کوئی روک لے دست قضا کو!

ارادہ تھا کہ پاک بھارت کشیدگی اور پس منظر کے حوالے سے اپنی رائے دے چکا اس لئے آج بعض عوامی مسائل کا ذکر کرلوں کہ حالیہ کابینہ میٹنگ میں وزیراعظم نے بھی ہدائت کی تھی کہ عوام کو ریلیف دینے والے اقدامات کئے جائیں تاہم گزشتہ شب حالات میں تبدیلی ہوئی۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی جارحیت کا جواب دے دیا گیا اور یہ جواب یقینا فوجی ترجمان کے اس دعویٰ کے مطابق ہے کہ پاکستان جب بھارتی دراندازی کا جواب دے گا تو دنیا کو پتہ چل جائے گا اور ایسا ہی ہوا، جواب بہت ہی بھرپور ہے، جسے بھارتی ترجمان بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور انہوں نے توقع کے مطابق کم از کم نقصان کا ذکر کیا ہے جبکہ پاکستان کے فوجی ترجمان کی اطلاع مختلف ہے۔ ان کی طرف سے بتایا گیا کہ جوابی آپریشن ”بنیان مرصوص“کے نام سے شروع کیا گیا اور پاکستان کے شاہینوں نے بھارت کے اندر اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا کر بڑی تباہی مچا دی۔ اس کا اعتراف بھارتی فوجی ترجمان نے بھی کیا کہ فوجی تنصیبات ہی نشانے پر تھیں اور چند مقامات پر نقصان ہوا ہے جبکہ پاکستان کا دعویٰ واضح ہے، رات سے جاری اس حملے میں کچھ وقفہ آ گیا کہ پاکستان کے مطابق پہلی ہی بار اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں تاہم لائن آف کنٹرول کا مسئلہ مختلف ہے۔ وہ یوں کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے اور بھارت نے اس طرف چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی ہے اس لئے اس کا جواب لازم تھا جو دیا گیا اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر آرمی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں سے کشمیریوں پر گولہ باری ہوتی تھی، اب صورت حال یہ ہے کہ جوں جوں ویڈیوز ملتی جاتی ہیں، ان کی چھان پھٹک کے بعد ریلیز کر دی جاتی اور عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ جھوٹ نہیں، ثبوت موجود ہے۔

جنگ کیسی بھی ہو وہ اچھی نہیں ہوتی کہ ہر دو اطراف کا نقصان ہوتا ہے۔ کسی کا کم یا کسی کا زیادہ۔ روس اور یوکرین کی جاری جنگ کے حوالے سے مسلسل یہ کہا جاتا ہے کہ اسے بند ہونا چاہیے کہ جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ ایسا ہی پاکستان کے حوالے سے کہا جاتا ہے، تاہم بھارتی ہٹ دھرمی اور ویٹو پاور والی حکومتوں کی اپنی مفاداتی خاموشی اپنی جگہ پر کہ نقصان پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوتا ہے۔ تاہم بقول کرنل غلام جیلانی (ر) ہر جنگ میں اسلحہ کے استعمال سے حدود و قیود اور نفع و نقصان کا پتہ تو چل جاتا ہے لیکن اسلحہ ساز ملک اپنی مصنوعات کی فروخت کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں، حالیہ جنگ میں فرانس کے رافیل اور چین کے ایف۔17تھنڈر کی کارکردگی کھل کر سامنے آ گئی ہے اور پاک بھارت جھڑپ نے کئی اور پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اندازہ ہوا کہ چین کے طیارے اور اسلحہ کی ٹیکنالوجی بھی بہتر ہے کہ رافیل جیسے طیاروں کا سسٹم بھی روک لیا گیا اور پاکستان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایئر فورس کے راڈار بھارتی ڈرونز کی نقل و حرکت چیک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور آخری اطلاعات تک 70ڈرون گرائے جا چکے ہوئے ہیں۔

عرض کیا تھا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی اور تنازعات میزپر بات چیت کے بعد ہی طے ہوتے ہیں، اس سلسلے میں بھارتی ریکارڈ اچھا نہیں کہ وہ کسی معاہدے کا بھی احترام نہیں کرتا حتیٰ کہ سندھ طاس معاہدہ جو سراسر بھارت کے لئے پاکستان سے زیادہ مفید ثابت ہوا، اسے بھی معطل کرنے کے اعلان سے گریز نہیں کیا گیا اور پانی کو جنگی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، یہ بھی پاکستان کے لئے ناقابل قبول تھا، اب بھی وقت ہے کہ فریقین کے درمیان مذاکرات ہوں اورمیز پر بیٹھ کر مسائل حل کئے جائیں، یوں بھی شملہ معاہدہ موجود ہے جو مضبوط اور تگڑے وزیراعظم حضرات نے کیا تھا۔

میں نے عرض کیا تھا کہ یہ سب بھارت اور اسرائیل کی ملی بھگت ہے جسے امریکی شہ حاصل ہے۔ یہ بھی گزارش کی تھی کہ سنجیدگی ہوتو کوئی بھی ویٹو پاور کا حامل ملک سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر فریقین کو آمنے سامنے بٹھا سکتا ہے اور اس راستے سے امن کی راہ نکالی جا سکتی ہے،لیکن یہاں کسی کو اتنی گہرائی تک جانے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ، اسرائیل لابی تو چاہتی ہے کہ اس کا اسلحہ نہ صرف بک سکے بلکہ برصغیر میں افراتفری رہے اور اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ میں کامیاب ہو جائے۔ میں گزشتہ کالموں میں عرض کر چکا ہوا ہوں کہ اسرائیل کی خواہش اور حکمت عملی یہ ہے کہ پاکستان الجھا رہے اور وہ غزہ پر مکمل قبضہ جما لے اور ایسا ہی ہو بھی رہا ہے۔ جنگ میں اسرائیل کا فائدہ ہی فائدہ ہے کہ بھارت نے اسرائیلی تعاون قبول کیا اور اسرائیل اسے ”ایرڈوم“ دفاع کی مہارت مہیا کرنے پہنچا ہوا ہے، قارئین! غور فرما لیں کہ جب سے پاک بھارت کشیدگی بڑھی ہے غزہ پر جاری نسل کشی کے عمل کے حوالے سے خبریں ہی کم ہو گئی ہیں اور اسرائیل ہر روز نئے حملے کر رہا ہے۔

آخری بات کرکے کالم مکمل کرتا ہوں کہ کئی حضرات ایک معقول خدشے کا اظہار کرتے ہیں جس کے مطابق بھارت زیادہ گہرائی کا حامل بڑا ملک ہے اور اس نے ابھی ابھی اپنے تین سو طیارے دو ردراز کے ہوائی اڈوں پر منتقل کئے ہیں یہ درست بھی ہے لیکن خیال رہے کہ پاکستان نے دور مارمیزائلوں کا تجربہ کر رکھا ہے اور گزشتہ روز فتح میزائل کے جوہر دکھا بھی دیئے ہیں، اس لئے گہرائی تک جایا جا سکتا ہے، یوں بھی اب بھارت کو یہ بھی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ جنگ کھیڈنئیں ہوندی زنانیاں دی، بھارت کی آٹھ سے زیادہ ریاستوں میں شدید بے چینی اور بغاوت ہے،بنگلہ دیش اس کی ”محبت“ سے آزاد ہو گیا ہے، اس لئے یہ گہرائی والی تھیوری بھی منشاء کے مطابق کامیاب نہیں ہوگی۔ بھارت کے پاس جوابی وار کے لئے سمندر موجود ہے۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے یہ اطلاع بھی دی کہ اب بحری حملہ کی کوشش ہوگی۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے تاہم بھارت کی نیوی کو 1965ء کے دوارکا اور حالات حاضرہ میں اپنی آبدوز کے چیک ہو کر بھاگنے کو سامنے رکھنا ہوگا کہ یہاں بھی جواب تو ملے گا ہی۔

اس سب کے باوجود ہم امن پسند لوگوں کی خواہش ہے کہ بھارت کے سنجیدہ اور امن پسند حضرات مودی اور آر۔ ایس۔ ایس کو روکیں کہ جنگ بہرحال نقصان دہ اور اگر حالات یہی رہے تو نوبت ایٹمی استعمال تک آ سکتی ہے جو صرف اور صرف تباہی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں