ہمیں کتنی آزادی چاہیے؟

سوشل میڈیا کے عروج نے بڑے بڑے ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ پاپولر جرنلزم کریں۔ سچ جھوٹ کے چکر میں نہ پڑیں‘ بس وہ بات کریں جو لوگ سننا چاہتے ہیں اور سن کر واہ واہ‘ بلے بلے کریں اور تالیاں بجائیں۔ ان کے شوز کو ریٹنگز ملیں‘ چاہے پورا ملک جل ہی کیوں نہ جائے۔ انہیں پروانہیں۔ایک نیا دن اور نئی تالیاں۔ ہر روز داد‘ واہ واہ کا چسکا بندے کو پڑ جائے تو پھر وہ کہاں رکتا ہے۔ انسان کے اندر نرگسیت اسے چین نہیں لینے دیتی کہ وہ دوسروں پر ثابت کرے کہ وہ کتنا مہان ہے۔ وہ سب سے ٹکر لے سکتا ہے۔ کتنے عظیم خیالات کا مالک ہے اور پھر دھیرے دھیرے وہ اپنی ذات اور شخصیت منوانے کے چکر میں لوگوں کی واہ واہ کا قیدی بن جاتا ہے‘ جس سے وہ نہیں نکل پاتا۔ اس کی خوراک سوشل میڈیا پر ہر لمحے داد سمیٹنا ہوتی ہے۔ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے کہ آج وہ کون سی ایسی جھوٹی سچی بات کرے جس پرہر طرف سے داد کے ڈونگڑے برسائے جائیں۔ اب اس کا کھانا پینا سونا جاگنا سب کچھ سوشل میڈیا اور لوگوں کی اس کے بارے میں اچھی بری رائے کے مرہونِ منت ہے۔
چند دن پہلے ایک سوشل میڈیا فورم پر ایلون مسک کے ایک بیان پر بات ہورہی تھی کہ روایتی پرنٹ اور ٹی وی کا میڈیا ختم ہوگیا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اب سوشل میڈیا ہی نئی صحافت ہے۔ اب سوشل میڈیا پر موجود ہر بندہ صحافی ہے۔ اسے اب کسی ٹی وی اخبار کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ بیان ہے۔ برسوں پہلے میرا خیال تھا کہ سوشل میڈیا آنے کی وجہ سے عام انسان انفارمیشن کے ذریعے خود کو اتنا طاقتور کر لے گا کہ اسے بیوقوف بنانا آسان نہیں رہے گا۔ وہ ذہنی اور سماجی طور پر ترقی کرے گا اور ہم ایک بہتر دنیا میں رہیں گے جہاں عقل کی حکومت ہو گی۔ دانائی کا راج ہوگا۔میں روایتی طور پر انفارمیشن کو ایک طاقت سمجھتا آیا ہوں۔میں خود صحافی ہوں لہٰذا خبر اور انفارمیشن کی طاقت سے بخوبی آگاہ ہوں۔ عمر بھر کوشش کی کہ دانستہ طور پر ایسی انفارمیشن یا خبر شیئر نہ کی جائے جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بڑی بڑی خبریں ہاتھ لگیں لیکن کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ڈراپ کرنا پڑا۔ بعض لوگوں کو یقین تھا کہ وہ سچی خبریں ہیں لیکن پھر بھی انہیں بریک نہ کیا کہ کل کو اسے چیلنج کر دیا گیا تو کیا یہ جواب دوں گا کہ فلاں صاحب نے بتائی تھی۔ وہ فلاں صاحب کہیں گے مجھے تو فلاں نے بتائی تھی اور وہ فلاں صاحب کہیں گے کہ مجھے فلاں نے بتائی تھی۔
مگر سوشل میڈیا ایسی جناتی طاقت بن کر اُبھرا ہے جس نے عام انسان کی آواز کو طاقت تو دی ہے‘ وہیں اس نے جھوٹ‘ فیک نیوز اور پروپیگنڈا کو بھی اگلے لیول تک پہنچا دیا ہے۔ مزے کی بات ہے عام انسان ایک دوسرے کو گھڑی گھڑائی‘ جعلی خبروں‘ فوٹو شاپ‘ جھوٹ سے ایک دوسرے کوالو بنا رہے ہیں۔ایسی ایسی احمقانہ باتوں اور پوسٹس کے ہزاروں لائیکس اور شیئر ز ہورہے ہیں کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے کہ ہمارا آئی کیو لیول یا کامن سینس کتنا ہے۔
چند ذہین اور چالاک لوگ ان سادہ لوح لوگوں کی سادگی یا لاعلمی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اگر آج کے دور میں بھی ہمیں بیوقوف بنانا آسان ہے تو کچھ صدیاں پہلے اس خطے کی کیا حالت ہوگی اور کیسے کیسے لطیفے ہوتے ہوں گے۔
دوسری طرف ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک فرماتے ہیں روایتی میڈیا ختم ہوچکا اب ہر بندہ جو سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے وہ خود میڈیا ہے۔ وہ خود رپورٹر‘ خود صحافی‘ اینکر اور خود نیوز میکر اور بریکر ہے۔ بتایا جاتا ہے تقریباً پانچ ارب لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔اب ذرا تصور کریں جب آپ اس معاشرے میں پانچ ارب صحافی‘ نیوز میکرز اور بریکرز پیدا کررہے ہیں وہاں کیسا معاشرہ جنم لے گا؟ کس کس قسم کے جھوٹ نہیں پھیلیں گے تاکہ لوگ فالورز بنیں‘ فیس بک پیج کو لائیک کریں‘ شیئر کریں‘ ری ٹویٹ کریں‘ ویوز دیں تاکہ ڈالرز کمائے جاسکیں۔ تو وہاں کیا کیا دنگل اور فسادات ہوں گے‘ لوگ مریں گے یا معاشرے تباہ ہوں گے۔
