وزیراعظم محمد شہبازشریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کے دیگر معمولات میں ایک حتمی معمول یہ بھی تھا کہ وہ صبح پہلے مختلف اخبارات کی خبروں پر مشتمل کلیپنگ خود دیکھتے اور ان پر اپنی ہدایات لکھتے جاتے تھے جو بعد میں متعلقہ محکموں اور شعبوں کو بھیج دی جاتیں۔ ان کے اس معمول میں فرق نہیں آتا تھا اور اگر کسی میٹنگ وغیرہ کی وجہ سے ایسا ہو جائے تو وہ بعد میں بھی دیکھ لیتے تھے، حتیٰ کہ سفر کے دوران وقت مل جاتا تو یہ کام کرلیتے، مجھے ان کے ساتھ لاہور سے سرگودھا تک کے سفر کا بھی موقع ملا، صحافیوں میں، میں اکیلا ہی تھا، لاہور سے سرگودھا ایئرپورٹ کے سفر والے دورانیہ میں انہوں نے یہ کام مکمل کرلیا تھا کہ روانگی جلد ہونے کی وجہ سے وہ اخبارات کی کلیپنگ والی فائل ساتھ ہی لے آئے تھے۔ رپورٹنگ سے علیحدہ ہوئے عرصہ ہو چکا اس لئے مجھے یہ معلوم نہیں کہ موجودہ وزیراعلیٰ اپنے چچا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسا کرتی ہیں؟البتہ ان کی بھرپور مصروفیات کا الیکٹرانک میڈیاسے علم ہوتا رہتا ہے۔ وہ ان دنوں عوامی زندگی کے مختلف شعبہ جات کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں اور محنت بھی کررہی ہیں، حالات سے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ شاید یہ کام وہ خود نہیں کرتیں۔ شاید وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری کے ذمہ ہو۔ آثار یہاں بھی ایسے نہیں محسوس ہوتے کیونکہ اخبارات میں شائع ہونے والے بیشتر مسائل کے حوالے سے سرکاری توجہ کا احساس ہی نہیں ہوتا، چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ فلاح و بہبود کے لئے مسلسل توجہ دی جا رہی اور نئے منصوبوں کے اعلانات مسلسل جاری ہوتے رہتے ہیں۔ اب حال ہی میں کسانوں کی بہبود کے لئے کئی رعائتوں اور مراعات کا اعلان بھی ہوا ہے اور وزیراعلیٰ نے خود بھی جائزہ لیا ہے تاہم جہاں تک ان کے احکام کا تعلق تووہ عوامی بہبود کے لئے ہیں اور ان کو عمل درآمد کے حصہ پر بھی توجہ مبذول کرنا چاہیے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہورہا، حالانکہ یہ لازم ہے کہ جو احکام جاری ہوں ان پر عملدرآمد کا جائزہ بھی مسلسل لیا جائے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا، یہاں تو سب ٹھیک ہے حالانکہ براہ راست عوام سے جب بھی معلوم کیا جائے گا کئی کوتاہیوں کا ذکر مل جائے گا۔
آج میں وزیراعلیٰ صاحبہ کی توجہ اسی مسئلہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور عرض ہے کہ احکام کے بعد نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے نچلی سطح پر کوتاہی اور غلط معلومات جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت ہو رہی ہے، مسٹر جسٹس شاہد کریم سماعت کرتے ہین، وہ ایک بہترین ماہر کی طرح ہدایات دیتے اور حالات کی تصویر پیش کردیتے ہیں۔حالیہ سماعت کے دوران انہوں نے تعلیمی اداروں کی حد تک بسوں کے بارے میں ہدایات جاری کررکھی ہیں ان کی حالیہ آبزرویشن تھی کہ لاہور میں ٹریفک کا بہت برا حال ہے اس کی اصلاح ضروری ہے، ان کے خیال میں ترقی یافتہ دنیا کی طرح ہم پاکستانیوں کو بھی شہری سہولتوں کا خیال رکھنا ہوگا، انہوں نے گزشتہ دو تین سماعتوں کے دوران تعلیمی اداروں کی بسوں کے لئے ہدایات دیں اور وہ فالواپ کے طور پر پوچھ بھی رہے ہیں۔ حالیہ سماعت پر تو انہوں نے حکام کی توجہ لاہور میں ٹریفک جام اور نظام کی طرف بھی دلائی اور کہا ہے کہ سڑکوں کا نئے سرے سے سروے کرانا لازم ہے۔
