گنڈاپور سے نواز شریف تک

اگر یہ بات کوئی اور کہتا کہ علی امین گنڈاپور جس طرح کی لشکر کشی پنجاب پر کر رہے ہیں‘ اس سے سینٹرل ایشیا اور افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے تو شاید بہت رولا پڑ جاتا۔ لیکن نواز شریف کی جہاں بہت ساری خامیاں ہیں وہاں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بہت ساری باتیں‘ جو غیر مقبول ہوتی ہیں اور شاید عوام سننا پسند نہیں کرتے‘ وہ بھی دھڑلے سے کہہ جاتے ہیں۔ اس اپروچ کے سیاسی یا ذاتی نتائج بھی ہوتے ہیں‘ جو ممکن ہے کہ ان کیلئے اچھے نہ نکلتے ہوں لیکن پھر بھی وہ اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔ ان کی کئی باتوں کا میں عینی شاہد ہوں‘ جن سے ان کی مشکلات بڑھیں لیکن اس کے باوجود وہ مشکل بات کہتے رہے ہیں۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ نواز شریف نے یہ بات کہی ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ کئی ایسی باتیں اور ایسے کام کر چکے ہیں جنہیں ان کے مخالفین نے خوب اچھالا۔ شاید پارٹی کے اندر اور میڈیا میں ان کے حامیوں نے دبے دبے الفاظ میں میاں صاحب کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ جانے دیا کریں‘ کیا ضرورت ہے اپنے ووٹ خراب کرنے اور مخالفین کا کام آسان کرنے کی۔ لوگوں کو وہی سودا بیچیں جس کے وہ عادی ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ میاں صاحب پر ان نصیحتوں کا اثر نہیں ہوا۔
میں نواز شریف کی بہت ساری داخلی پالیسیوں اور گورننس ماڈل کا ناقد رہا ہوں۔ میں نے ان کی حکومتوں میں کئی سکینڈلز بریک کیے‘ ان کے پارلیمنٹ اور کابینہ کو سیریس نہ لینے پر کئی دفعہ لکھا اور بولا۔ وزیراعظم بن کر سیر سپاٹے اور دنیا کے 120ملکوں کا دورہ کرنے اور اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران 400 دن تک پاکستان سے باہر رہنے کا ریکارڈ ہو یا مہنگے بجلی کے معاہدے‘ اسی طرح جس پارلیمنٹ کی بالادستی کا وہ نعرہ مارتے ہیں‘ وہاں آٹھ آٹھ ماہ تک نہیں جاتے تھے۔ کابینہ کا اجلاس چھ چھ ماہ تک نہیں ہوتا تھا۔ سب کچھ فیملی فرینڈز پیکیج پر چل رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کی فارن اور سکیورٹی پالیسیاں ہمیشہ دوسرے سیاستدانوں سے بہتر رہی ہیں اور میں ان کی ان پالیسیوں کا ناقد کے بجائے مداح رہا ہوں۔ میں نے ٹی وی شوز اور کالموں میں ہمیشہ کھل کر بولا اور لکھا ہے۔ وہ میرے خیال میں شاید پہلے اور آخری وزیراعظم تھے جو بھارت کے ساتھ تعلقات ٹھیک اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے سنجیدہ تھے اور اس کیلئے کوششیں بھی کیں‘ جنہیں پرویز مشرف نے ناکام بنا دیا اور ہم آج تک خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بعد میں جنرل پرویز مشرف نے پہلے 2004ء اور پھر 2006ء میں واجپائی اور منموہن سنگھ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی وہی کوششیں کیں جو وہ نواز شریف کو کرنے سے روکتے تھے اور جس وجہ سے مارشل لاء لگایا تھا۔ کچھ سبق انسان وقت کے ساتھ سیکھتا ہے۔ اگر پرویز مشرف نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی کی کوششوں کو سپورٹ کرتے تو شاید آج ہماری حالت اور اس خطے کا نقشہ مختلف ہوتا۔
نواز شریف نے لاہور پریس کلب میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک بھارت تعلقات بارے جو گفتگو کی تھی‘ وہ بھی بہت سوں کو پسند نہیں آئی تھی۔ اسی طرح جب 2014ء میں نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بنے اور نواز شریف کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت ملی تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کمفرٹ ایبل نہیں تھے۔ لیکن نواز شریف گئے اور بعد میں جو نعرے لگے‘ انہیں بھی بھگتا کہ ‘مودی کا جو یار ہے‘ غدار ہے‘ لیکن وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ پھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کابل سے بھارت واپسی کے دوران اچانک لاہور اترے اور نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کی۔ یہ بات بھی بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آئی۔ الزامات بھی لگے کہ ان کی بھارت کے کچھ اہم لوگوں سے مری میں خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یہ بھی الزام لگا کہ وہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اس لیے چاہتے ہیں کہ اپنے کاروبار کو ترقی دے سکیں۔ جو بھی تھا‘ وہ ہر دفعہ الیکشن میں اسی نعرے کے ساتھ اترے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات ٹھیک کریں گے۔ پاکستانی عوام کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا نعرہ مارنے والے سیاستدان کو ووٹ دیا‘ جبکہ اس کے برعکس بھارت میں ووٹ لینے کیلئے پاکستان کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔
اب مگر انہوں نے علی امین گنڈاپور کی پنجاب پر چڑھائی کے حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ شاید پختونوں کو پسند نہ آئے‘ اور اس سے عمران خان کے ووٹ مزید بڑھیں مگر اس میں کیا شک ہے کہ ہندوستان پر اکثر حملے مغرب سے ہوئے تھے۔ اکیلے محمود غزنوی نے 17 حملے کیے۔ مغل ہوں یا ترک‘ سب انہی راستوں پر چل کر ہندوستان فتح کرتے رہے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملوں کی تفصیلات تو سب کو معلوم ہیں۔ لاہور ہو یا ملتان یا دلّی‘ افغانستان اور سینٹرل ایشیا سے آئے حملہ آور یہاں حکومت کرتے رہے ہیں۔ اکثر لوگ پنجاب کے لوگوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ آپ بزدل تھے اور ہر حملہ آور کو ویلکم کرتے رہے مگر تاریخی طور پر ایسا نہیں ہے۔ مقامی لوگ جنگیں بھی لڑتے رہے اور مزاحمت بھی کرتے رہے۔ البتہ میرا ماننا ہے کہ جس دھرتی کو سات دریا سیراب کرتے ہوں‘ جہاں چار موسم ہوں‘ ہر قسم کی فصل اُگتی ہو وہاں کے لوگ کیونکر جنگجو ہو سکتے ہیں؟ وہ کیوں کسی کا پیٹ پھاڑ کر یا کسی کے بچے کو مار کر اس کا کھانا یا اناج چھینیں گے؟ وہ کیوں ہزاروں میل دور جا کر اجنبی زمینوں پر حملہ آور ہوں گے اور ان لوگوں پر حکومت کریں گے؟ جب اپنے گھر میں تین وقت کی روٹی مل رہی ہو تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ دوسرے علاقوں پر حملے کرے؟ پنجاب ہو یا ہندوستان‘ وہ اس لیے جلدی فتح ہو جاتے رہے کہ وہاں کے لوگ کھاتے پیتے اور امن پسند تھے۔ انہیں علم تھا کہ اگر ان کا اناج اور فصل لوٹ کر لٹیرے لے بھی گئے تو تین ماہ بعد نئی فصل آ جائے گی اور وہ اپنا نقصان پورا کر لیں گے۔ بس ان کے بچوں اور خواتین کی جان و عزت محفوظ رہے۔ اگر آپ انسانی تاریخ دیکھیں تو ہمیشہ حملہ آور صحرائوں سے یا پہاڑوں سے اٹھے اور زرعی طور پر زرخیز معاشروں کو تباہ کر کے لوٹ لیا۔ پہاڑوں اورصحرائوں کے لوگ زندگی کے ساتھ روز لڑتے ہیں‘ خوارک کی کمی کی وجہ سے وہاں survival of fittest کی جنگ کا روز سامنا ہوتا ہے۔ یوں ان کے رویے اُن لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں جو دریائوں کے کنارے‘ کھیتوں میں اناج اگا کر خود بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کا بھی پیٹ بھرتے ہیں۔
پنجاب اور افغانستان کی یہ کشمکش بہت پرانی ہے۔ آج بھی خیبر پختونخوا کے ہمارے کچھ دوست پنجاب کو گالی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ رنجیت سنگھ بھی ہے جس نے پہلی دفعہ پنجاب سے نکل کر اٹک کے پار‘ پشاور اور قبائلی علاقوں تک فتوحات کیں۔ کابل کے حکمران تک کو لاہور دربار کی وفاداری کا حلف دلوایا اور ادھر ملتان میں نواب مظفر شہید کی حکومت کا خاتمہ کیا‘ جو ابدالی دور کی حکومت تھی۔
مجھے اس دن بڑا دھچکا لگا جب اسلام آباد میں ایک پختون صحافی دوست کے گھر گیا تو اس کا چھوٹا بیٹا آیا اور مجھے پشتو میں کچھ بول کر بھاگ گیا۔ میں نے پوچھا کیا کہہ کر گیا ہے تو وہ دوست کہنے لگا: تمہیں گالی دے کر گیا ہے۔ میں حیران ہوا کہ چھوٹا بچہ مجھے کیوں گالی دے گا۔ میں نے تجسس سے پوچھا کیا گالی دی ہے تو قہقہہ مار کر بولا: تمہیں پنجابی کہا ہے۔ میں نے کہا: پنجاب سے ہونا گالی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! ہمارے ہاں اسے گالی سمجھا جاتا ہے۔ میں حیرانی سے اس دوست کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا سینکڑوں سال پرانی نسلی‘ لسانی اور علاقائی نفرتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ پختون بھائی آج بھی رنجیت سنگھ کے حملوں؍ حکمرانی کو نہیں بھولے اور ادھر نواز شریف کو گنڈاپور کی شکل میں سینٹرل ایشیا کے حملہ آور یاد آ گئے ہیں جو ہر دوسرے روز پنجاب پر حملہ کرتے تھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں