کمیونسٹ ہاورڈ فاسٹ اپنے نظریے کی بنیاد پر حقوق کی جنگ لڑنے والا قلم کار

دنیا کی تاریخ کا ایک غلام آج ایک باغی سپارٹیکس کے نام سے نہ صرف زندہ ہے بلکہ یہ ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت اور آخری سانس تک لڑائی کا استعارہ بن چکا ہے ہاورڈ فاسٹ نے بھی اپنا شاہ کار ناول بعنوان سپارٹیکس ایک قید خانے میں ہی لکھا تھا وہ بھی اپنے نظریے کی بنیاد پر حقوق کی جنگ لڑنے والا قلم کار تھا

شہرۂ آفاق باغی سپارٹیکس قبلِ مسیح کا ایک ایسا کردار ہے جس نے رومی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ محققین کے مطابق جب دنیا رومن بادشاہت کا عروج دیکھ رہی تھی، تب سپارٹیکس نے آنکھ کھولی تھی۔ اس دور میں انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کا رواج تھا اور ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ ظلم و ستم عام تھا اور آقا اپنے ان غلاموں کے ساتھ ہر قسم کا غیر انسانی سلوک کرسکتے تھے اور کرتے تھے۔ معمولی خطا پر ان سے مار پیٹ اور ان کا قتل بھی کر دیا جاتا تھا۔ سپارٹیکس بھی نوعمری میں غلام بن کر سلطنتِ روم کے بادشاہ اور امراء کی بطور گلیڈی ایٹر (انسانوں کی لڑائی) خوشی کا سامان کرنے لگا تھا۔ وہ جسمانی طور پر مضبوط اور بلند قامت غلام تھا۔ گلیڈی ایٹرز کے کھیل میں دو غلام اس وقت تک آپس میں لڑتے تھے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کو پچھاڑ کر اس کی گردن نہ مار دے۔ ان کا خون بہتے، انھیں تڑپتے اور درد کی شدت سے چیختے چلاّتے دیکھ کر ان امراء کو راحت ملتی تھی اور یہ سب ان کے لیے محض ایک تماشا تھا۔ سپارٹیکس نے پا بہ زنجیر قید اور ہر طرح کا ظلم برداشت کیا، لیکن وہ خواب دیکھتا تھا، آزادی کا اور انتقام لینے کی خواہش رکھتا تھا۔ اسے یہ موقع مل گیا اور ایک دن وہ اور کئی غلام گلیڈی ایٹرز قید خانے سے سپاہیوں کا خون کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ اس وقت تک سپارٹیکس کی شہرت گلی گلی پھیل چکی تھی اور لوگ اسے دل و جان سے چاہنے لگے تھے۔ انھوں نے گلیوں میں دیوانہ وار اپنے ہیرو سپارٹیکس کا خیرمقدم کیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔ سلطنت کے بڑے شہر میں بادشاہ کی فوج سے لڑائی میں خوب خون بہا، اور ایک دن سپارٹیکس بھی مارا گیا۔ مگر یہ ایسی موت تھی جس نے اُسے امر کردیا۔ اسی سپارٹیکس کی کہانی مشہور ناول نگار فاسٹ نے بھی لکھی ہے۔

