آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔اگرچہ اب ایسا کچھ رہ نہیں گیا جو اس ملک میں نہ ہوا ہو۔ ویسے تو اب تک ہمیں ڈھیٹ ہو جانا چاہیے اور کسی خبر پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ اب ہمیں ہر منفی خبر یا ایشو کو بس نظر انداز کر کے گزر جانا چاہیے۔ اور یقین کریں ہو بھی یہی رہا ہے۔
یہی دیکھ لیں کہ ہمارے وزیرخارجہ اسحاق ڈار کی تقریر نے کمال کر دیا جب انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ کے حوالے سے ایسا بیان داغ دیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑے عرصے بعد ایک سفارتی بحران پیدا ہوگیا۔ موصوف نے ایک سیمینار میں فرمایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ ٔچین کے دوران صدر شی نے کہا تھا کہ ویسے تو ہم اُن ملکوں میں کام نہیں کرتے جہاں ہمارے چینی ماہرین کی جان محفوظ نہ ہو لیکن پاکستان کو ہم اس کیٹیگری میں نہیں رکھتے کیونکہ اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بہت ذاتی ہے۔ مطلب یہ کہ چینی ماہرین یا چینی شہری پاکستان میں قتل ہوتے رہیں چین کو اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ اس پر وہاں سیمینار میں موجود چینی سفیر نے فورا ًاسحاق ڈار کی تصحیح کی کہ صدر شی جن پنگ نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی اور وہ چینی شہریوں کی جان اور حفاظت کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ قصور اسحاق ڈار صاحب کا بھی نہیں کہ جس ملک میں ستر‘ اسی ہزار بندہ دہشت گردی میں مارا گیا ہو اور اب بھی روزانہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں لاشیں گر رہی ہوں تو پھر ہمارے لیے تو یہ سب نیو نارمل ہوجاتا ہے۔ پھر آپ کے لیے کسی کا مرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب ہمیں اپنے لوگوں کے قتل ہونے کا افسوس نہیں تو چینیوں کا کہاں ہوگا؟ پھر ہم نے چینیوں کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کررکھا ہے کہ ہر مرنے والے چینی کے خاندان کو لاکھوں ڈالر معاوضہ دیا جائے گا۔ یوں ڈالر ادا کر کے ہم خود کو اپنے فرض سے سبکدوش سمجھتے ہیں۔ دو تین بیانات ‘ چند دن کی خاموشی اور پھر دہشت گردی۔
ویسے اس ملک کے مفادات کے ساتھ کس کو دلچسپی ہے؟ وزیراعظم عمران خان کو‘ جنرل باجوہ یا جنرل فیض کو ؟ جنہوں نے افغانستان سے پینتیس ہزار طالبان ‘جو فوج کے ساتھ جنگوں میں ملوث تھے‘ اور ان کے خاندانوں کو لا کر سوات میں بسایا اور سوات کے لوگ رولا ڈالتے رہ گئے کہ انہیں واپس مت لائیں۔ وہی عمران خان اب سوات کے لوگوں کے ہیرو ہیں جو اِن طالبان کو واپس لانے کا دفاع کر رہے تھے اور جواز پیش کرتے تھے۔ تو پھر اسحاق ڈار کیوں مفادات کا خیال کریں اور جو منہ میں آئے کیوں نہ کہہ دیں؟
کیا شہباز شریف حکومت نے پی آئی اے کو بیچتے وقت مفادات کا خیال رکھا؟ جب اسکی نجکاری کا اختیار اپنے لاڈلے بیوروکریٹس خصوصا ًفواد حسن فواد کو دیا گیا کہ اسے بیچو کیونکہ آپ بہت قابل ہو۔ نجکاری کے افسران نے قائمہ کمیٹی کو کہا تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کار مناسب نہیں کیونکہ وہ منافع ڈالروں میں لے جاتے ہیں اور ڈالر ہمارے پاس کم ہیں۔ یہ سوچ کسی عام بندے کی نہیں گریڈ بائیس کے ایک افسر کی ہے جو قائمہ کمیٹی کو یہ جواز دے رہا تھا کہ پی آئی اے کو بیرونی سرمایہ کاروں کو بیچنا غلط بات ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ کس نے پی آئی اے کو بیرونی سرمایہ کار کے ہاتھ بیچنا تھا؟ وہ بائیسویں گریڈ کا افسر یہ نہیں جانتا تھا کہ فارن سرمایہ کار پہلے آپ کو ڈالروں میں ادائیگی کرتا پھر پی آئی اے کے شیئرز خریدتا۔ وہ ڈالرز جو آپ آئی ایم ایف‘ سعودی عرب‘ چین‘ متحدہ عرب امارت سے کمرشل سود پر ادھار لے آتے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک فارن انویسٹمنٹ کے لیے منت ترلے کرتا ہے اور یہاں نجکاری وزارت کے افسران قائمہ کمیٹی کے ممبران کو قائل کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ بیرونی سرمایہ کار کتنا خطرناک ہوتا ہے کہ وہ ہم سے منافع ڈالروں میں لے گا۔ اس افسر نے کمیٹی کو یہ نہیں بتایاکہ وہ ادائیگی بھی ڈالروں میں کرے گا جس کا وہ سود بھی نہیں لے گا اور مزید ڈالر لا کر کاروبار کو بھی پھیلائے گا اور جہاں حکومت کو ٹیکس ملے گا وہیں وہ نئے روزگار بھی پیدا کرے گا۔
اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ نجکاری کمیشن کے افسران سال سوا سال کی ”محنت ‘‘ کے بعد ایک خریدار ڈھونڈ لائے ہیں جو مقامی پراپرٹی ڈیلر ہے یا کہہ لیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک ہے۔مزے کی بات ہے کہ اس پراپرٹی ڈیلر نے پی آئی اے کی بولی دس ارب روپے لگائی ہے اور نجکاری کمیشن نے جو کنسلٹنٹ ہائر کیا تھا کہ پی آئی آے کی بولی کے کاغذات تیار کرے اور اسے اچھی قیمت پر بیچے اور ٹیکنکل مدد فراہم کرے ‘ اسے سوا دوارب روپے فیس دی گئی تھی۔اسلام آباد میں مذاق چل رہا ہے کہ اس پراپرٹی ڈیلر نے نجکاری کمیشن کو یہ بھی کہا تھا کہ کیا وہ دس ارب روپے کے بدلے اتنی مالیت کے پلاٹ لے کر قیمت ایڈجسٹ کر لیں گے؟ یوں پی آئی اے کو پلاٹوں میں ایڈجسٹ کیا جارہا تھا۔
اس ایڈجسٹمنٹ سے یاد آیا کہ مشرف نے نیا نیا مارشل لاء لگایا ہوا تھا۔ اُس وقت امریکی صدر بل کلنٹن چند گھنٹوں کے لیے پاکستان رُکے تھے۔ جنرل مشرف سے کسی نے کہا کہ 1980ء کی دہائی میں پاکستان نے امریکہ کو چھ سو ملین ڈالرز کی ادائیگی کی تھی تاکہ ایف سولہ طیارے خرید سکے لیکن پاکستان پر نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے پابندیاں لگ گئیں یوں ایف سولہ طیاروں کی فراہمی روک دی گئی حالانکہ پاکستان ان کی قیمت ادا کر چکا تھا۔ یہ مسئلہ بڑے عرصے تک چلتا رہا بلکہ جو طیارے اس وقت اس کمپنی کے پاس پارک کھڑے تھے ان کا کرایہ بھی چارج ہورہا تھا۔ خیر 1998ء میں نواز شریف جب امریکہ گئے تو بل کلنٹن سے مسئلہ بیان کیا تو طے ہوا کہ امریکہ پاکستان کو تین سو ملین ڈالرز واپس کرے گا اور باقی کا سویا بین/ تیل وغیرہ فراہم کرے گا۔ اس دوران نواز شریف کے خلاف بغاوت ہوگئی تو مشرف ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ بل کلنٹن کو وعدہ یاد تھا۔ اب وزیرخزانہ شوکت عزیز کے پاس معاملہ تھا۔ شوکت عزیز نے ان ایف سولہ طیاروں کی ادا کی گئی قیمت کے بدلے ایک دلچسپ معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے جو چند برس پہلے PL480 کے تحت پاکستان کو تین لاکھ ٹن مفت گندم دی تھی‘ وہ بھی بل میں شامل کر دی گئی۔اس گندم کا ریٹ بھی امریکہ نے اپنی مرضی کا لگایا۔ پھراس گندم کو جس جہاز پر پاکستان بھیجا گیا اس کا کرایہ جو اُس پروگرام کے تحت امریکہ نے دینا تھا وہ بھی ان طیاروں کے بل سے کاٹ کر تین گنا لگایا گیا اور یوں سارے پیسے پورے کر لیے گئے۔ یہ حیران کن ڈیل شوکت عزیز نے چپکے سے سائن کر لی۔یہ سکینڈل میں نے ڈان اخبار میں بریک کیا تھا ( مجھے اس سٹوری پر اے پی این ایس کا بیسٹ سکوپ ایوارڈ ملا تھا)۔ جنرل مشرف کو میری اس خبر سے پتہ چلا کہ ان کے وزیرخزانہ نے ایف سولہ طیاروں کی رقم چند برس پہلے مفت دی گئی گندم میں ایڈجسٹ کرا لی ہے۔مزے کی بات ہے کہ وہ گندم پاکستان نے آگے افغانستان کو عطیہ کر دی۔اسی جنرل مشرف نے بعد میں اسی شوکت عزیز کو ترقی دے کر وزیراعظم بنا دیا۔
یوں اگر ایف سولہ طیاروں کے بدلے گندم ایڈجسٹ کرائی جاسکتی ہے تو پی آئی اے جہازوں کی قیمت میں پراپرٹی ڈیلر اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی کے دس ارب روپے کے پلاٹ ایڈجسٹ کیوں نہیں کراسکتا؟شوکت عزیز کا کسی نے کیا بگاڑ لیا تھا کہ اب موجودہ حکومت کا کچھ بگاڑ سکیں گے اگر پی آئی اے طیاروں کے بدلے پلاٹ ایڈجسٹ ہو جائیں جن پر کل کو پی آئی اے افسران/ملازمین ہاؤسنگ سوسائٹی بھی بنا لیں۔ کچھ پلاٹوں کا کوٹہ نجکاری کے قابل اور ذہین اعلیٰ افسران کو بھی دیا جاسکتا ہے جو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں دور کی کوڑی لائے تھے کہ غیرملکی سرمایہ کار اگر پی آئی اے خریدنے آیا تو وہ اپنا منافع ڈالروں میں لے گا۔