پنجابی کی مثل ہے ”چور اُچکا چوہدری تے گُنڈی رن پردھان“ مطلب یہ کہ ہمارے بابوں نے بتا دیا تھا کہ محلے گاؤں اور شہر میں بنے پھرتے مرد و خواتین بدمعاش اور غنڈے ہوں تو علاقے کے چودھری اور منصف بن جاتے ہیں، یہی ضرب المثل ممالک پر بھی عائد ہوتی ہے۔امن سے رہنے والوں کو غنڈے اور بدمعاش تنگ ہی کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں، میں اپنی جوانی اور طالب علمی کے دور کی مثال دے کر بات واضح کرتا ہوں، ہم جب زیر تعلیم تھے تو پانچ لنگوٹیئے لاہور ہوٹل کے دائیں طرف سٹوڈنٹس اون چوائس کے نام سے بنے ریسٹورنٹ میں چاء پر گپ شپ لگاتے تھے، یہاں دیال سنگھ کالج اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے دوسرے طالب علم بھی آتے تھے۔ قریبی لاہور ہوٹل میں بلیئرڈ روم تھا۔ ہمارے ساتھی محمد اشرف عرف چاچا رنگ والے کو بھی سوجھی اور وہ بھی بلیئرڈ کے کھیل میں شامل ہو گئے۔ ایک روز ہم بیٹھے تھے کہ بلیئرڈ روم سے ایک طالب علم نے آکر اطلاع دی کہ آپ کے دوست کا جھگڑا ہو گیا ہے، ہم بھاگم بھاگ پہنچے تو اشرف تین حضرات سے برسرپیکار تھے، ہمارے پہنچنے پر ہماری تعداد پانچ ہو گئی اور جلد ہی ہم نے ان لوگوں کو مار بھگایا، اس کے بعد ہم فتح کی خوشی منا رہے تھے کہ کسی نے آکر سمجھایا کہ تم لوگ جلدی چلے جاؤ، جن لوگوں کو تم نے مار بھگایا ہے وہ پہلوان کے بندے ہیں اور سامنے اڈے پر گئے ہیں، جہاں سے اور لوگوں کو ساتھ لے کر آئیں گے، یہ سن کر ہماری ساری دلیری خوف میں بدل گئی کہ پہلوان کی بہت شہرت تھی اور اسی بناء پر وہ سیاسی حضرات کی پشت پناہی بھی کرتے تھے، چنانچہ ہم واپس اپنے گھروں کو بھاگ گئے اور پھر جب یہ سنا کہ اڈے والوں نے چیلنج کیا ہے کہ اگر یہ لڑکے اس طرف آئے تو ان کا بُرا حال کیا جائے گا، ہم ڈر گئے اور کئی روز ادھر نہ گئے اور نئی انار کلی کا رخ کرلیا، فلیمنگ روڈ پر ہمارے ایک دوست تھے جو بہت ہی اتھرے (مشتعل مزاج) تھے، جب ہماری ان سے ایک ہفتے تک ملاقات نہ ہوئی تو وہ خود چلے آئے اور نہ آنے کی وجہ دریافت کی تو ہم نے واقع بتا دیا اس پر وہ برہم ہوئے اور بولے! تم لوگ میرے پاس آؤ، میں دیکھتا ہوں کہ کون تمہیں میلی آنکھ سے دیکھتا ہے، سو اس دوست کے بڑوں کی مداخلت سے خود اچھا پہلوان نے ہماری صلح کرا دی اور ہمارا راستہ کھل گیا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی محلے یا علاقے میں بھاری ترین اکثریت شریف اور مہذب لوگوں کی ہوتی ہے، لیکن جب کوئی چور، اچکا شہدے پن یعنی رذالت پر اتر آتا ہے تو یہ سب لوگ اپنی توہین سے بچنے کیلئےخوف کھاتے ہیں، یوں غنڈہ گردی سر چڑھ جاتی ہے، یہی کیفیت مجموعی طور پر ممالک کی ہے کہ عوام کی بھاری ترین اکثریت امن پسند اور صلح جُو سنجیدہ افراد کی ہے لیکن انہی میں سے بپھرے غنڈہ عناصر جن کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے، اپنی شرارتی اور غیر مہذب حرکتوں کی وجہ سے ان پر بھاری پڑتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہمارے شہریوں میں بھی ہے تاہم یہ بھی دیکھا گیا کہ جہاں کہیں تنگ آکر شریف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو ایسے حضرات کو بھاگتے بنتی ہے لیکن ایسا ہوتا بہت کم ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس مثال اور حقیقت کو آپ بھارتی جنتا کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں، میں مکمل یقین سے کہتا ہوں کہ بھارتی شہریوں کی بہت بھاری اکثریت امن کی حامی ہے اور وہ سب اطمینان سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں، لیکن آر۔ ایس۔ ایس کے غنڈہ عناصر نے مودی کو آگے بڑھا کر سرکاری سرپرستی حاصل کرلی ہوئی ہے او ریہ لوگ امن پسند، صلح جو افراد کی ایک نہیں چلنے دیتے بلکہ دوسرے مذاہب (خصوصاً مسلمان اور عیسائیوں کے علاوہ دلت ) کو بھی چین نہیں لینے دیتے، امن پسند بولیں تو وہ بھی ان کے نشانے پر ہوتے ہیں، میں پہلے بھی عرض کر چکا اور اب پھر دہراتا ہوں کہ بھارتی شہریوں کی بہت بھاری اکثریت امن پسند ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں اور سرحدوں سے کھلی آمد و رفت چاہتے ہیں۔ ورلڈ پنجابی کانگرس اور پریس کلب کے وفود کے تبادلوں کے باعث میں قریباً چھ بار بھارت گیا، اس دوران مشرقی پنجاب کے تمام شہروں معہ کروک شیتر (ہندوؤں کا مقدس ترین شہر) دلی، جالندھر، پٹیالہ اور شملہ سمیت کئی شہروں میں تقاریب میں شرکت کا اعزاز ملا، ہمارا بہت ہی پرجوش استقبال کیا جاتا رہا، حتیٰ کہ چندی گڑھ میں مشترکہ بار ایسوسی ایشن کے بھرپور اجلاس سے مجھے خطاب کا بھی موقع ملا اور بہت پذیرائی ہوئی، لیکن جب سے ہندوتوا والوں کے پیسے اور آر۔ ایس۔ ایس کی غنڈہ گردی سے مودی کو صوبائی اور پھر مرکزی اقتدار ملاتب سے معاندانہ سلسلہ بہت زیادہ پھیل گیا اور غیر ہندو افراد کی مجموعی زندگی اجیرن ہو گئی کہ آر۔ ایس ایس والوں کی صورت میں سرکاری سرپرستی میں ”گنڈی“ رن پردھان ہے۔
اس ”گنڈی رن“ نے ایک بڑی سازش کے تحت پاکستان پر ایک بار پھر اچانک جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی اور اب تک اسے منہ کی کھانا پڑی، فروری 2019ء میں بھارتی ایئر فورس کو دو طیاروں سے ہاتھ دھونا پڑے تھے اور اب رات کی تاریکی میں مساجد اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا، منہ کی کھانا پڑی اور اس بار نقصان بھی زیادہ ہے، بلاشبہ ہمارے معصوم شہری شہید ہوئے لیکن چوکس شاہینوں نے جو جواب دیا اس نے ہندوتوا والوں کو تارے دکھا دیئے ہیں اور اپنی مہارت سے کسی نقصان کے بغیر پانچ بھارتی طیارے اور ایک ڈرون مار گرایا ہے، اس سے دو روز قبل ہی بھارتی طیاروں کی دراندازی ناکام ہوئی اور سامنے سے موثر جواب کی وجہ سے ان کو جلدی سے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اترنا پڑا، اس بار بھارت کی طرف سے فضائی دراندازی سے پہلے لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کی گئی اور یہاں بھی شہریوں ہی کو نشانہ بنایا گیا، تاہم ”گنڈی رن“ کو بہادر جوانوں سے واسطہ پڑ گیا اور جواب میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا کہ اب تک کی اطلاع کے مطابق لائن آف کنٹرول کی دو چوکیوں پر بھارت کی طرف سے سفید پرچم لہرا کر ہمارے جوانوں کی برتری تسلیم کرنا پڑی ہے۔ حالات اب بھی ٹھیک ہیں، تاہم پاک فوج اور پاکستانی ہوشیار ہیں، ہمارے زندگی کی معمول پر ہے تاہم ہسپتالوں اور صحت کے مراکز پر ہنگامی صورت حال ہے کہ دشمن کمینہ ہے جو رات کی تاریکی کا ہی سہارا لیتا ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ جب ایمان تازہ ہوتو اللہ بھی مدد فرماتا ہے اور میں یہ 1965ء ستمبر کی جنگ میں دیکھ چکا ہوا ہوں جب دشمن کو رات ہی کی تاریکی میں حملہ کے باوجود منہ کی کھانا پڑی اور ہمارے جوانوں نے بہادری سے دشمن کو روک لیا اور پھر ہماری ایئر فورس نے بھارتی پیش قدمی اور طیاروں کا جو حال کیا وہ بھی تاریخ ہے۔
اب تو ٹیکنالوجی بہت ترقی کر چکی، ہم بھی غافل نہیں رہے اور اب یہ ثابت بھی کر دیا کہ ہم میزائل سازی میں بھارت سے بہت آگے ہیں اور پھر جذبہ جہاد و شہادت جو ہمیں حاصل ہے وہ اورکسی کو نہیں، میں نے سازش کا ذکر کیا تو یہ بات ایک پورے کالم کا تقاضہ کرتی ہے، انشاء اللہ کل بات کریں گے۔
آج مجھے دو باتیں مزید کرنا ہیں، پہلی میرے اپنے پروفیشن کے حوالے سے ہے، میں آئی ایس پی آر اور اپنے محکمہ اطلاعات کو مبارک دوں گا جن کی باہمی رفاقت نے بھارتی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا، تاہم یہ عرض کروں گا کہ اس سلسلے میں مخالف موقف کو بھی ایک حد تک سامنے آنا ضروری ہے اور اس کا لحاظ رکھا جائے، صبح ہی برمنگھم (یو کے) سے میری بیٹی کا فکر مندانہ فون تھا، اس کی اطلاع کے مطابق رات (گزشتہ) وہاں پاکستانی چینلز بند کر دیئے گئے تھے، ہمیں اس کا توڑ بھی کرنا ہوگا کہ بیرون ملک پاکستانی بھی حالات سے باخبر رہیں۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ وقت مکمل اتحاد و یکجہتی کا ہے اگر ہمارے وزیراطلاعات عمران خان کو محب وطن مانتے ہیں تو پھر اے پی سی بلا کر ان کی شرکت (پیرول پر) میں کیا حرج ہے۔ مکمل ترین اتحاد کیلئےایسا ضروری ہے، تحریک انصاف والوں سے گزارش ہے کہ انہوں نے زبان سے جو یقین دلایا اس پر عمل بھی لازم ہے۔ اتحاد او رمکمل اتحاد لازم۔
پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد