یہ کیسا قحط آن پڑا ہے؟

ماؤنٹ ٹیمبورین پر واقع ساڑھے گیارہ مربع کلومیٹر پر مشتمل ٹیمبورین نیشنل پارک کے سب سے بلند حصے کنول (Knoll) سیکشن کے اختتام پر ایسا منظر تھا جس کو الفاظ میں بیان کرنا کم ازکم میرے لیے تو ممکن نہیں۔ قدرتی حسن اور خوبصورتی کے سامنے تو کیمرہ بھی پوری منظر کشی کرنے سے عاری اور لاچار دکھائی دیتا ہے۔ بھلا الفاظ کی کیا مجال کہ مالکِ کائنات کے بکھیرے ہوئے کرشموں کو سمیٹنے کی تاب لا سکیں۔ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں ایسے منظر اور مقامات نہیں ہیں‘ تاہم قدرتی حسن کو اس کی اصل حالت میں رکھنا بہرحال ہماری ترجیحات میں تو بالکل شامل نہیں۔ اس عاجز کا ذاتی تجربہ ہے کہ ہم نے ہر خوبصورت مقام کو‘ ہر خوبصورت منظر کو اور ہر حسین علاقے کو بڑی محنت اور دلجمعی سے برباد کیا اور ممکنہ حد تک اسے بدصورت کرنے کی اجتماعی کوششیں کی ہیں۔
مری‘ پتریاٹہ‘ نتھیاگلی‘ ایوبیہ‘ ناران‘ جھیل سیف الملوک‘ کالام‘ اوشو‘ چکار‘ سدھن گلی‘ بنجوسہ اور بہت سے مقامات جو قدرتی حسن سے مالامال تھے‘ ہم نے برسوں کی محنت سے ان کی خوبصورتی کو حتی الامکان حد تک بدصورتی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ ابھی جو چند دور دراز کے مقامات برباد ہونے سے محفوظ ہیں تو اس میں کمال ہمارا نہیں بلکہ ان مقامات تک ہماری نارسائی کا ہے‘ ورنہ ان کی کیا مجال تھی کہ اپنے قدرتی حسن کو ہماری خداداد تباہ کن صلاحیتوں کے سامنے برقرار رکھ پاتے۔ لیکن کب تک؟ بس تھوڑی سڑکیں بہتر اور راستے آسان ہونے کی دیر ہے‘ پھر ہماری کارکردگی دیکھیں۔مسئلہ مرعوب ہونے یا احساسِ کمتری کا نہیں بلکہ احساسِ زیاں کا ہے۔ بھلا کس چیز کی کمی ہے سوائے احساسِ ذمہ داری کے۔ نہ ہمیں اپنے ہاں موجود بے پناہ قدرتی حسن کو سنبھالنا آیا اور نہ ہی اس حسن کو مارکیٹ کرنا آیا۔ ویسے بھی جہاں نہ تو قدرت کا حسن ہی باقی بچا ہو اور نہ ہی بنیادی سہولتیں‘ جن میں محفوظ سفر‘ مناسب رہائش‘ صاف واش رومز اور سیاح دوست ماحول شامل ہے‘ تو بھلا اسکی مارکیٹنگ کی بھی کیسے جا سکتی ہے؟ مارکیٹنگ سے خیال آیا کہ چیز بیچنے کیلئے جسِ مزاج اور طبع کی ضرورت ہوتی ہے ہم تو اس سے بھی محروم ہیں۔ جو شخص مسکرا نہیں سکتا وہ کم ازکم دکانداری نہیں کر سکتا۔ اسے کوئی اور کام کرنا چاہیے۔ اور ہم! ہم مسکرانا تو رہا ایک طرف‘ مسکرانے کی اداکاری کرنے سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ میں نے ایک بڑے اچھے سٹور کے کیش کاؤنٹر پر کھڑے نوجوان سے‘ جو پیسے وصول کرتے ہوئے بھی اپنے ماتھے پر تیوریاں ڈالے ہوئے تھا‘ کہا کہ برخوردار! چہرے پر مسکراہٹ لانے کا پہلا فائدہ مسکرانے والے کو خود ہوتا ہے اور ماتھے پر ہمہ وقت تیوریاں ڈالنے والا اس کے منفی اثرات کا سب سے پہلا شکار بھی خود ہوتا ہے۔ اگر تم دل سے نہیں مسکرا سکتے تو کم ازکم مسکرانے کی اداکاری کرنا شروع کر دو۔ ان شاء اللہ تمہیں آہستہ آہستہ دل سے مسکرانا بھی آ جائے گا۔ اس نے مجھ سے پیسے لے کر کیش باکس میں رکھے اور اس کو زوردار طریقے سے بند کر کے اپنا غصہ اس بے جان چیز پر نکال لیا۔ آپ کہیں گے کہ ممکن ہے اس روز اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہو کہ اس کا موڈ خراب ہو اور مزاج بگڑا ہوا ہو۔ مگر ہمارے ہاں یہ مسئلہ تو ہر دوسرے شخص کے ساتھ ہے۔
جب میں درختوں سے لدے ہوئے پارک کے اس آخری سرے پر پہنچا تو سامنے لگی ہوئی لکڑی کی ریلنگ کے پیچھے تاحد نظر ایک وادی تھی‘ جس کا سبزہ دور کہیں افق پر آسمان سے گلے مل رہا تھا۔ ڈاکٹر تصور اسلم نے اپنے موبائل فون پر میری تصویر بنائی اور پھر میں نے اس کی تصویر بنائی۔ اتنے میں پرے بنچ پر بیٹھی ہوئی تین ہم عمرخواتین میں سے ایک ضعیف عفیفہ اُٹھ کر ہماری طرف آئی اورہمارے قریب آکر کہا کہ اگر آپ دونوں اپنی تصویر اکٹھے بنوانا چاہتے ہیں تو میں آپ کی تصویر بنا دیتی ہوں۔ ڈاکٹر تصور نے اس کو شکریہ ادا کرتے ہوئے فون اسے پکڑا دیا۔ اس نے ہماری دو تین تصاویر بنا کر کہا کہ میں اکثر ادھر آتی رہتی ہوں‘ آپ ادھر دوسری طرف سے تصاویر بنائیں گے تو پس منظر زیادہ خوبصورت آئے گا اور ہاں! اس طرف پرندے بھی ہوتے ہیں۔ ابھی میں ایک Kookaburra کو دیکھ کر آئی ہوں۔ میرا خیال ہے وہ ابھی ادھر ہی بیٹھا ہو گا۔
ممکن ہے ہمارے نزدیک اس ایک پرندے کی موجودگی کوئی اہمیت نہ رکھتی ہو مگر میں نے یورپ‘ امریکہ اور آسٹریلیا کے پارکس میں درختوں کے درمیان گھومتے ہوئے بے شمار لوگوں کو پرندوں کی تصاویر کھینچتے یا محض انہیں دیکھنے میں مشغول پایا ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو ہمراہ لاتے ہیں اور ان کے ساتھ ”برڈ واچنگ‘‘ کرتے ہیں۔ بچوں کو پرندوں کو ڈرا کر اڑانے کے بجائے ان کے ساتھ دوستانہ ماحول میں متوازی اور متوازن طرزِ زندگی کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ ادھر چھوٹے چھوٹے جانوروں پر مشتمل بہت سے ایسے فارم ہیں جہاں دو تین پستہ قد گدھے‘ ایک چھوٹے سے تالاب میں آٹھ دس بطخیں‘ صحن میں پھرتی دس پندرہ مرغیاں اور ان کے چوزے‘ چھ سات ٹیڈی بکریاں‘ پندرہ بیس کبوتر‘ دو چار مقامی پیلی کلغی والے سفید کاکاٹو طوطوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے مچھلی گھر میں رنگ برنگی درجن بھر نمائشی مچھلیاں ہوتی ہیں۔ ان کے مالکان نے اپنے اس ”اینیمل فارم‘‘ میں چار پانچ رہائشی کمرے بنائے ہوتے ہیں جہاں لوگ آن لائن بکنگ کر کے ویک اینڈ گزارنے آ جاتے ہیں۔ بچے اس فارم میں موجود سٹور سے ان جانوروں کی خوراک خریدتے ہیں اور ان جانوروں کو اپنے ہاتھوں سے کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ فارم کے مالکان نہ صرف کمروں کے کرائے اور کھانے پینے کی مد میں پیسے کماتے ہیں بلکہ اپنے جانوروں اور پرندوں کو بھی سیر کرنے والوں کے خرچے پر پالتے ہیں۔
ممکن ہے کوئی قاری کہے کہ یہ سب باتیں ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”رج کھان دیاں مستیاں‘‘ ہیں اور غریبوں کو یہ چونچلے وارے نہیں کھاتے۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ واقعی سب امیروں کے چونچلے ہیں لیکن ہمارے ہاں امیروں کو بھی بھلا یہ توفیق کب ہوئی ہے کہ اپنے بچوں کو قدرتی ماحول کو برباد کیے بغیر حیاتِ جنگلی کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت رہنا سکھا دیں۔ ٹیمبورین نیشنل پارک میں اس خاتون کی بتائی گئی جگہ پر پہنچے تو ایک کھٹ بڑھئی سے ملتا جلتا لیکن نسبتاً موٹا تازہ سفید اور ہلکا نسواری پرندہ زمین پر بیٹھا تھا‘ جو ہمیں آتا دیکھ کر درخت پر جا بیٹھا۔ خیال آیا کہ مجھے پاکستان میں ہدہد دیکھے کتنے سال ہو گئے ہیں؟ پھر یاد آیا کہ نیل کنٹھ کدھر چلے گئے؟ ایمرسن کالج کے لان میں گڑھل کی پھولوں بھری شاخوں پر پھدکنے والی رنگین چڑیاں کہاں غائب ہو گئیں؟ گلگشت ہائی سکول کے شہتوتوں پر شور مچانے والے تِلیر کیا ہوئے؟ ماں جی مرحومہ کی زبان میں کال کلیچیان کہاں ”ہوا پتاس‘‘ ہو گئیں؟ 50‘ 55 سال پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں 325ج ب (دُلم) میں بلامبالغہ ایک ایک درخت پر درجنوں فاختائیں‘ جنہیں ہم گُھگی کہتے تھے‘ بیٹھی ہوتی تھیں۔ وہیں بارش کے بعد بیر بہوٹیوں کی باراتیں نکلتے دیکھی ہیں۔ آخر یہ سب کچھ کہاں چلا گیا؟ بڑے جانوروں کا ذکر کیا کرنا‘ ہمارے تو چھوٹے چھوٹے جانور‘ پرندے اور کیڑے بھی نہ رہے۔ مقامی پرندوں کا کیا کہوں‘ سائبیریا اور دیگر سرد علاقوں سے سردیوں میں سالانہ ہجرت کر آنے والے مسافر پرندے کونجیں‘ مرغابیاں‘ نیل سر‘ بار ہیڈد گوز (قاز)‘ سپون بِل‘ سرخاب‘ سارس اور دیگر انواع کے پرندے اپنے بے دریغ شکار کے بعد اس طرف کا رُخ کرنا بہت کم کر گئے ہیں۔ یہی حال تیتر‘ تلور اور مرغِ زریں جیسے پرندوں کا ہو چکا ہے۔ اور کیا کہوں‘ پچھلے دنوں میرے چھوٹی بیٹی کہہ رہی تھی کہ اس نے کبھی جگنو نہیں دیکھا۔ کیسا عجب قحط پڑا ہے کہ نہ اب جگنو چمکتے ہیں اور نہ ہم مسکراتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں