راشد موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا جب کہ معاون خاتون کا بایاں بازو ٹوٹا اور ایک طالب علم کو معمولی چوٹیں آئیں جبکہ دیگر تمام طلبہ محفوظ رہے۔

مذکورہ خاتون اور بچوں کا کہنا تھا کہ ڈرائیور کو یقین تھا کہ وہ اس تصادم میں بچ نہیں سکے گا لیکن اس نے 28 نونہالوں کی زندگی بچانے کیلئے اپنی جان کی قربانی دی۔مصر میں سوشل میڈیا پر ڈرائیور کی بہادری اور قربانی کو سراہا جا رہا ہے اور حکومت سے اس کی فیملی کی معاونت اور ایوارڈ دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں