یہ پل ہی پل میں کیا ہو گیا؟

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جاری مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا ہے اور میڈیا پر ایک بار پھر زبان کی گولہ باری شروع ہو گئی ہے۔گزشتہ روز تحریک انصاف کے رہنماؤں نے جو پریس کانفرنس کی اس سے تو یہی اندازہ ہوا کہ جیل سے باہر والے لیڈر حضرات میں سے اب ان حضرات کی اکثریت ہو گئی ہے جو مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔اگرچہ احتجاج تو عمران خان کے بیان پر کیا گیا جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے جاری ہوا۔اس میں ایک بار پھر حکومت کے لئے وہی الفاظ استعمال کیے گئے جو مذاکرات کے آغاز سے پہلے کیے جا رہے تھے کہ خود عمران خان کے ٹویٹ(X)کے ذریعے کہے گئے۔اب شبلی فراز صاحبزادہ حامد رضا اور اسد قیصر نے بھی اسی لہجے میں وہی زبان استعمال کی اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ (ن) میں سخت گیر موقف رکھنے والوں کو بھی موقع مل گیا اور انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ عمران خان کے بیان اور باہر والے رہنماؤں کی زبان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ بانی والے مذاکرات میں مخلص ہی نہیں ہیں اور نہ معلوم کس خیال یا مجبوری کے تحت ان کی ٹیم مذاکرات کی میز پر آ گئی تھی،لیکن جب بیرسٹر گوہر خان کی گفتگو ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ اعتدال کی بات بھی ہو رہی ہے یا پھر یہ حکمت عملی بھی کہی جا سکتی ہے کہ خان صاحب کے سوشل میڈیا کو امریکہ والے انصافیے ہینڈل کرتے ہیں۔ بہرحال ڈیڈ لاک برقرار ہے اور ہم جیسے صلح جو افراد پھر سے دُعا کرنے لگے ہیں کہ مذاکرات ہوں اور ملک میں استحکام کی صورت پیدا ہو۔

میں نے اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح ماضی میں سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کے درمیان بات چیت کی کوریج کی، لیکن ایسا ماحول نہیں دیکھا جو ساس بہو کی لڑائی جیسا اب ہے یا پھر ککے زئی محلے جیسا ہو۔یہ بات مشہور نہیں حقیقت ہے کہ ہمارے شہر کے اس پرانے محلے میں لڑائی اور وقفہ ساتھ ساتھ چلتے تھے۔خواتین مرد حضرات کے ناشتہ سے فارغ ہو کر کام کاج پر چلے جانے کے بعد کھڑکیوں میں آ کر طعنہ زنی شروع کر کے اس عبوری سیز فائز کو ختم کر دیتی تھیں۔اس کی نشانی یہ تھی کہ جب ہانڈی روٹی کا وقت ہو تو فریقین اپنے اپنے گھروں کے باہر ”توے“ لٹکا دیتی تھیں اور لڑائی بند ہو جاتی۔یوں اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ اچھے بھلے دو ادوار ہوگئے اور اب وقفہ آ گیا جس کے دوران یہ حضرات اگلے راؤنڈ کی تیاری کرتے ہیں۔

دوسری طرف خود تحریک انصاف میں کئی قسم کی باتیں چل رہی ہیں، کے پی کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی علامت بن گئے ہیں اب عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہہ دیا ہے کہ علی امین گنڈا پور یہ پیشکش لے کر آئے تھے کہ عمران خان بنی گالا میں نظر بند ہو جائیں لیکن وہ نہیں مانے جبکہ گنڈا پوری حلقوں کے مطابق وہ ایسی پیشکش لیکر نہیں گئے، لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ یوں یہ سب حالات چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گئے ہیں۔محترم حامد رضا تو اور بھی آگے بڑھ گئے، کہتے ہیں، بانی کو تین سال، ایک سال اور چھ ماہ ملک سے باہر جانے کی پیشکش کی گئی وہ نہیں مانے۔