لندن کے حالیہ فسادات کے پیچھے بھی ایلون مسک کا ایک ایسا فیورٹ مستقبل کا عظیم صحافی اور نیوزمیکر تھا جس نے ایک فیک نیوز چلائی اور لندن میں اس کی وجہ سے مظاہرے شروع ہوگئے اور پندرہ سو لوگ اس فیک نیوز کی وجہ سے اب جیل میں ہیں اور چھ ماہ سے لے کر تین سال تک کی سزائوں کا سامنا کررہے ہیں۔یہ ہے آپ کا فیوچر کا سوشل میڈیا سے تربیت یافتہ صحافی جو بقول ایلون مسک اب دنیا کو صحافتی فرنٹ پر لیڈ کرے گا اور روایتی میڈیا کو شکست دے گا۔ اگر لندن کے فیک نیوز سے فسادات بھول گئے ہیں تو ہم چند دنوں سے وہ 278 لاشیں سوشل میڈیا پر ڈھونڈ رہے ہیں جو بقول لطیف کھوسہ صاحب بلیو ایریا میں پڑی تھیں اور مل نہیں رہیں‘ حالانکہ ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ خود گن کر سیدھے شو میں آئے تھے۔ ان لاشوں کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی۔ الٹا سب بضد ہیں کہ تین سو لاشیں ملیں یا نہ ملیں لیکن پاپولر رہنا ہے تو آپ نے ماننا ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں تین سو بندے مارے گئے اور ایک گھنٹے بعد اسلام آباد میں لائف نارمل بھی ہوچکی تھی۔ ابھی ایلون مسک کے مستقبل کے ان عظیم اربوں صحافیوں‘اینکرز‘سوشل میڈیا انفلونسرز نے سوشل میڈیا پر کئی چن چڑھانے ہیں۔ شروعات ہمارے ہاں سے ہوچکی ہے۔
ایک ٹی وی شو میں شریک تھا جہاں اس بات کا رونا رویا جارہا تھا کہ میڈیا پر بہت پابندیاں ہیں۔ کافی دیر تک سنتا رہا پھر پوچھ لیا کہ ہم اینکرز بیٹھے ہیں‘ آپ کس کو ٹی وی شو پر نہیں بلا سکتے؟ کون سی بات ہے جو ٹی وی پر نہیں ہوتی؟ کیا بیرسٹر گوہر‘ سلمان اکرم راجہ‘ شیر افضل مروت‘ علی محمد خان‘ فیصل چوہدری‘ شعیب شاہین‘ بیرسٹر علی ظفر وغیرہ کے ٹی وی شوز میں آنے پر پابندی ہے؟ کیا لطیف کھوسہ پر بھی پابندی ہے کہ وہ ٹی وی شوز میں نہیں آسکتے؟اس سے زیادہ آزادی کیا ہوسکتی ہے کہ اسلام آباد ڈی چوک کے حوالے سے ایک پارٹی کے لوگ ایک چینل پر کہیں تین سو بندہ مارا گیا ہے‘ دوسرے چینل پر ایک اور پارٹی لیڈر کہے نہیں سو بندہ مارا گیا ہے‘ تیسرے چینل پر تیسرا لیڈر کہے نہیں پچاس لوگ مارے گئے‘ سلمان اکرم راجہ کہیں نہیں بیس لوگ تھے‘ بیرسٹر گوہر کہیں نہیں بارہ لوگ مارے گئے۔ جس ملک میں اتنے بڑے اہم انسانی ایشو پر ایک ہی پارٹی کے لوگ‘ جو روز اکٹھے ہوتے ہیں‘ ایک دوسرے سے ملتے ہیں‘ پارٹی اجلاس کرتے ہیں وہ باہر نکل کر مرنے والوں کی تعداد تک نہیں جانتے انہیں بھی شکایت ہے کہ میڈیا کمپرومائزڈ ہے۔
آپ مجھے بتائیں لطیف کھوسہ‘ شیخ وقاص اکرم‘ سلمان اکرم راجہ‘ بیرسٹر گوہر کو کتنی دیر لگنی تھی کہ وہ بیٹھ کر طے کر لیتے کہ کتنے لوگ مرے ہیں؟ جس ملک میں آپ ایک بڑے چینل کے پرائم ٹائم شو میں بیٹھ کر کہہ دیں کہ اسلام آباد میں 278 لاشیں گری ہیں اوراس رہنما سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو اور اگلے دن وہ پھر کسی ٹی وی چینل پر بیٹھا وہی گفتگو کررہا ہو‘ وہاں اب بھی شکایت ہے کہ ہمیں بولنے کی آزادی نہیں؟
سمجھ نہیں آرہی کہ 278 بندے ایک ٹی وی شو میں مروا کر بھی ابھی شکایت ہے کہ ہمیں آزادی نہیں ہے۔ ویسے اور کتنی آزادی چاہیے؟ پھر یوں کریں 278 کے ساتھ 8 کے بعد آپ ایک 0 کا اضافہ کر لیں کہ شاید اس سے مکمل آزادی کا احساس ہو ہمیں۔ جھوٹ کی فیکٹریاں کھل چکی ہیں۔ جو جتنا بڑاجھوٹا ہے وہ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اتنا ہی مقبول ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں