16 دسمبر پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک افسوسناک یاد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دن دو بڑے اور دل دہلا دینے والے سانحات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا: مشرقی پاکستان کی علیحدگی (1971) اور آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کا حملہ (2014)۔ یہ دونوں واقعات نہ صرف المناک ہیں بلکہ ان کے متنازع بیانیے اور الزامات نے پاکستانی معاشرتی اور سیاسی شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جب ملک دو لخت ہوا، اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ المیہ کئی اندرونی اور بیرونی عوامل کا نتیجہ تھا، جن میں سیاسی، معاشی، نسلی، لسانی، ثقافتی، اور عسکری مسائل شامل تھے۔ بیرونی سازشوں نے ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا، اور مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان موجود خلیج کو گہرا کیا۔
مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی، لیکن سیاسی طاقت مغربی پاکستان کے ہاتھوں میں مرکوز رہی۔ “ون یونٹ پالیسی” اور اختیارات کی مرکزیت نے مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی پیدا کیا۔ وہاں کی قیادت نے اس محرومی کو مزید ہوا دی، اور معاشی استحصال کا تصور شدت اختیار کرتا گیا۔ مشرقی پاکستان میں یہ خیال عام تھا کہ ان کی پیداوار سے حاصل وسائل کا بڑا حصہ مغربی پاکستان کی ترقی پر خرچ ہو رہا ہے۔ اس سے مشترکہ طور پر وسائل کے استعمال کا تصور متاثر ہوا۔ زبان کا تنازعہ بھی تقسیم میں ایک اہم عنصر تھا۔ 1948 میں اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ کرنے کی کوشش نے بنگالی عوام میں بدگمانی کو جنم دیا، اور بنگالی زبان تحریک نے نسلی اور ثقافتی اختلافات کو بڑھا دیا۔ مشرقی پاکستان کی قیادت نے قومی یکجہتی کے بجائے علاقائی مفادات کو ترجیح دی، جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ بنیادی ڈھانچے، تعلیم، اور صنعتی ترقی کو نظرانداز کیا گیا، جبکہ مغربی پاکستان کی ترقی کو ترجیح دی گئی۔ یہ رویہ استحصال کے احساس کو مزید گہرا کرتا رہا۔
شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکاتی پروگرام، جو مشرقی پاکستان کے لیے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کرتے تھے، مغربی پاکستان کی قیادت نے علیحدگی پسند ایجنڈے کے طور پر دیکھا۔ ان مطالبات پر مذاکرات نہ ہونے سے علیحدگی کے جذبات پروان چڑھے۔ فوجی حکومتوں کی آمرانہ پالیسیاں اور عوامی لیگ کے ساتھ بامعنی مذاکرات نہ ہونے نے بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ 1971 کے انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی میں تاخیر اور بداعتمادی نے مزید تنازعات کو جنم دیا۔ مارچ 1971 میں پاکستان آرمی نے مشرقی پاکستان میں “آپریشن سرچ لائٹ” شروع کیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ دسمبر 1971 میں بھارت نے مکتی باہنی کی حمایت میں مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی، جس کا اختتام 16 دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ پر ہوا۔ سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات میں سیاسی محرومی، معاشی استحصال، ثقافتی اختلافات، اور قومی یکجہتی کی ناکامی شامل تھیں۔ فوجی کارروائی اور قیادت کی ناکامی نے حالات کو مزید خراب کیا، جبکہ بھارتی مداخلت نے اس سانحے کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ یہ واقعہ پاکستان کے لیے گہرا سیاسی اور نفسیاتی دھچکا تھا۔ آج بھی اس پر متضاد بیانیے موجود ہیں، جن میں بعض لوگ مغربی پاکستان کی قیادت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جبکہ بعض مشرقی پاکستان کی قیادت اور بیرونی طاقتوں کو قصوروار سمجھتے ہیں۔
16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے نے پوری قوم کو غم میں مبتلا کر دیا۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چھ مسلح دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کیا، جس میں 132 بچوں سمیت 149 افراد شہید ہو گئے۔ دہشت گردوں نے اسکول کے آڈیٹوریم میں موجود بچوں اور اساتذہ پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس سانحے نے پاکستان کی اجتماعی یادوں میں ایک گہرا نشان چھوڑا۔ دہشت گردوں نے اس حملے کو آپریشن ضربِ عضب کا انتقام قرار دیا، جو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی میں نمایاں تبدیلیاں کی گئیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا، شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کی گئی، اور تعلیمی اداروں سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ تاہم، بعد کے ادوار میں حکومتوں کی پالیسیاں تنقید کی زد میں رہیں، خاص طور پر جب ہزاروں دہشت گردوں کو دوبارہ ملک میں بسایا گیا۔ ان فیصلوں نے اے پی ایس شہداء کے خاندانوں کو غیرمحفوظ اور مایوس کیا، اور کئی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
ان دونوں سانحات کے گرد مختلف بیانیے اور الزامات موجود ہیں۔ اگر ہم ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے حقیقی اسباب جاننے کے لیے ایک آزاد اور خودمختار سچائی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔ یہ کمیشن متاثرین کے خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے اور ذمہ دار افراد اور اداروں کا تعین کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں ان تاریخی واقعات کی درست اور غیرجانبدار تشریحات شامل کی جائیں۔ برداشت، قومی یکجہتی، اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے خصوصی پروگرام متعارف کروائے جائیں۔ نیشنل ایکشن پلان کو مزید مؤثر بنایا جائے اور شدت پسند تنظیموں کی مالی معاونت کے ذرائع کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ سیکیورٹی اداروں اور سول سوسائٹی کے درمیان تعاون بڑھایا جائے۔ مختلف سیاسی، سماجی، اور مذہبی دھڑوں کے درمیان مکالمے کا آغاز کیا جائے تاکہ اختلافات کو ختم کر کے ایک متفقہ قومی بیانیہ تشکیل دیا جا سکے۔ اے پی ایس شہداء اور مشرقی پاکستان کے متاثرین کے خاندانوں کو سماجی اور مالی مدد فراہم کی جائے۔ ان کے مسائل کو ریاستی ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ قومی سطح پر یادگاریں اور میوزیم قائم کیے جائیں تاکہ نئی نسل ان واقعات کی تاریخ اور اہمیت کو سمجھ سکے۔ سول اور عسکری اداروں کے درمیان توازن قائم کیا جائے تاکہ فیصلہ سازی میں تمام فریقوں کی شمولیت یقینی ہو۔ یہ اقدامات پاکستان کو ماضی کی تلخ یادوں سے نکال کر ایک مضبوط اور روشن مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور ان سے سبق سیکھنا ہی ایک کامیاب اور متحد قوم کی علامت ہے۔