سلمان صدیق صاحب کا تعلق لاہور سے ہے۔برسوں پہلے امریکہ چلے گئے تھے لیکن اپنی دھرتی اور ملک سے رشتہ جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ان سے کچھ برس پہلے اسلام آباد میں ہی لاہور کے ایک اور صحافی دوست احمدولید کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ احمد ولید سے میرا بڑا پرانا تعلق ہے۔اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مجھے اخبار سے ٹی وی میں لانے والے احمد ولید ہی تھے۔ مزے کی بات ہے کہ میں کبھی ٹی وی جرنلزم میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ مجھے پرنٹ جرنلزم ہی پسند تھا لیکن حالات ایسے بنتے گئے کہ آخر ٹی وی میں آنا پڑا اور اس کے لیے مجھے احمد ولید کی وجہ سے ہی آگے بڑھنے میں مدد ملی‘ جس کیلئے میں تیرہ برس بعد بھی اُن کا شکر گزار ہوں۔ ہم دونوں نے کچھ برس اکٹھے ‘ دی نیوز‘ میں کام کیا تھا۔احمد ولید ایک سلجھے ہوئے اور ٹھنڈی شخصیت کے مالک ‘ اچھے پروفیشنل اوراچھے انسان ہیں۔
خیربات ہورہی تھی سلمان صدیق صاحب کی جن سے اب برسوں بعد دوبارہ اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ وہ اس دفعہ امریکہ سے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ بتا رہے تھے کہ ان کی بیٹیاں بھی سترہ برس بعد پاکستان آئی ہیں۔ وہ بہت چھوٹی تھیں جب وہ پاکستان سے امریکہ شفٹ ہوئے تھے۔ وہ انہیں پاکستان لائے ہیں تاکہ انہیں اپنا ملک دکھا سکیں۔ پاکستان سے باہر رہنے والے اکثر والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے ملک اور کلچر کے ساتھ جوڑ کر رکھیں۔ وہ انہیں پاکستان لے کر آئیں گے تاکہ وہ رشتہ داروں ‘ دوستوں اور دیگر احباب سے مل سکیں۔ خیر اس کے ماضی میں کچھ نقصانات بھی ہوئے جب حسد کے مارے کچھ پاکستانی رشتہ داروں نے باہر سے آئے ہوئے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ کچھ والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں کریں۔
مجھے یاد آیا 2010 ء میں ارشد شریف اور میں ناروے حکومت کی دعوت پر دس دن کیلئے گئے تھے۔ وہاں ایک بریفنگ میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ شاید پاکستانی تارکین وطن واحد ہیں جو رہتے ناروے میں ہیں لیکن اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں اپنی برادری میں کر تے ہیں‘ جس سے بہت مسائل بھی پیدا ہوئے ۔ یاد آرہا ہے کہ ہمارے ایک جاننے والے نوجوان کی ناروے میں اپنی کزن سے شادی ہوئی۔ وہ شادی کے بعد ناورے گیا تو اُسے شک ہوا کہ اس لڑکی کے مرد دوست بھی ہیں۔ اس نے ایک دن اُسے کچن میں ہی چھری کے وار کر کے قتل کر دیا اور خود جیل جا بیٹھا۔ وجہ وہی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی فرق اتنا زیادہ تھا جسے پاکستان سے گیا ہوا ایک نوجوان نہ سمجھ سکااور اپنی کزن اور بیوی کی جان لے لی۔خیر اپنے وطن کی خوشبو ہمیشہ انسان کو واپس لاتی ہے۔ اگرچہ جو بندہ ملک چھوڑ کر جاتا ہے وہ شروع کے برسوں میں شاید اپنے ملک کو زیادہ یاد نہیں کرتا یا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ایک تو تلخ یادیں اور دوسرے وہ بیرون ِملک جدوجہد کے مراحل میں ہوتا ہے لہٰذا اس کے پاس اپنے ملک‘ دوستوں یا رشتہ داروں کے بارے سوچنے کا وقت نہیں ہوتا۔لیکن جب وہ خود کفیل ہو جاتا ہے تو پھراسے اپنا وطن‘ رشتہ دار‘ محلے دار اور یار دوست سب یاد آنے لگتے ہیں۔
تارکینِ وطن والدین پرایک اور دبائو ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے ملک لے جائیں۔ وہ وہاں ان ملکوں میں بھی بچوں کو اپنی زبان ‘ ثقافت اور مذہب کے قریب رکھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ لطیفہ بھی مشہور ہے کہ پاکستان میں اپنے بچوں کیلئے امریکی سکول میں داخلے کا خواب دیکھیں گے اور جو اس کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں وہ اس کی کوشش بھی کریں گے لیکن امریکہ جا کر آباد ہونے کے بعد ان کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کوئی پاکستانی یا اسلامی سکول تلاش کریں جہاں ان کے بچے پاکستانی اور اسلامی روایات کے ساتھ تعلیم حاصل کریں اوراپنی شناخت نہ بھول جائیں۔ یوں اکثر بچے دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں اور شناخت کے بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ بچے شروع یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وہ امریکی ‘یورپی یا برطانوی ہیں یا پاکستانی اور مسلم اُمہ کا حصہ ہیں۔ یوں وہ اس گھریلو ماحول کی وجہ سے خود کو ان معاشروں سے ہم آہنگ نہیں کرپاتے جس سے ایک نئی کشمکش جنم لیتی ہے۔ اس کشمکش کی وجہ سے اکثر پاکستانی باہر کی مقامی آبادیوں کے ساتھ مربوط نہیں ہوپاتے اور اس پر وہ میزبان ممالک بھی شکایت کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں لوگ دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہوتے ہیں‘ ان سب کو مقامی معاشروں یا ثقافت سے جڑنے میں مسئلہ نہیں ہوتا جتنا مسئلہ پاکستانیوں اور مسلمانوں کو ہوتا ہے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یورپ ہو یا امریکہ‘ وہاں سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ روایتی طور پر یہ معاشرے تارکینِ وطن کو خوش آمدید کہتے رہے ہیں اور انہیں کوئی مسئلہ نہیں رہا کہ باہر سے لوگ ان کے ملکوں میں مستقل آباد ہو رہے ہیں۔ مسئلہ ہم پاکستانیوں اور مسلمانوں کو ہی ہوتا ہے جب ہم ان کو اپنی مرضی اور اپنے مذہب اور ثقافتی روایات پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پر وہ معاشرے ردِعمل دیتے ہیں کہ آپ ہمیں نہ بدلیں۔ آپ اپنی زندگی میں خوش رہیں اور ہمیں اپنی میں رہنے دیں۔ لیکن پاکستانی تارکینِ وطن کو اپنے بچے بڑے ہوتے دیکھ کر وہ معاشرے بُرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں اور احساس ہوتا ہے کہ یہ معاشرے انکی نسلوں کیلئے کتنے خطرناک ہیں۔ اب ان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں یا وہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کریں‘ بچوں کو نئے ملک کا شہری بن کر رہنے دیں یا پھر پاکستان واپس آجائیں۔ اب وہ دونوں کام نہیں کرسکتے اور الٹا کوشش کرتے ہیں کہ اب ان معاشروں کو اپنی ڈگر پر لا کر اپنے بچوں کو بچا لیں۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جو یورپ‘ برطانیہ اور امریکہ میں باہر سے آنے والوں کے خلاف ہورہا ہے۔ مظاہرے‘ ہنگامے اور لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سب پاکستانی یا مسلم گھرانے ایسے ہی سوچتے ہیں‘ لیکن اکثریت اسی ذہنیت کی حامل ہے۔
میں جن دو لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے بیٹیاں ہونے کے باوجود اپنے اوپر یہ دبائو نہیں آنے دیا ان میں ایک میرا لندن کا دوست شعیب بٹھل اور دوسرے امریکہ سے سلمان صدیق ہیں۔شعیب بھی اپنے بچوں کو پاکستان لاتا رہتا ہے لیکن اسے کبھی دبائو کا شکار نہیں پایا کہ اس برطانوی معاشرے میں بچوں کا کیا بنے گا۔ بلکہ وہ شکر گزار رہتا ہے کہ اس کے بچوں کو برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم اور ترقی کے مواقع ملے۔ اس کی ایک بیٹی کو ابھی آکسفورڈ میں فل سکالرشپ پر داخلہ ملا ہے۔ یہی سوچ میں نے سلمان صدیق میں بھی پائی۔ وہ بھی اس دبائو کا ہرگز شکار نہیں۔ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بچوں کی پاکستان سے محبت زندہ رہنی چاہیے۔ ان سے امریکہ پاکستان بارے بڑی لمبی گفتگو رہی۔ تاہم ان کی ایک بدقسمتی ہوئی کہ وہ ان دنوں بچوں کے ساتھ اسلام آباد آئے ہوئے تھے جب چار اکتوبر کو شہر پر پی ٹی آئی نے چڑھائی کی ہوئی تھی۔ وہ جس چاہ اور شوق سے بیٹیوں کو پاکستان دکھانے لائے تھے وہ تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا۔ ہر طرف پولیس ‘ کنٹینر اور آنسو گیس۔ وہ بچوں کے ساتھ کمروں میں ہی قید رہے۔وہ لاہور بھی بارہ گھنٹوں میں پہنچے۔ ہر جگہ سڑکیں بند۔ اب آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک باپ جو اتنی محبت اور چاہت سے اپنی بیٹیوں کو پاکستان دکھانے لایا تھا‘ اس کی مایوسی کا کیا عالم ہوگا۔ وہ جو سب کہانیاں ان سترہ برسوں میں بیٹیوں کو پاکستان کے بارے سناتا رہا ہوگا وہ ان چار دنوں میں بھاپ کی طرح اُڑ گئیں۔ سلمان صدیق نے لاہور پہنچ کر مجھ سے جس مایوسی اور بددلی کا اظہار کیا وہ یہاں بیان کرنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا۔