13 مئی 1978ء کا دن پاکستان کی صحافتی تاریخ میں جس و جہد کے ایک عظیم باب کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے، جب جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں آزادئِ صحافت کے لیے آواز بلند کرنے والے صحافیوں کو کوڑوں کی سزا دی گئی۔
یہ واقعہ نہ صرف اس وقت کی آمریت کے خلاف صحافیوں کی جرات مندانہ مزاحمت کی علامت ہے بلکہ آج بھی سچ بولنے اور لکھنے والے صحافیوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔
پس منظر
جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ متعدد اخبارات بند کیے گئے اور صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) اور آل پاکستان نیوزپیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (APNEC) نے ان پابندیوں کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی۔
اس تحریک کے دوران، 13 مئی 1978ء کو لاہور میں روزنامہ مساوات کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے چار صحافیوں—خاور نعیم ہاشمی، ناصر زیدی، اقبال جعفری اور مسعود اللہ خان—کو گرفتار کیا گیا۔ 
کوڑوں کی سزا
گرفتاری کے بعد، ان صحافیوں کو ایک فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انہیں قید اور کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ مسعود اللہ خان کو طبی وجوہات کی بنا پر کوڑوں کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیا گیا، جبکہ باقی تین صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔
کوڑوں کی سزا کے بعد، ناصر زیدی نے کہا: “جب سزا پر عملدرآمد ہوا، تو مجھے اسٹریچر پر لے جانے کی پیشکش کی گئی، لیکن میں نے انکار کر دیا تاکہ اپنے جابروں کو دکھا سکوں کہ میری روح کو نہیں توڑا جا سکتا۔”
ان کوڑوں کی وجہ سے ناصر زیدی کی بینائی اور کڈنیز متاثر ہوئی تھیں۔ ان صحافیوں ایک ایک سال قید بامشقت سزا بھی دی گئی تھی۔ طویل عرصے تک بیروزگاری بھی رہے۔ زیدی صاحب آج بھی اسلام آباد میں آزادئِ صحافت کے لیے سرگرم ہیں۔
خاور نعیم ہاشمی نے اس تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہا: “ہم بالکل شرمسار نہیں ہوئے تھے بلکہ ہم چاروں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم اس آمریت کے خلاف ننگے ہونے کو تیار ہیں، کوڑے کھانے کو تیار ہیں۔”
خاور نعیم ہاشمی آج بھی لاہور کی ہر تحریک اور جلسے جلوس میں فعال نظر آتے ہیں صحافیوں کے حقوق اور آزافئِ صحافت کے لیے جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج کل ایک وی لاگ پیش کرتے ہیں۔
کوڑوں کی سزا دو اور صحافیو کا بھی سنائی گئی تھی۔ اقبال جعفری نے بھی اپنے ساتھیوں کے حقوق کے لیے کوڑے کھائے۔ اب کراچی میں ایک خاموش زندگی گزار رہے ہیں اور اللہ اللہ کرتے ہیں۔
چوتھے صحافی جنھیں کوڑوں کی سزا سُنائی گئی تھی وہ مسعود اللہ خان تھے۔ ڈیٹی پر موجود ڈاکٹر نے ان جسمانی معذوری دیکھتے ہوئے سزا پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے اُن کی سزا پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
مسعود اللہ خان طویل عرصے تک انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے لاہور آفس میں نیوز ایڈیٹر رہے اور صحافیوں کی کئی نسلوں کو اخلاقیات اور سکلز کی تربیت دی۔ اُن کا 86 برس کی عمر میں 2023 میں لاہور میں انتقال ہوا تھا۔
ان کے ساتھی صحافی ناصر زیدی نے ان کے حوالے سے کہا تھا: “ہم سب نے مل کر آمریت کے خلاف احتجاج کیا۔ مسعود اللہ خان کی معذوری نے انہیں کوڑوں سے تو بچا لیا تھا، مگر اُن کی جرات اور عزم ہمارے برابر تھا۔”
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
کوڑے مارے جانے کے اس واقعے کے بعد، ملک بھر میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور اندازاً 400 سے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ تحریک آزادی صحافت کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوئی اور اس نے مستقبل کی صحافتی جدوجہد کے لیے بنیاد فراہم کی۔
آج بھی، صحافیوں کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سنسرشپ، دھمکیاں اور مالی دباؤ شامل ہیں۔ تاہم، 13 مئی 1978ء کی قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ آزادی صحافت کے لیے جدوجہد جاری رکھنا ضروری ہے۔
13 مئی 1978ء کا واقعہ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سچ بولنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے، لیکن یہی قربانیاں مستقبل کی آزادیوں کی بنیاد بنتی ہیں۔
