آزادی صحافت کا عالمی دن 3مئی کو اقوام متحدہ کے حکم پر ہرسال دنیا کے بیشتر ممالک میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاس ہونے والی قراردادوں کو حکم نہیں کہا جاتا لیکن اِس کالم میں مندرجہ بالا جملے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کی بجائے اقوام متحدہ کے حکم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لکھنا اس لیے ضروری تھا کہ مغربی ممالک جن قراردادوں پر عمل کروانا چاہتے ہیں یا اُن کے بارے میں شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اُس پر کچھ نہ کچھ عمل ضرور ہوتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی وہ قراردادیں جو مغربی ممالک کے مفاد میں نہیں ہوتیں، اقوام متحدہ کی الماریوں میں پڑی دیمک کی نذر ہونے کی منتظر رہتی ہیں۔ انہی میں اقوام متحدہ کی ایک تاریخی قرارداد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے کے حوالے سے بھی ہے۔ صحافت کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔ دنیا میں صحافت مذہبی پیغامات یا سپاہ سالار کے احکامات پہنچانے کے لیے ایجاد ہوئی لیکن یہ ایجاد فرعون کے گھر موسیٰؑ کی پرورش کی طرح ثابت ہوئی۔ رفتہ رفتہ ڈکٹیٹروں اور انتہاپسندوں کو آزادی صحافت پھن پھیلایا ناگ محسوس ہونے لگی۔ صحافت کا عالمی دن منانے کا مقصد ’’آزادی صحافت کے لیے شعور اجاگر کرنا اور حکومتوں کو آزادی اظہار کے حق کا احترام کرنے اور اسے یقینی بنانے کا فرض یاد کرانا ہے‘‘۔ پاکستان میں بھی آزادی صحافت کا دن پوری صحافتی طاقت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں آزادی صحافت غضب ناک ہے لیکن حیرت ناک نہیں کیونکہ تاریخ عالم میں سچ بولنے اور سچ لکھنے کی سزا ہمیشہ ایک سی ہی رہی ہے۔ صحافت شعور کا نام ہے۔ شعور چیز ہی ایسی ہے جس کو آجاتی ہے اُسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی اور جس کے خلاف آتی ہے وہ بھی چین سے زندگی نہیں گزارتا جس کی پاکستان میں بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان کی صحافت میں آزادی صحافت کے شعور کا سب سے پہلا اظہار پاکستان کے قیام سے تین دن پہلے ہوا جب بانی پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح نے پاکستان کے لیے آئین ساز اسمبلی میں 11 اگست 1947ء کو اپنی تاریخی تقریر کی۔ اُسی شام روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کو قائداعظمؒ کی تقریر کے بعض حصے شائع نہ کرنے کا خفیہ آرڈر آیا۔ اس آرڈر کے خلاف ایڈیٹر کا انکاری ردعمل پاکستان میں آزادی صحافت کی ابتداء ٹھہرا۔ نیل آرمسٹرانگ جب چاند پر اترا تو اُس نے کہا ’’ایک انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہے‘‘۔ پاکستان میں آزادی صحافت کے چاند پر روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کا وہ پہلا قدم ملک میں آزادی صحافت کا پکا پتا دے گیا۔ یہ علیحدہ بات کہ پاکستانی صحافت کو اس پتے تک پہنچنے کے لیے لمبا، کٹھن اور جان لیوا سفر طے کرنا پڑرہا ہے۔ صحافت اور صحافیوں پر چھوٹے بڑے شب خون کے واقعات میں ایوب خان کے دور کی وہ فوجی چڑھائی ناقابل فراموش ہے جس میں اخبارات کے دفاتر پر قبضہ کیا گیا تھا۔ یہ کاروائی دشمن کی چھائونی پر قبضے کی کاروائی جیسی تھی جس میں اخباری دفتروں پر شب خون کے لیے آدھی رات کا وقت مقرر کیا گیا اور باوردی سپاہیوں نے اخباری عمارت کے ہرکونے میں اندھیرے میں خاموشی سے اپنی پوزیشنیں جمالیں۔ ایوب خان اخبارات کے خلاف فوجی کاروائی میں جیت گئے لیکن صحافت نہیں ہاری۔ پاکستان میں مارشل لاء ہو یا جمہوریت، صحافی اور صحافت پوری طرح کسی کو راس نہیں آتی۔ صحافیوں کو رام کرنے کے لیے سخت طریقوں کے ساتھ نرم طریقوں کا بھی استعمال شروع کردیا گیا۔ اس میں بعض صحافیوں کو پلاٹ اور رقم کے ذریعے اپنی طرف متوجہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے بھی صحافت میں اپنے نمائندے پیدا کرلیے۔ بعض صحافی گویا صحافی کی بجائے سیاسی کارکن بن گئے۔ پاکستان میں صحافت نے سنہ 2002ء کے بعد ناقابل کنٹرول طاقت حاصل کرلی جب ہرطرف الیکٹرانک میڈیا چمکنے لگا۔ الیکٹرانک میڈیا میں خواتین کو بھی بہت مواقع ملے جنہوں نے صحافت میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ پاکستان کے کم از کم بڑے شہروں میں میڈیا اب اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ اُسے آسانی سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کا پروایکٹو ہونا ہے۔ میڈیا کی مضبوطی کے ساتھ کچھ میڈیا پرسنز کے اطوار بھی بدل گئے ہیں۔ اگر اُن کا کوئی تجزیہ درست ثابت نہ ہوتو وہ اپنا تجزیہ بدلنے کی بجائے حالات کو بدلنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ کچھ میڈیا پرسنز کا رویہ ایسا ہوگیا ہے جیسا کہ کمیونسٹ فلسفے میں استحصال کے خلاف اکٹھے ہونے والے غریب مزدوروں کے لیڈر کچھ عرصے بعد خود استحصال کرنے والے بن جاتے ہیں۔ کچھ صحافیوں کی باڈی لینگوئج سے پتا چلتا ہے کہ جن غیرجمہوری طاقتوں کے خلاف وہ آواز بلند کررہے ہیں اُن غیرجمہوری طاقتوں کے مزاج اور اِن صحافیوں کے مزاج میں کوئی فرق نہیں رہا۔ یعنی اِن دونوں طاقتوں کے درمیان لڑائی محض اناپرستی کی ہے۔ ٹاک شوز میں اکثر یکسانیت آچکی ہے مگر کئی اینکر پرسنز کے ٹی وی سکرین پر حاضر رہنے کے ریکارڈ پر ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں عام آدمی الیکٹرانک میڈیا کے ایسے پروگراموں سے بور ہوکر کیا سوچ رہا ہے؟ اُسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ’’ایک ٹی وی صحافی ایک کسان کا انٹرویو لے رہا تھا۔ صحافی: آپ بکرے کو کیا کھلاتے ہیں؟ کسان: سیاہ یا سفید کو؟ صحافی: سفید کو۔ کسان: گھاس۔ صحافی: اور سیاہ کو؟ کسان: اسے بھی گھاس۔ صحافی: آپ ان بکروں کو باندھتے کہاں ہیں؟ کسان: سیاہ یا سفید کو؟ صحافی: سفید کو۔ کسان: باہر کے کمرے میں۔ صحافی: اور سیاہ کو؟ کسان: اسے بھی باہر کے کمرے میں۔ صحافی: انہیں نہلاتے کس طرح ہیں؟ کسان: کسے سیاہ یا سفید کو؟ صحافی: سیاہ کو۔ کسان: جی پانی سے۔ صحافی: اور سفید کو؟ کسان: جی اسے بھی پانی سے۔ صحافی کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ صحافی بولا: جب دونوں کے ساتھ سب کچھ ایک جیسا کرتے ہوتو مجھے باربار کیوں پوچھتے ہوکہ سیاہ یا سفید؟ کسان: کیونکہ سیاہ بکرا میرا ہے۔ صحافی: اور سفید بکرا؟ کسان: وہ بھی میرا ہے۔ صحافی بے ہوش ہوگیا۔ ہوش آنے پہ کسان بولا ’’اب پتا چلا جب تم ایک ہی نیوز کو سارا دن گھما پھرا کے دکھاتے ہوتو ہم بھی ایسے ہی دکھی ہوتے ہیں‘‘۔
