پاکستان سے باہر جا کر جس طرح میں نے خود کو سیاسی گفتگو سے بچایا ہوا ہے‘میری کوشش ہے کہ اپنے قارئین کو بھی سیاسی کالموں سے‘خواہ وقتی طور پر ہی سہی‘بچائے رکھوں۔ تاہم ایمانداری کی بات ہے کہ خود کو دیارِ غیر میں دوستوں کے سیاسی سوالات‘جو بالآخر سیاسی بحث پر منتج ہوتے ہیں‘سے بچانا قارئین کو سیاسی کالموں سے بچانے سے ہزار گنا زیادہ مشکل کام ہے مگر میں یہ مشکل کام سرانجام دے رہا ہوں۔ سیاسی اور مذہبی جب بھی بحث شروع ہوتی ہے تو اس کے آغاز میں کہا جاتا ہے کہ میں تو صرف اپنے علم میں اضافہ کرنے کی غرض سے پوچھ رہا ہوں تاہم آپ جیسے ہی اس دام میں پھنس کر اپنے تبحرِ علمی کا پٹارہ کھولتے ہیں تھوڑی ہی دیر بعد علم ہوتا ہے کہ جن صاحب نے آپ سے علم میں اضافہ اور سیکھنے کی غرض و غایت کا غچہ دے کر آپ کو گفتگو پر اُکسایا تھا‘اب وہ آپ کو اپنے علمِ بے کراں سے مستفید بھی فرما رہے ہیں اور آپ کو اس موضوع کیلئے نئے اَسرار و رموز سے آگاہ کرنے کے ساتھ آپ کے علم کو بودا‘معلومات کو فرسودہ اور دلائل کو ناقص قرار دیتے ہوئے آپ کو جاہلِ مطلق ثابت کرنے کے ساتھ آپ کو اپنے خیالات اور نظریات سے استفادہ اور اپنے نقطہ نظر سے رجوع کرنے کی تلقین بھی کر رہے ہیں۔ آخر کار علم میں اضافے کے نام پر شروع ہونے والی یہ علمی گفتگو بدمزگی اور بدمعاملگی پر ختم ہو گی۔ اس لیے بندہ جتنے دن بھی اس سے بچ سکے‘اسے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے‘آگے اللہ برکت ڈالنے والا ہے۔
گزشتہ کالم کا اختتام ملک عزیز میں جنگلی حیات کی بری حالت اور کسمپرسی پر ہوا تھا۔ تاہم کرۂ ارض پر بلا ضرورت حیاتِ جنگلی کا سب سے زیادہ بیڑہ غرق خود گورے نے کیا ہے۔ جنگلی جانوروں کا بے دریغ شکار کرنے اور بعض جانوروں کی نسلوں کو ناپید کرنے تک‘گورے شکاریوں نے ٹرافیوں اور شکار کے ریکارڈ بنانے کیلئے جنگلی جانوروں کا اس برے طریقے سے شکار کیا کہ بندہ پڑھ کر حیران ہو جاتا ہے۔ یہ عاجز بھی کسی زمانے میں شکار کا شوقین رہا‘بلکہ منافقت کیا کرنی‘یہ مسافر اب بھی شکار کا شوقین ہے تاہم اب معاملہ عملی شکار سے زیادہ نظر کے شوق تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن چور چوری سے چلا بھی جائے تو ہیرا پھیری سے بہرحال باز نہیں آتا۔ یہی حال اس عاجز کا ہے۔ دوسرے ملکوں میں وافر جنگلی جانور دیکھ کر اس کے ہاتھوں میں بڑی کھجلی ہوتی ہے مگر یہ عاجز اپنے ہاتھ پر محض کھجلی کرکے ہی خود کو راضی کر لیتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا‘کینیڈا اور امریکہ وغیرہ میں شکار تو بہ افراط ہے مگر شکار کرنے کیلئے بہت سے قواعد و ضوابط‘پابندیاں اور سیزن کی مجبوریاں ہیں۔ بندہ قواعد و ضوابط کی پابندی تو کر سکتا ہے مگر سیزن کا مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ جب امریکہ میں سیزن کھلتا ہے تو یہ مسافر کہیں اور ہوتا ہے‘ جب کینیڈا میں سیزن ہوتا ہے یہ مسافر کہیں اور مکین ہوتا ہے۔ امریکہ میں برادرم اعجاز احمد نے مجھے اکسانے پر شکار کی غرض سے ایک عدد .300 Win Mag کی شاندار سی رائفل بھی خرید رکھی ہے مگر ٹائم کا ایسا مسئلہ آن پڑا ہے کہ طے نہیں ہو پا رہا۔
امریکہ‘کینیڈا اور آسٹریلیا کے علاوہ اپنے زیر قبضہ ہندوستان اور افریقہ کے ممالک میں بھی گورے نے جنگلی جانوروں کو اس بیدردی سے شکار کیا کہ آپ اسے شکار نہیں‘بڑے آرام سے قتلِ عام کہہ سکتے ہیں۔ اب گورا نہ صرف زد پذیر (Vulnerable)‘خطرے کی زد میں (Endangered) اورمعدومی کے قریب جانوروں کو دوبارہ سے ان کے آبائی جنگلی ماحول میں تحفظ دے رہا بلکہ بعض معدوم اور ناپید جانوروں کو ان کے حاصل کردہ ڈی این اے سے کلوننگ کے عمل کے ذریعے دوبارہ وجود میں لانے کی کوشش میں بھی مصروف ہے۔ اسے آپ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ ہم نے اپنی حیاتِ جنگلی کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے باعث بہت سے جانور ہمارے ہاں باقاعدہ ناپید اور معدوم ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں ان میں سے بھی کئی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ہمارے ابھی چونکہ نو سو چوہے پورے نہیں ہوئے لہٰذا ہماری بلی کا ابھی حج کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
میں ایک دن اپنے پرانے شوق سے مجبور ہو کر بڑے شکار (Big Game) میں استعمال ہونے والی نائٹرو ایکسپریس بندوق اور کارتوسوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے .400‘ .500 اور .700 نائٹرو ایکسپریس کے بعد صفحات کھنگالتا ہوا .577 نائٹرو ایکسپریس پر پہنچا تو اس کارتوس کی طاقت‘کارکردگی اور ہلاکت خیزی کی تفصیلات پڑھ کر حیران رہ گیا۔ اس بور کی تعریف کرتے ہوئے بہت سے شکاری ریکارڈز کی بابت جو لکھا تھا اسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ گورے نے اپنی حکومت کے دوران افریقہ میں اپنے باجگزار اور مفتوحہ ممالک میں کیسا اندھا دھند شکار کیا۔ 1890ء میں ڈیزائن کردہ اس رائفل کو بنانے والی اولین کمپنیوں میں برطانیہ کی ہالینڈ اینڈ ہالینڈ‘ویسلے رچرڈز اور جیمز پرڈی اینڈ سنز شامل تھیں۔ اس رائفل سے شکار کرنے والے مشہور شکاریوں میں جیمز ایچ سُدرلینڈ نے اپنی شکاری زندگی میں اس رائفل سے 1600 ہاتھی مارے۔ ان ہاتھیوں کے شکار کے قصے اس نے اپنی کتاب The Adventures of an Elephant Hunter میں تفصیل سے لکھے ہیں۔ میجر جی ایچ اینڈرسن نے 400 ہاتھی مارے۔ ڈیف بنکس نے 1000 سے زائد ہاتھیوں کا شکار کیا۔ جان اے ہنٹر نے 1000سے زائد گینڈے مارے جبکہ کوئنٹن گروگن نے بھی لگ بھگ 1100 گینڈے مارے۔پیٹ پیئرسن نے 2000 سے زائد ہاتھی اس رائفل سے گرائے۔ یہ صرف .577 نائٹرو ایکسپریس کی تعریف میں رطب اللسان چھ عدد شکاریوں کے نام ہیں۔ اس رائفل کے علاوہ دیگر بگ گیم ہنٹنگ رائفلز سے شکار کا ریکارڈ اکٹھا کیا جائے تو یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی۔ یہی حال مقبوضہ ہندوستان میں ببر شیر‘ دھاری دار شیر‘ چیتے‘ تیندوے‘ انڈین گینڈے‘ چیتل‘ سانبھر اور دیگر جنگلی جانوروں کے شکار کا ہے۔ مشہور شکاری ایڈورڈ جیمز کاربٹ المعروف جم کاربٹ کے آدم خور شیروں کے شکار کے قصے میں نے لڑکپن میں بڑے شوق سے پڑھے تھے۔ دو چار سال قبل اٹلانٹس والوں نے اردو زبان میں چھپنے والی پرانی شکار کی کہانیوں کو نئے سرے سے شکاریات کے نام سے کتابی سیریز کی شکل دی تو یہ عاجز کراچی سے اس کی پانچ جلدیں خرید لایا۔ اب سننا ہے کہ مزید چار‘پانچ حصے آ گئے ہیں۔ کراچی گیا تو خرید لائوں گا۔
بعد ازاں جم کاربٹ نے شیروں کے تحفظ کیلئے بڑا کام کیا۔ ہندوستان میں اس کی کاوشوں کے اعتراف میں 1930ء میں بنائے گئے پہلے ہندوستانی نیشنل پارک کا نام 1956ء میں جم کاربٹ سے معنون کر دیا گیا۔ بھارت میں خطرے سے دوچار جانوروں کے تحفظ کیلئے نہ صرف 106 وائلڈ لائف پارکس کا قیام عمل میں آیا بلکہ جانوروں کے تحفظ کیلئے باقاعدہ جامع ایکٹ بنا اور اسے سختی سے لاگو کیا گیا۔ فلمسٹار سلمان خان پر کالے ہرن کے شکار کا مقدمہ آپ کے علم میں ہو گا۔ہمارے ہاں بھی کچھ وائلڈ لائف پارک موجود ہیں لیکن ان کا قصہ بیان کروں تو دل خون کے آنسو روئے گا۔ صرف ایک واقعہ لکھتا ہوں‘بلوچستان میں واقع کیرتھر نیشنل پارک میں ایک سردار نے اپنے دوستوں کے ہمراہ سندھ آئی بیکس کا شکار کرتے ہوئے اتنے آئی بیکس مارے کہ انکی جیپ میں مزید شکار لادنے کی جگہ نہ رہی۔ واپسی پر راستے میں انہیں کافی بڑے سینگوں والے دو ٹرافی ہیڈ آئی بیکس دکھائی دیے تو انہوں نے انکا بھی شکارکیا اور پہلے سے شکار شدہ نسبتاً چھوٹے سینگوں والے دو آئی بیکس راستے میں پھینک دیے۔ ‘سندھ آئی بیکس‘ ممکنہ معدومی کے خطرے والی فہرست میں شامل ہے۔ میں نے کہا تھا کہ ہم نے نہ تو ابھی تک تو سو چوہے پورے کیے ہیں اور نہ ہی توبہ کا ارادہ ہے‘تاوقتیکہ سب کچھ ختم نہ ہو جائے۔