ادیب و شاعر احمد عقیل روبی اپنی ایک کتاب میں ہاورڈ فاسٹ اور ان کے اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں: اسی طرح ہاورڈ فاسٹ (Haward Fast) نے اپنا شاہ کار ناول ’’سپارٹیکس (Spartacus)‘‘ قید خانے میں مکمل کیا۔ ہاورڈ فاسٹ کا تعلق کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین ارکان میں ہوتا تھا۔ اپریل 1946ء کی بات ہے، امریکی فاشزم کا زمانہ تھا۔ کمیونسٹ پارٹی زیر عتاب تھی۔ ہاورڈ فاسٹ کے پیچھے جاسوس پاگل کتوں کی طرح لگے ہوئے تھے۔ اسے پارٹی کو چندہ دینے والے لوگوں کے ناموں کی فہرست دینے کے لیے کہا گیا۔ اس نے انکار کر دیا چنانچہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اسے سزا دینے کے لیے ووٹنگ ہوئی 62 ممبران نے حق میں 262 نے خلاف ووٹ دیا۔ اسے جیل بھیج دیا گیا۔ ہاورڈ فاسٹ نے کاغذ سامنے رکھے۔ قلم ہاتھ میں پکڑا اور ’’سپارٹیکس‘‘ مکمل کرلیا۔ 1951ء میں ناول مکمل ہوا۔ اس ناول کو چھاپنے کے لیے کوئی پبلشر تیار نہ تھا۔ فاسٹ نے ناول خود چھاپا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی 50 ہزار کاپیاں بک گئیں۔ اس ناول کا دنیا کی 82 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول کو بیسویں صدی کا اہم ترین ناول قرار دیا گیا۔ اُردو میں اس ناول کا 1988ء میں مشہور ادیب شاہ محمد مری نے بہت خوبصورت ترجمہ کیا۔ ہاورڈ فاسٹ 11 نومبر 1914ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں پیدا ہوا۔ ماں (IDA) برطانیہ سے ہجرت کر کے نیویارک گئی تھی اور باپ یوکرائن کا رہنے والا تھا۔ اس کا نام Barney Fastorsky تھا۔ نیویارک میں آیا تو Fastorsky کو مختصر کر کے Fast بنا لیا۔ اسی مناسبت سے ہاورڈ FAST کہلاتا ہے۔ اپنی سوانح عمری Being Red میں ہاورڈ فاسٹ اپنے گھریلو حالات کے بارے میں لکھتا ہے: ’’ہم بہت غریب تھے، مگر میری ماں نے کبھی ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا۔ 14 سال کی عمر ہی میں میرے باپ نے لوہے کی فیکٹری میں مزدوری شروع کر دی تھی، پھر میرے باپ نے نیویارک سٹی میں چلنے والی کیبل کار میں نوکری کر لی، پھر ملبوسات بنانے والی فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔ اسے وہاں 40 ڈالر ہفتہ وار ملتے تھے۔ میری ماں کپڑے سی کر سویٹر بُن کر گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ برتن دھوتی اور مجھے اچھی اچھی کہانیاں سناتی۔ اس کا لہجہ اس قدر دلچسپ، رنگین اور دل پذیر تھا کہ اب بھی جب میں یاد کرتا ہوں تو موت کا خوف میرے دل سے غائب ہو جاتا ہے۔‘‘ 1923ء میں جب اس کی ماں مری اور باپ کی نوکری چھوٹ گئی، تو حالات نے خطرناک صورت اختیار کر لی اور گھر سے ساری خوش حالی ہوا ہو گئی۔ ہاورڈ فاسٹ نے گلی گلی گھوم کر اخبار بیچنے شروع کر دیے اور نیویارک کی پبلک لائبریری میں نوکری کر لی اور پھر مختلف شہروں میں روزگار تلاش کرنے کے لیے مارا مارا پھرنے لگا۔ ان بُرے حالات نے اس کا دھیان دو چیزوں کی طرف موڑ دیا۔ وہ لکھنے لگا اور سوشلزم کے نظریات اس کے دل میں گھر کرنے لگے۔ اس کا پہلا ناول (Two Valleys)، 1933ء میں چھپا۔ جب وہ 18 سال کا ہوا، تو اس نے اپنا مشہور ناول(Citizen Tom Pain) لکھا۔ The Last Froniter اور Freedom Road جن پر امریکی تاریخ کی چھاپ ہے بعد میں چھپے۔

1944ء میں ہاورڈ فاسٹ کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بن گیا اور اس کا شمار پارٹی کے اہم افراد میں ہونے لگا۔ کمیونزم کے نظریات اسے اپنے باپ سے ورثے میں ملے تھے، جو روئے زمین پر مزدوروں کی حاکمیت کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ جب ہاورڈ فاسٹ نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو امریکا میں کمیونزم کی سخت مخالفت ہو رہی تھی اور پارٹی کی سرگرمیوں پر سخت نظر رکھی جا رہی تھی۔ کمیونزم کو کچلنے اور ملیامیٹ کرنے پر پوری توجہ دی جا رہی تھی۔ یسوع کے نام پر کمیونسٹ کو مارنا کار ثواب سمجھا گیا اور پارلیمنٹ اس پارٹی کے سر کردہ افراد کو سزائیں دینے پر تلی ہوئی تھی۔ امریکی حکومت کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کو دبایا جا رہا تھا اور کمیونسٹ امور لوگوں کے پیچھے جاسوس لگے ہوئے تھے۔ ہاورڈ فاسٹ اس ضمن میں گرفتار ہوا۔

ہاورڈ فاسٹ نے اپنے اصل اور فرضی نام سے بہت کچھ لکھا۔ ناول، فلموں کے اسکرین پلے، T.V سیریل لکھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے اخبار Daily Worker میں کام کیا۔ اس کی تحریروں میں کمیونزم نظریات کے پرچار پر اسے 1953ء میں ’’سٹالن امن انعام‘‘ سے نوازا گیا۔ اپنی تخلیقی زندگی کے آخر میں اسے کمیونسٹ انتظامیہ سے اختلاف ہو گیا اور اس نے پارٹی سرگرمیوں سے ہاتھ کھینچ لیا اور سیاسی میدان سے کٹ کر زندگی بسر کرنے لگا۔ آخری عمر میں فاسٹ Old Green wich چلا گیا۔ 12 مارچ 2003ء کو اس کی وفات ہوئی۔

اپنا تبصرہ لکھیں