کابل سے اٹک تک

اکثر لوگ مجھ سے گلہ کرتے ہیں اور ٹھیک کرتے ہیں کہ میں بدترین حالات میں بھی نارمل رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے اندر وہ نیگٹوٹی کم ہو گئی ہے جو کبھی میری ذات کا حصہ تھی۔ میں اب ہر چیز کامثبت پہلو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور تنقید کم کرتا ہوں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ جوں جوں آپ کا تاریخ کا مطالعہ بڑھتا جاتا ہے‘ بہت سارے سوالات کا جواب ملتا جاتا ہے جس سے آپ کے اندر موجود غصہ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ کو غصہ اس وقت آتا ہے جب آپ کو کسی صورتحال کا کوئی حل سمجھ نہیں آتا اور آپ کے اندر فرسٹریشن بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو اپنی ذاتی زندگی بھی مشکل لگنا شروع ہو جاتی ہے‘ چاہے وہ کتنی ہی پُرتعیش اور آرام دہ کیوں نہ ہو۔ کل کی بات ہے‘ اسلام آباد کلب میں غلام حیدر‘ طاہر خوشنود‘ امجد صدیق اور اشفاق جمانی صاحب کے ساتھ کھانے پر تھا۔ اچانک کسی شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سب اداروں اور حکومت کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ہم نے چپ کرکے اس شخص کو سنا جو بعد ازاں ہمارے سامنے دو‘ اڑھائی کروڑ کی گاڑی میں جا بیٹھا۔ اس کلب کی ممبر شپ 35 لاکھ ہے جو ظاہری بات ہے کہ اس نے بھی ادا کی ہو گی۔ کلب کے دس ہزار ممبرز ہیں اور اب تو آپ کو کلب میں پارکنگ کی جگہ بھی نہیں ملتی لیکن ہر بندہ یہ ضرور کہے گا کہ ملک تباہ ہو گیا ہے‘ ملک ٹوٹ رہا ہے۔
یاد آیا‘ سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے ملاقات میں بھی یہی بات ہوئی تو میں نے کہا کہ حیرانی کی بات ہے‘ روز روز ملک ٹوٹ جاتا ہے یا توڑ دیا جاتا ہے۔ افغانستان میں پچھلے 40 سال سے مسلسل خون خرابہ ہوتا آ رہا ہے‘ دو سپر پاورز نے وہاں جنگیں لڑیں۔ ہزارہ‘ پشتون‘ ازبک‘ تاجک ایک دوسرے سے جنگیں لڑتے رہے‘ لاکھوں لوگوں کا لہو بہا‘ لاکھوں گھر چھوڑ کر پاکستان آگئے اورآج تک یہیں ہیں۔ وہ واپس نہیں جانا چاہتے۔ پوری دنیا میں بے چارے افغان سیاسی پناہ یا شہریت کیلئے اپلائی کررہے ہیں۔ افغانستان میں نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور دیگر نفرتیں اتنی زیادہ ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن ان 40 برسوں میں پشتون‘ ازبک‘ تاجک اور ہزارہ قوموں کی آپس میں طویل جنگوں اور خون خرابے کے باوجود افغانستان قائم دائم ہے۔ وہاں ان قوموں نے اپنے الگ الگ ملک نہیں بنائے‘ نہ افغانستان ٹوٹا نہ کبھی ایسا مطالبہ سنا لیکن ہمارا ملک روزانہ ٹوٹ جاتا ہے۔
بڑی عجیب بات ہے کہ عمران خان نے برسوں محنت کر کے پاکستانی عوام کے دلوں میں افغان طالبان کی محبت بلکہ عقیدت بٹھا دی۔ آپ نے کبھی عمران خان کے منہ سے پنجابی‘ سرائیکی‘ بلوچ‘ سندھی‘ کشمیری‘ بلتی یا دیگر اقوام کی تعریف نہیں سنی ہوگی۔ وہ ایک ہی قوم کی تعریف کرتے ہیں جو انہیں غیرت مند اور بہادر لگتی ہے اور وہ ہے افغان‘ بلکہ طالبان۔ ان کے نزدیک پاکستان میں رہنے والی اقوام بہادر نہیں بلکہ بزدل اور غلام ہیں کیونکہ وہ پُرامن ہیں۔ خان کے نزدیک پاکستانی غیرت مند نہیں بلکہ صرف افغان طالبان غیرت مند ہیں جن کی دہشت سے افغان بھاگ رہے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ پورے ملک کی یہ پنجابی‘ بلوچ‘ سندھی‘ سرائیکی‘ کشمیری‘ بلتی اور پشتون قومیں بھی دھیرے دھیرے یہ سوچنے پر مجبور ہو چکی ہیں کہ واقعی یار‘ ہم اتنے بہادر کیوں نہیں جتنے افغان ہیں‘ جو عمران خان کے رول ماڈل ہیں اور وہ ان کا ذکر اپنی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں۔ اب پوری قوم عمران خان کے پیچھے لگ کر افغان طالبان کی طرح بہادر بننا چاہتی ہے جو جنگوں میں برباد ہو گئے۔ اب تو خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ براہِ راست افغانستان سے مذاکرات کریں گے۔ خدانخواستہ کیا خیبرپختونخوا ایک الگ ریاست بن گئی ہے جس کا اسلام آباد سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اس کا مرکز اب کابل ہو گا؟ کیا علی امین گنڈا پورا کا سٹیٹس وزیراعلیٰ سے بلند ہو کر وزیراعظم کا ہوگیا ہے؟ ان کا اسلام آباد سے اب کچھ لینا دینا نہیں رہا؟ یہ کتنی خطرناک بات کی گئی ہے جس کا شاید کسی کو احساس نہیں۔ مطلب ذہنی طور پر پاکستانیوں کو تیار کیا جا رہا ہے کہ آپ خیبرپختونخوا کو خود مختار سمجھیں جو اَب پوری دنیا کے ساتھ خود معاملات طے کرے گا؟