فاضل جج ہی کے ریمارکس سے متاثر ہو کر میں نے ٹریفک جام والے روز کے معمول کے ساتھ اب یہ بھی خیال کرنا شروع کیا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟میں نے جب توجہ دی تو بہت سی خرابیوں کے علاوہ اصل برائی خود اپنے بھائی شہریوں کے اندر پائی اور پھر توجہ ان منصوبہ سازوں کی طرف ہوئی جنہوں نے خوب محنت کرکے لاہور کو پلوں کا شہر بنا دیا اور سابقہ ادوار میں تیار کی گئی اس فزیبلٹی کو نظر انداز کر دیا جو شہر کی ٹریفک کے حوالے سے ٹیپا کے پاس ہے اور اب داخل دفتر ہی نہ ہوچکی ہو یہ فزیبلٹی لاہور شہر کے تقریباً تمام چوراہوں کو انٹرچینجز میں تبدیل کرنے کی تھی اگر ایسا ہو جاتا تو بتی چوک راوی روڈ، آزادی چوک، چوک داتا گنج بخش، مزنگ چونگی، چوبرجی اور دیگر اہم ٹریفک لوڈ والے مقامات پر انٹرچینج بنانا تھے۔ میری یادداشت کے مطابق یہ تیرہ ہیں، یہ منصوبے پہلے تکمیل پاتے اور پھر سڑکوں کو ری ماڈل کرلیا جاتا تو ٹریفک کا مسئلہ ویسے ہی حل ہوتا جیسے جاپان والوں نے کیا ہوا ہے ان کے پاس تو زمین کی بھی قلت ہے۔
اب ذرا میں لاہور کیا بڑے شہروں کی ٹریفک کے حوالے سے اپنی رائے پیش کرنا چاہتا ہوں جو اس کا مستقل حل ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا ہونا تو متفقہ عمل ہے کہ وزیراعلیٰ بھی یہی کوشش کررہی ہیں، فاضل جج اور خود میں بھی اسی امر کے قائل ہیں کہ فرائض تندہی سے ادا کئے جائیں۔
جہاں تک پبلک ٹرانسپورٹ کا تعلق ہے تو لاہور میں او منی بس سروس ڈبل ڈیکر بسوں کے ساتھ ایک بھرپور فلیٹ کی مالک تھی، اسے نااہل افسروں، کام چور کارکنوں نے مل کر دفن کر دیا۔ شہباز سپیڈ والے دور میں لاہور ٹرانسپورٹ بھی تھی، اللہ جانے اس کا کیا ہوا محکمہ ہی بند کر دیا گیا اور بسیں کھڑی کھڑی ڈھانچے کی صورت رہ گئیں اور شہر ان سے محروم ہو گیا۔ سپیڈو بس بھی اپنی عمر پوری کر چکی اور اب مرمت اور دیکھ بھال کے آسرے پر چل رہی ہے نہ تو بسیں تبدیل ہوئیں اور نہ ہی لاہور ٹرانسپورٹ والی تحقیق کرکے مزید بسیں منگوائی گئیں۔ میں نے سڑکوں پر چلتے پھرتے جو دیکھا وہ عرض کر دیتا ہوں کہ میری رہائش وحدت روڈ پر ہے اور کام کے لئے جیل روڈ پر اپنے دفتر جانا ہوتا ہے اس روز مرہ کے سفر سے اندازہ ہوا اور یقین ہوگیا کہ اس آپا دھاپی کے الزام میں مجھے بھی ان تمام مسائل کا سامنا ہے جو لوگوں کو بھی دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔
میری گزارش یہ ہے کہ سڑکوں کے سروے سے قبل شہریوں کی تربیت ہے کہ وہ نظم و ضبط اختیار کریں اس کے لئے سب سے ضروری تیز رفتاری کو کنٹرول کرنا اور پھر ایک نظم کے تحت سڑکوں کا استعمال ہے جس کے لئے ”لین“ پابندی لازم ہے ہر ایک کو اس پر عمل کرنا ہوگا، کینال روڈ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ان دونوں سڑکوں پر ٹریفک کی سستی اور جام ہونا بھی اسی نظم کی خلاف ورزی کا سلسلہ ہے جب انڈرپاس بنائے گئے تو پھر بھی ٹریفک کا مسئلہ حل نہ ہوا، حتیٰ کہ سگنل فری نظام نے بھی دکھ دیا، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈر پاس کے باوجود رش رہا تو میاں محمد شہبازشریف نے انہی سڑکوں کو مزید کھلا کرا دیا، اب یہ تین سے چار پانچ لین کی سڑکیں ہو چکی ہیں اور ہم شہری ان پر پھیل کر چھ چھ قطاریں بنا لیتے اور پھر چلتے چلتے لین بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہاں ٹریفک جام انڈر پاسز اور سڑک کی چوڑائی کے باعث ہے انڈر پاس 3لین والے ہیں، ٹریفک پانچ چھ لین میں چلتی ہے جب یہ انڈر پاس پر آتی ہے تو بائیں طرف پھیلی گاڑیاں انڈر پاس والی لین میں گھسنے کے لئے آکر چلتی ٹریفک کو پریشان کرتی ہیں اور یوں وہاں رکاوٹ پیدا ہوتے ہی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ضروری ہے کہ سیدھی جانے والی ٹریفک ان تین ”لین“ کے مطابق صبر کے ساتھ چلتی رہے جو انڈر پاس والی ہیں تو ٹریفک نہیں رکے گی۔