اب ذرا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہو تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ ہی ٹرمپ کارڈ ہے،وہ اپنے انتخاب کے بعد20جنوری کے حلف سے قبل ہی مسلسل مختلف نوعیت کے اعلان کئے جا رہے ہیں،جن سے ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف اسرائیل کے مکمل حمایتی اور اس کی طرف سے مسلسل جارحیت اور ظلم کی بھی حمایت کرتے چلے جا رہے ہیں۔غزہ میں حالات بڑے نازک ہیں اور حملہ آور اسرائیل وقفہ بھی نہیں کر رہا اور بارود برساتا چلا جا رہا ہے اور اب تو اس نے کینیڈا اور میکسیکو پر بھی دعویٰ کر دیا اور ساتھ ہی معاشی دباؤ بھی ڈال رہا ہے،اسی ٹرمپ صاحب کے نامزد کردہ رچرڈ گرینل نے عمران خان کی رہائی کے لئے آواز بلند کی تو اب یہ جان کر بھی کہ ایسے بیانات سے خود خان صاحب کی حقیقی مدد نہیں ہو گی کہ یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی درست کارروائی کے بغیر وہ باہر آ جائیں، ٹرمپ جب اقتدار سنبھال لیں گے تو ان کے سامنے کئی بڑے بڑے بکھیڑے ہوں گے یوں بھی امریکہ کے صدر یا ان کے مشیر بیان دے سکتے ہیں لیکن یہ کوئی حکم تو نہیں ہوتا کہ جس کی تکمیل کی جائے۔یوں بھی اگر ٹرمپ صدر کا حلف اُٹھا لینے کے بعد ایسی ہی جارحیت کا مظاہرہ کریں گے تو حالات خراب ہوں گے اس لئے ان کو بھی ڈپلومیسی سے کام لینا ہو گا۔اگرچہ یہاں خان صاحب کے حمایتی حضرات پُریقین ہیں کہ ایسا ضرور ہو گا اور خان صاحب رہا ہو جائیں گے یہ یکطرفہ سوچ تو ہو سکتی ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ کیا ہو گا جب ایسا کچھ کیا جائے گا تو…… تو وقت آئے گا تو علم ہو ہی جائے گا کہ کون کیا کرتا ہے۔ فی الحال تو موجودہ (امریکی)حکومتی ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ جو کچھ بھی ہونا ہے وہ پاکستان کی عدالتوں نے کرنا ہے۔

اب ذرا تحریک انصاف والوں کے حالیہ بیانات اور توقعات پر توجہ دیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات میں تعطل والی پہل خود ان کی اپنی ہے کہ بات تو تحریری مطالبات سے شروع ہوئی اور لسی میں پانی کی طرح لمبی ہوتی چلی جا رہی ہے،سیاسی حریفوں کے درمیان کسی تنازعہ کو مٹانے کے لئے بات چیت ہوتی تھی تو کم ازکم شریک گفتگو میڈیا کے ساتھ آ کر بڑھکیں نہیں مارتے تھے بلکہ اندرکی بات اگلوانا مشکل ہو جاتا تھا اس سلسلے میں پھر نوابزادہ نصر اللہ سے ہی رجوع کرنا پڑتا ہے،انہوں نے میرے اصرار پر مجھے بتایا کہ یہ جو اتحاد بنتے ہیں ان کے لئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے وہ ہر جماعت کے اکابر سے خاموش اور خفیہ ملاقاتیں کرتے تھے اور یوں اکیلے اکیلے کو قائل کرنے کے بعد مشترکہ بُلا کر شرائط طے کر لی جاتی ہیں اور جب وہ سب پریس کے سامنے آتے ہیں تو یک زبان فیصلہ ہی سنا دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے لئے بھی یہی راستہ تھا اور ہے کہ بعض باتیں درون خانہ ہی رہیں اور حتمی فیصلہ کے بعد بات کی جائے،لیکن یہاں تو ہر کوئی اپنے اپنے موقف کے مطابق بات کرتا ہے،تاہم شیر افضل مروت کے اس مطالبے پر دھیان ہی نہیں دیا جاتا کہ وکلاء حضرات کو کتنی فیسیں ادا کی گئیں ان کے اس مطالبے سے پہلے یہی تصور تھاکہ بڑے لوگ اور بڑے وکیل ہیں یہ جماعت والوں کے مقدمات میں فیس نہیں لیتے ہوں گے، تفصیل سے بڑی وضاحت ہو جائے گی۔ یہ سطورمکمل ہو چکی تھیں کہ خبر آ گئی کہ بیرسٹر گوہر خان چیئرمین، شیرافضل مروت کے ساتھ بانی سے ملے اور بقول گوہر خان بانی نے اجازت دے دی کہ مطالبات تحریر کرکے دے دیئے جائیں اور تیسرے دور کی بات کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں