کرکٹ پر آخری کالم!

لیں جی! کرکٹ کی چکاچوند روشنیوں اور گلیمر کی بھینٹ پاکستان بھی چڑھ گیا اور یہ کھیل بھی بالآخر پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کی ڈگر پر چلنے لگا ہے۔ یعنی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ جو اس وقت امریکا اور ویسٹ انڈیز میں جاری ہے، کے پہلے مرحلے میں ہی پاکستان ابتدائی دو میچ (امریکا اور بھارت کے خلاف) ہار کرورلڈ کپ سے تقریباََباہر ہو چکا ہے۔اگر کہیں پاکستان کے ٹورنامنٹ کے اندر رہنے کے چانسزہیں تو وہ محض 5فیصد ہیں،،، وہ بھی اگر مگر کی کیفیت میں ہیں۔ کہ اگلے میچ میں انڈیا کو شکست ہو، پاکستان سارے میچ جیت جائے، اور امریکا اپنے اگلے تمام میچ ہار جائے تو پھر بھی ہم بہتر رن ریٹ کی بدولت اگلے مرحلے میں جا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ اور کرکٹ شائقین کی معلومات کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اگر پاکستان پہلے مرحلے میں باہر ہوگیا تو پھر اگلا ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے پاکستان کو کوالیفائر راﺅنڈ سے گزرنا ہوگا۔ جو میرے خیال میں ہم سب کے لیے کسی سبکی سے کم نہیں ہے۔ اس لیے یقین مانیں کرکٹ سے بھی اب دل بیزار ہونے لگا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے اس کھیل میں بھی بیرونی مداخلت شروع ہو چکی ہے اور عہدوں پر ایسے سفارشی لوگوں کا جم غفیر آچکا ہے کہ اب ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
اس لیے نا ہی ان کے حوالے سے لکھنے کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی ان پر کوئی اثر ہے، انہوں نے جذبات سے کھیلنا ہے تو مطلب! کھیلنا ہے، یہ اس لیے بھی ہے کہ انہیں پاکستان کی عزت کی بجائے، پیسے گلیمر اور جوا لگانا زیادہ عزیز ہوگیا ہے۔ میرے خیال میں ابھی بھی وقت ہے کہ ہمارے فیصلہ کرنے والے اس طرف غور کریں کہ پی سی بی کے پاس جو پیسہ ہے، وہ ملک میں کسی اور کھیل کے فروغ کے لیے خرچ کریں، تاکہ پاکستانیوں کی Intention تبدیل ہو۔ اور مکمل طور پر کرکٹ پر ہی اکتفا نہ کریں۔ یہ پی سی بی کے پاس پیسے ہی کی بدولت ہے کہ غیر ملکی دوروں پر اُتنے کرکٹرز نہیں جاتے، جتنے یہ لوگ آفیشلز لے کر جاتے ہیں،،، ابھی بھی ورلڈ کپ کے دوران پورا پی سی بی خالی پڑا ہے اور تمام عہدیداران اس وقت امریکا میں ”ہنی مون“ انجوائے کر رہے ہیں۔
جبکہ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ بجائے پی سی بی کے چیئرمین یکے بعد دیگرے ورلڈ کپ جیسے اہم ایونٹ میں دو شکستوں کے بعد استعفیٰ دے دیتے، انہوں نے یہ فرما کر جان چھڑوا لی کہ پی سی بی میں چھوٹے نہیں بلکہ بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ آپ اسے ڈھٹائی کہہ لیں یا کچھ اور لیکن یہ بات تو پوری دنیا نے نوٹس کی ہے کہ نہ تو ہماری سلیکشن کمیٹی نے استعفیٰ دیا، نہ کپتان نے اور نہ ہی کسی دوسرے عہدیدار نے۔ بلکہ سبھی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ اگر ہم گزشتہ دونوں میچز کی بات کریں تو دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی، امریکا کے ساتھ میچ میں ہم نے سپر اوور میں شکست کھائی، اُس سے پہلے حارث رﺅف آخری اوور میں 15رنز کا دفاع نہ کر سکے۔ جبکہ دوسرے میچ جو بھارت کے خلاف تھا کے بارے میں بات کریں تو یہ میچ نیو یارک کی ایک ایسی پچ پر کھیلا گیا میچ تھا جہاں بلے بازوں کے لیے سکور کرنا بہت مشکل تھا۔ ایسے میں پاکستانی بیٹرز شاید صحیح موقع پر جارحانہ انداز اپنانے میں ناکام رہے اور یوں صرف چھ رنز سے شکست کھا بیٹھے۔ اس میچ میں پاکستان کے لیے جتنی اچھی باتیں ہو سکتی تھیں سب ہوئیں، میچ سے پہلے بارش ہوئی، پاکستان نے ٹاس جیتا، انڈیا کو مقررہ 20 اوورز میں 119 رنز پر آل آو¿ٹ کر دیا، بابر اور رضوان کے کیچز بھی چھوٹے اور چھوٹے سے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 13 اوورز میں پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر 71 رنز بھی بنا لیے لیکن پھر بھی گرین شرٹس یہ میچ نہیں جیت سکے۔
ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے جب ایک روزہ میچ میں پاکستان کا دبدبہ تھا اور شارجہ کا گراو¿نڈ پاکستانی کرکٹ کی جنت سمجھا جاتا تھا۔ 22 مارچ 1985 کو راتھ مینس کپ کے پہلے میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر بولنگ کی اور انڈیا کی مضبوط بیٹنگ آرڈر کو 125 رنز پر آل آوٹ کر دیا۔ محمد اظہرالدین نے 47 رنز اور کپتان کپل دیو نے 30 رنز بنائے جبکہ آٹھ کھلاڑی دوہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچ سکے۔ عمران خان نے اپنے کریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 14 رنز کے عوض چھ وکٹیں لیں، تاہم پاکستان یہ میچ 38 رنز سے ہار گیا۔خیر حالیہ میچ کی بات کریں تو دوست احباب پوچھ رہے ہیں کہ آخر ایسا کیونکر ہو سکتا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ کوئی جیتا ہوا میچ کیسے ہار سکتا ہے۔ میچ پریڈکشن میں انڈیا کی جیت کے امکانات صرف آٹھ فیصد دکھائے جا رہے تھے اور آپ کو 49 گیندوں پر 49 رنز بنانے تھے، آپ کے پاس آٹھ وکٹیں تھیں اور آپ نہ بنا سکے۔اس کے بعد ابھی جو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے بیان دیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے۔ جب نسیم شاہ جیسا بچہ (میں تو اسے بچہ ہی کہتا ہوں) دو چوکے لگا سکتا ہے تو افتخار احمد اور عماد وسیم جیسے تجربہ کار آل راو¿نڈر کیسے رنز نہیں بنا سکتے۔ ویسے تو پی ایس ایل میں یہ سب لمبے لمبے چھکے لگاتے ہیں لیکن ایسا لگتا یہاں انھیں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
بہر حال پاکستان یہ میچ چھ رنز سے ہار گیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے لوگ طرح طرح کے میمز شیئر کر رہے ہیں۔ اس شکست کی سب اپنی اپنی توجیہ پیش کر رہے ہیں۔ کوئی خراب بیٹنگ آرڈر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تو کوئی مڈل آرڈر میں تجربے کی کمی کی بات کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔آپ یقین مانیں ایک وقت تھا جب اس میچ میں پاکستان کی جیت 92فیصد اور انڈیا کی جیت کے 8فیصد امکانات تھے، اور بعض ویب سائیٹس کے مطابق تو یہ تناسب 97اور 3فیصد تھا، لیکن ہم جیتے ہوئے میچ کو ہار میں بدلنے کے عادی اور ایکسپرٹ ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس پر تحقیقاتی بورڈ بیٹھنا چاہیے کہ یہ کیوں ہارے ہیں، یہ سب غیر متوقع طور پر آﺅٹ کیوں ہوئے ہیں؟ اور ان شکستوں کے بعد بورڈ اتنا بے فکر کیوں ہے؟
بہرحال پوری قوم جس دن سے سری لنکن کرکٹرز پر حملہ ہوا ہے، اُس کے بعد سے پاکستانی شائقین ایک ٹانگ پر کھڑے ہیں،، اور اپنے کرکٹ بورڈ کو دیکھ رہے ہیں،،، مگر اُس کے بعدکرکٹ ہماری زندگی کے لیے عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ پوری قوم کو جوے پر لگا دیا گیا ہے، نت نئے برانڈز کے ذریعے جوے کو اتنا پروموٹ کردیا گیا ہے، کہ اب صرف وہی میچ پر خوش ہو رہے ہوتے ہیں جو جوا کھیلتے ہیں، اور رہی بات کرکٹ بورڈ کی تو وہاں پر عہدوں کی بندر بانٹ جاری ہے، چیئرمین کرکٹ بورڈ کا عہدہ تو ویسے ہی سیاستدانوں کی آنکھوں میں چبھتا رہتا ہے، ہر سیاسی جماعت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُس کا بندہ چیئرمین شپ حاصل کرے اور مراعات و کرپشن کا بازار گرم کرے۔
میرے خیال میں یہ سازش ہے، ورنہ ہم کم از کم کرکٹ کے حوالے سے تو اتنے بے بس کبھی نہیں تھے، اگر یہ میچ بک تھا تو میرے خیال میں کرکٹ پر ہی پابندی لگا دینی چاہیے۔ اور اگر نہیں تو پھر اس یکے بعد دیگر شکست کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور بورڈ کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے جو ٹیم کے اندر گروپ بندی کو ختم نہیں کروا سکی۔ بلکہ بادی النظر میں کرکٹ بورڈ ہی نہیں چاہتا کہ ٹیم کے دوران گروہی سیاست ختم ہو، پہلے بابر اعظم کپتان تھا، اُس کو ہٹا کر شاہین آفریدی کو کپتان بنا دیا، پھر شاہین کو ہٹا کر دوبارہ بابر اعظم کو کپتان بنادیا ، جس کے بعد شاہین نے ایسے ایسے بیانات دیے جس سے ٹیم کے اندر گروپ بندی واضع ہونے لگی۔ میرے خیال میں انتظامیہ خود ٹیم کو لڑواتی رہتی ہے، تاکہ اُن کا اُلو سیدھا رہے۔ اس لیے میں آج کے بعد یہ توہین سمجھوں گا کہ کم از کم اس ٹیم پر کوئی کالم لکھوں ۔ یہ سب سفارشی ٹولے ہیں، جنہیں نہ تو عوام سے کوئی لگاﺅ ہے، نہ کسی کے جذبات سے اور نہ ہی اپنے وطن سے کوئی لگاﺅ ہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ پی ایس ایل نے پاکستان کرکٹ کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے، جس پر فوری پابندی لگنی چاہیے، کیوں کہ اس نام نہاد برانڈ نے اصل کرکٹ کو ختم کر دیا ہے۔ اب تو کرکٹ جیتنے یا ہارنے کے بعد ایک ہی قسم کی آوازیں آتی ہیں کہ جواریے جیت گئے، یا جواریے ہار گئے۔ اس کے علاوہ تو کوئی بات سننے کو نہیں ملتی۔ آخر میں صرف یہی بات کہوں گا کہ خدارا! کھیلوں کو سیاست سے دور رکھیں، ان عہدوں پر سربراہی کا ایسا میکنزم بنایا جائے کہ ان کے سربراہان ایسے لوگ لگائے جائیں جو باقائدہ منتخب ہو کر آئیں۔ سلیکشن کے ذریعے کسی چیئرمین کا منتخب ہونا ادارے کے لیے نہیں بلکہ اپنے آقاﺅں کے لیے کام کرتا ہے جو ملک کو لے ڈوبتے ہیں! اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو!
\

اپنا تبصرہ لکھیں