تاریخ میں سمجھدار قومیں دوسری قوموں کے عروج و زوال سے سبق سیکھتی ہیں اور اس عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ وہ ایسی غلطیاں نہیں دہرائیں گی جو دوسری قوموں کے زوال کی وجہ بنیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں اتنا خون خرابہ ہوا‘ لاکھوں افغان بچے یتیم ہوئے‘ عورتیں بیوہ ہوئیں‘ لاکھوں لوگ مارے گئے‘ تو ہم نے ان سے یہی سبق سیکھا کہ اب طالبان کو اپنی پوری قوم کا رول ماڈل بنا کر پیش کر دیا؟ ہم افغانوں کی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے اُلٹا ان کی غلطیوں کو گلوریفائی کر رہے ہیں جس سے پاکستان میں انتشار پھیل رہا ہے۔ کسی نے ان افغانوں سے پوچھا ہے کہ وہ بہادر تھے یا مظلوم‘ جن پر دو سپر پاورز نے خطرناک ترین اسلحہ آزمایا۔ افغانستان میں تب روٹی مہنگی اور لہو سستا تھا۔ کیا اپنا گھر چھوڑ کر کسی اجنبی سرزمین پر رہنا آسان ہے؟ عمران خان کے ہیروز طالبان نے افغانستان کی نوجوان نسل کا جینا حرام کر دیا اور ان طالبان کو ہماری حکومتوں کی حمایت حاصل تھی‘ جس کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ جس دن طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا اس سے اگلے دن جنرل (ر) فیض حمید وہاں ہوٹل میں چائے پیتے اور یہ کہتے دکھائی دیے کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔ عام افغان امریکی فوج کی روانگی کے بعد وہاں سے بھاگ رہے تھے‘ جہازوں سے لٹک کر گر رہے تھے‘ کیا یہ ان افغان طالبان کی بہادری‘ غیرت اور مقبولیت تھی جو ہمیں بتائی جاتی ہے؟
جب کابل سے پڑھا لکھا افغان طبقہ جان بچا کر بھاگ رہا تھا تو ہمارے ہاں جشن منائے جارہے تھے کہ دیکھو! افغانوں نے حقیقی آزادی لے لی۔ لاکھوں افغانوں نے پاکستان میں رہنا پسند کیا‘ وہ اب بھی عمران خان کے پسندیدہ طالبان کی حکومت کے زیر اثر رہنے کو تیار نہیں۔ عمران خان یا طالبان کے حامیوں کو افغانوں کی بدقسمتی‘ خون خرابہ‘ ہجرت‘ دنیا بھر میں دربدری اور مشکلات نظر نہیں آتیں۔ جب سے علی امین گنڈا پور نے افغان طالبان سے براہِ راست رابطوں اور بات چیت کا اعلان کیا ہے‘ اس کے بعد سے مجھے میجر (ر) عامر کی ایک بات یاد آتی ہے کہ بہتر ہے خیبرپختونخوا میں ریفرنڈم کرا لیں۔ پختون لوگوں سے رائے لے لیں‘ ان میں سے کتنے لوگ ڈیورنڈ لائن ختم کر کے افغانستان کا شہری بننا چاہتے ہیں؟ کتنے افغانستان کا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ بنوانا چاہتے ہیں؟ کتنے اپنے بچوں کی طالبان حکومت میں پرورش اور تعلیم چاہتے ہیں۔ سب پتا چل جائے گا۔ میجر عامر کی بات میں وزن ہے کیونکہ آج تک شاید ہی آپ نے سنا ہو کہ کسی پاکستانی نے افغان اہلکار کو پیسے دے کر افغانستان کا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ لینے کی کوشش کی یا افغان پاسپورٹ بنوا کر بیرونِ ملک جانے کی کوشش کی ہو؟ ہمیشہ سے جنگ زدہ افغان ہی پاکستان کے پاسپورٹ کے حصول کیلئے نادرا افسران کو رشوت دیتے آئے ہیں اور اکثر ان سکینڈلز کی رپورٹنگ ہوتی رہتی ہے۔ لیکن پھر بھی آپ دیکھ لیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے اکثریتی ہجوم کے ہیروز افغان طالبان ہیں جن کی دہشت سے افغان خود اپنے بچوں کو لے کر پاکستان اور یورپ جانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے کچھ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ اصل ہیروز تو طالبان ہیں لہٰذا وہ اب افغانستان جانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں پہلا نعرہ علی امین گنڈا پور نے مار دیا ہے۔ دیکھتے جائیں یہ کیا نیا گل کھلائیں گے کیونکہ جن افغان طالبان کو عمران خان اپنا ہیروز مانتے ہیں وہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈیورنڈ لائن کو سرحد کو نہیں مانتے۔ وہ کابل سے اٹک تک حکمرانی چاہتے ہیں۔ کیا علی امین گنڈا پور ان معاملات پر بھی کابل کے طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں؟

اپنا تبصرہ لکھیں