ہم بڑے ”خوش نصیب“ ہیں۔ اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ ہمیں یہ ملک دیا، ہم ”آزاد“ ہیں، یہاں ہر سہولت حاصل ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو ہماری فکر لاحق رہتی ہے اور ہمارے لئے وہ آپس میں پنجہ آزمائی کرتے، محاذ آراء رہتے ہیں۔ہماری خاطر توشہ خانے اور ترقیاتی منصوبے بنتے ہیں۔ ہماری ہی خوشی کے لئے اچھی بھلی تعمیر کو اکھاڑ کر اسے ایسی شکل دی جاتی ہے کہ نشہ باز حضرات کو اپنی عادت پوری کرنے کے لئے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی اور وہ آسانی سے نئے ڈیزائن کی لگی ٹیوب لائٹیں انڈر پاس سے اڑا لے جاتے ہیں اور پھر ہماری خوش قسمتی میں کیا کلام ہو سکتا ہے کہ اللہ بھی آج ہی مہربان ہوئے، میرے اس شہر پر بھی رحمت نازل فرمائی، چاروں طرف بارش ہوئی، کہیں ہلکی اور کہیں تیز تھی اور یہ بھی تو ہماری ہی دل جوئی اور حفاظت ہے کہ جونہی آسمان سے بارش کے قطرے برسے بجلی تشریف لے گئی، معلوم ہوا کہ لاہور کے بیشتر گرڈ خود بند کر دیئے گئے کہ کہیں کسی کھمبے میں کرنٹ نہ آ جائے اور کوئی بھینس اس سے لگ کر فوت نہ ہو جائے کہ یہ بڑا نقصان ہوتا ہے، ہم کتنے اچھے شہری ہیں کہ بار بار فون کرتے ہیں کہ معلوم ہو، بجلی صاحبہ کب واپس تشریف لائیں گی، لیکن کوئی فون ہی نہیں سنتا کہ سنا تو جواب دینا ہوگا، میں نے ایسے ہی ایک موسم کے دوران ایک جاننے والے ایس ڈی او سے پوچھا کہ فون کیوں نہیں سنتے تو انہوں نے بتایا کہ لوگ غصہ میں ہوتے ہیں اور اکثر تو گالیاں دیتے ہیں، ہم بھی انسان ہیں، اس لئے اچھا طریقہ یہی ہے کہ فون نہ سنا جائے۔ میرے پیارے پاکستانیو! اب تم خود ہی انصاف کرو کہ بجلی کی مہنگائی سے تنگ آکرتم سولر لگوا رہے ہو، دراصل تم اس طرح میرے ملک کے اس محکمے کو نقصان پہنچاتے ہو کہ اسے اس سولر سے بچی بجلی خریدنا پڑتی ہے جو اس کے لئے نقصان دہ ہے، اسی لئے اب انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ جلد ہی سولر والوں سے نیا معاہدہ ہوگا اور اگر گھریلو سولر سے بچی بجلی سپلائن لائن میں واپس جائے گی تو اس کی قیمت صارف کومبلغ 8سے 10روپے یونٹ دی جائے اور جو صارف بجلی والوں سے بجلی لے گا وہ چالیس روپے فی یونٹ ادا کرے گا اور ٹیکسوں کے حوالے سے تو پوچھو نہیں، آپ ود ہولڈنگ ٹیکس کے نام سے انکم ٹیکس پیشگی دیں گے اور نہ صرف یہ واپس نہ لے پائیں بلکہ نان فائلر ہوئے تو ایسے نُکّو ہو گے کہ بازار سے رقم دے کر بھی کچھ خرید نہ سکو گے کہ ایف بی آر کی نظر میں نان فائلر پاکستان کا شہری ہی نہیں ہوتا اور اگر اسے شہریت برقرار رکھنی ہے تو پھر اسے ہر خریدی گئی شے پر مختلف نوعیت کے متعدد ٹیکس ادا کرکے بھی انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور یہ تو اللہ کا شکر ادا کرو کہ ابھی ہمارے وزیر خزانہ کو یہ خیال نہیں آیا کہ ہر شہری سے مزید براہ راست ٹیکس بھی وصول کرنا چاہیے،ورنہ وہ اب تک ہر شناختی کارڈ کے حامل شہری اور اس کی اولاد کو ”ٹیکس ایبل“ قرار دے چکے ہوتے اور عدم ادائیگی کے لئے سزا بھی تجویز کر چکے ہوتے۔ اللہ کا تو بہر صورت شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے بارانِ رحمت سے نوازا، گندم کی فصل کے لئے تو موتی ہوگی ہی، اس سے خشک سردی بھی ختم ہوئی اور یوں یہ کھانسی وانسی بھی از خود دفعہ ہوجائے گی کہ ادویات قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہمارے وزیر بجلی محترم اویس لغاری، جن کو آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اقتدار ان کے گھر کی لونڈی ہے اور خاندانی طور پر کبھی اقتدارسے دور نہیں رہے، وہ تو لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے کہ بجلی زیادہ استعمال کرو، کھانے پکاؤ، پانی گرم کرو اور نہاؤ کہ ان کی حکمت عملی کے تحت گزشتہ برس کی نسبت خرچ کی گئی زیادہ بجلی سستی ملے گی، اب ان کو یہ کب احساس ہو سکتا ہے کہ صارف بے چارے تو پچھلے سال سے نہیں کئی سالوں سے راشن کم کرکے بل دیتے چلے آئے ہیں کہ قیمت ان کی برداشت سے باہر ہو چکی وہ شاید اپنے حوالے سے بات کررہے ہوں گے کہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ایک ماہ کا بجلی بل چودہ لاکھ روپے ادا کر چکے ہیں، اب اگر اتنا خرچ کرنے والوں کو رعائت دی گئی ہے تو ہمیں کیا ہم تو دعا ہی دے سکتے ہیں۔
وزیرتوانائی کی یہ منطق اب سمجھ میں آئی، اس پر تو انہوں نے وزیراعظم کو بھی قائل کر رکھا ہے کہ محترم محمد شہبازشریف نے بجلی زیادہ استعمال کرنے کی ترغیب دی تھی۔میرا خیال ہے کہ اب وزیراعظم کے علم میں یہ آ چکا ہے کہ یہ فامولا کیوں مشتہر کیا گیا کہ گھریلو صارفین کے لئے قدرتی گیس کی نایابی ان کے علم میں آ گئی ہے اور انہوں نے محکمہ گیس کو ہدایت کی اور خبردار کیا کہ گھریلو صارفین کے لئے گیس کی قلت ناقابل ِ برداشت ہے۔انہوں نے لفظ قلت استعمال کیا تو یہ بھی نیچے سے آنے والی رپورٹوں یا خبروں کے سبب ہو گا،کیونکہ یہاں قلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، قلت تو تب ہوتی ہے جب کوئی شے آسانی سے مل رہی ہو اور اس کی مقدار یا تعداد کم ہو جائے۔یہاں تو سرے سے گیس آہی نہیں رہی، بل آ رہا ہے وہ بھی اب اضافی نرخوں کے ساتھ ملا ہے اور اضافہ بھی کئی فیصد ہے۔اب حضرات یہ بتائیں کہ موسم سرد ہو اور درجہ حرارت گرتا چلا جائے۔ٹیوب ویل سے پانی بھی اوقات کار مقرر کر کے دیا جائے اور اسے چھت کی ٹینکی میں سٹور کرنا مجبوری ہو تو پھر آپ زیادہ بل کی ادائیگی کا بوجھ برداشت کرنے کو تیار ہو کر بھی برفیلے پانی کا استعمال کرنے پر مجبور ہوں تو پھر بیمار نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا اور اگر آپ بیمار ہو کر ادویات کا خرچ برداشت کرنے پر مجبور ہوں گے تو سوئی ناردرن کے سربراہ کو کیا فکر کہ وہ تو ماہوار88لاکھ تنخواہ کی مد میں وصول کر لیتے ہیں اور باقی دنیا کی سہولتیں ان کو مفت حاصل ہیں۔
قارئین! آپ خود ہی بتایئے کہ میں اپنی خوش قسمتی پر کیوں نہ ناز کروں کہ جب سے سردی شروع ہوئی ایل پی جی کا خرچ شروع ہو گیا، نیا چولہا خریدنا پڑا اور ہر ماہ پانچ سے سات ہزار کی ایل پی جی خریدنا بھی مجبوری بن چکی،آج ہی گیس ختم ہو چکی اور منگوانے کے لئے نرخ پوچھا تو معلوم ہوا کہ 320 روپے فی کلو ملے گی، تو حضور خود حساب لگا لیں کہ اب دس کلو کتنے میں آئے گی اب یہ بھی ہماری خوش قسمتی نہیں تو کیا ہے کہ ایل پی جی سے گذارہ تو ہونے لگا ہے اگر آمدنی سے اخراجات کا فرق مزید بڑھ گیا تو اس سے محکمہ والوں کو کیا۔ البتہ وزیراعظم کو ضرور احساس ہوا ہے کہ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں حکم دیا”گھریلو صارفین“ کو بلا تعطل گیس (قدرتی) فراہم کی جائے، میاں صاحب کے منہ میں گھی شکر۔ دُعا گو ہوں کہ ان کی ہدایت پر عمل ہو، ورنہ یہاں تو یہ رواج ہے کہ حکم ہے تو ہے، عمل کون کرائے گا،اگر عمل ہی ہونا ہوتا تو پلاسٹک شاپر پر پابندی کا نہ صرف حکومت بلکہ عدالت عالیہ نے بھی حکم دیا،اس پر عمل تو نہیں ہوا اور جانیئے میرے لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج مسٹر جسٹس شاہد کریم کتنے بھلے ہیں کہ وہ حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ بڑھائی جائے اور طلبا و طالبات کے لئے تعلیمی اداروں کے مالکان اور سربراہان پر لازم قرار دیا جائے کہ وہ بسوں کا اہتمام کریں۔