اس وقت عالمی سطح پر کینیڈا کے امریکی ریاست بننے کے حوالے سے بحث جاری ہے جو 5 نومبر 2024 کو ڈونلڈ ٹرمپ اور جسٹن ٹروڈو کی ملاقات سے شروع ہوئی تھی۔نومنتخب امریکی صدر اور کینیڈا کے سابق وزیر اعظم کے درمیان ملاقات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی دی تھی۔
اس کے بعد 16 دسمبر 2024 کو کینیڈا کی وزیر خزانہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا جبکہ چند روز قبل جسٹن ٹروڈو نے بھی دباؤ کے باعث وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر لکھا کہ کینیڈا میں بہت سے لوگ چاہیں گے کہ وہ امریکا کا حصہ بنیں۔ امریکا اب وہ بھاری تجارتی خسارہ اور سبسڈی برداشت نہیں کر سکتا جو کینیڈا کے وجود کیلیے ضروری ہیں لہٰذا جسٹن ٹروڈو اس بات کو سمجھ گئے اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
اگر کینیڈا 51ویں امریکی ریاست بن گیا تو کیا ہوگا؟
امریکا تقریباً 19,811,345 مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ روس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ یہ شمالی امریکا کے براعظم کا 80 فیصد اور کُل زمینی قبے کا 13 فیصد بن جائے گا۔
کینیڈا کی جی ڈی پی 2 ٹریلین امریکی ڈالر ہے لہٰذا انضمام کے نتیجے میں یہ معاشی طور پر کیلیفورنیا اور ٹیکساس کے بعد امریکی کی تیسری بڑی ریاست ہوگی۔ علاوہ ازیں، امریکا کی کُل معیشت تقریباً 30 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ جائے گی جو چین کی 17.79 ٹریلین ڈالر کی معیشت کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔
امریکا کو کینیڈا کے شمالی سرحدی علاقوں اور ریاستوں کے سبب آرکٹک میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی توقع ہے جس سے ممکنہ طور پر Northwest Passage پر کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے۔ انضمام سے کینیڈا کے 1 لاکھ فوجی امریکی فوج میں فرائض انجام دیں گے۔ علاوہ ازیں، 65 لڑاکا طیارے، 143 ہیلی کاپٹرز اور کینیڈین بحریہ کے 14 فریگیٹس اور چار آبدوز امریکا کے کنٹرول میں آ جائیں گے۔
انضمام سے امریکا وسائل کے وسیع ذخائر تک رسائی حاصل کر لےگا۔ اس میں دنیا کے سب سے بڑے میٹھے پانی کے ذخائر اور تیل کے عالمی ذخائر کا 13 فیصد بھی شامل ہے۔ اس طرح امریکا کے تیل کے ذخائر سعودی عرب کے 267 بلین بیرل کے برابر 215 بلین بیرل تک پہنچ جائیں گے۔کینیڈا اور امریکا کے انضمام کے بعد 340 ملین کی امریکی آبادی میں تقریباً 40 ملین کا اضافہ ہو جائیگاجس سے کل آبادی 380 ملین ہو جائے گی۔
کیا انضمام ممکن ہے؟
کینیڈا کا امریکا کی 51ویں ریاست کے طور پر انضمام انتہائی ناممکن ہے کیونکہ سیاسی، ثقافتی اور سماجی فرق اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دوطرفہ شراکت داری اور بین الاقوامی تعلقات کا پیچیدہ جال اس طرح کے انضمام کو عملی طور پر ناممکن بنا دیتا ہے۔