اگر کوئی یہ کہے کہ ملک کے حالات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو رہے ہیں، تو آپ بلا جھجک اُس کی ہاں میں ہاں ملا دیں۔ کیوں کہ عوام، سیاسی جماعتیں، حکمران ، مقتدرہ، عدلیہ، مقننہ اور پارلیمنٹ ایک پیج پر قطعاََ نہیں ہیں۔ اگر یہ ایک پیج پر ہوں تو ملک ترقی کرتا ہے، لیکن اگر یہ بھات بھات کی بولیاں بول رہے ہوں تو سمجھ جائیں کہ ملک اس وقت شدید خطرات میں ہیں اور فیصلہ کرنے والی قوتیں اپنے تئیں مفاد پرست لوگوں کا جھرمٹ اکٹھا کر رہی ہے، اور اسی کو طول دینے کے لیے قانون سازی بھی کر رہی ہوتی ہے، لابنگ بھی اور زور زبردستی بھی۔ لیکن حکمران سب اچھا ہے کی خبریں دے رہے ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ عوامی رائے اُن کے ساتھ رہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہٹلر کے آخری دس سالوں میں جب جنگ عظیم اول اور دوم چھڑی تو ہٹلر نے یہودیوں کی زبردست نسل کشی کی۔ لیکن اُس وقت کا میڈیا(اخبارات) بھی سب اچھا ہے کی خبریں دے رہے تھے، اور کہہ رہے تھے کہ ہٹلر جرمن قوم کی بقاءکی جنگ لڑ رہا ہے۔ اور آنے والے دنوں میں جرمن کو دنیا کی بہترین قوم بنانا چاہتا ہے۔ آج بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں کہ مہنگائی اور معیشت کا لالی پاپ دے کر سب اچھا کی خبریں پھیلا کر خطرناک قسم کی قانون سازی کی جارہی ہے۔ ویسے تو قانون سازی میں تبدیلی کو ئی جرم نہیں ہے،،، کیوں کہ ابھی تک ہمارے 1973ءکے قوانین میں 25تبدیلیاں ہو چکی ہیں اور اس میں اگر 26ویں تبدیلی بھی ہو جاتی تو کونسی قیامت آجانی تھی۔ لیکن اس تبدیلی کے درمیان میں بھلا ہو مولانا فضل الرحمن کا کہ وہ آگئے۔ اور فی الوقت یہ آئینی ترمیم جس کا مسودہ ہر ایک سے چھپایا گیا اُسے وقتی طور پر موخر کر دیا گیا۔
آگے چلنے سے پہلے ان مبینہ ترامیم کے بارے میں بھی سن لیں کہ یہ کیا ہیں۔ کہ ہم کئی روز سے سن رہے تھے کہ حکومت عدالتی اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی جس کے چیف جسٹس اور جج صدر لگائیں گے…. وفاقی عدالت کے ججوں کی تعداد ابھی مقرر نہیں لیکن تمام صوبوں سے برابر نمائندگی ہوگی…. وفاقی آئینی عدالت وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے متعلق معاملات سنے گی۔ یہ اس کا بنیادی دائرہ کار ہو گا۔ لیکن وہ بنیادی حقوق کے آرٹیکلز کے تحت آنے والے عوامی اہمیت کے مقدمے بھی سنے گی….وفاقی آئینی عدالت آرٹیکل 199 کے تحت آنے والے مقدمات ہائیکورٹ سے اپنے پاس یا کسی دوسری ہائیکورٹ کو منتقل کر سکے گی….آرٹیکل 190 کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی ادارے کو حکم دینے کا جو اختیار تھا وہ وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہوجائے گا…. سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججوں کا طریقہ کار تبدیل۔ جج لگانے کیلئے کمیشن کو خاطر خواہ اختیارات دے دیئے گئے۔ وفاقی آئینی عدالت کے جج کا کافی کردار ہوگا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بظاہر عدالت عظمی تک محدود کیا جا رہا ہے۔ ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ کا کردار بھی بڑھا دیا گیا….وفاقی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کےللیے عمر 68 برس مقرر۔۔۔ لیکن اگر آئینی عدالت کا کوئی جج اس کا چیف جسٹس بنا دیا گیا تو عمر سے قطع نظر اس کے منصب کی معیاد تین برس ہوگی….سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد بھی تین برس مقرر۔ تاہم عمر 65 برس ہی رہے گی۔ ریٹائرمنٹ کی عمر ہوگئی تو منصب چھوڑنا ہوگا….پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے کا رکن پارلیمنٹ کا ووٹ شمار ہوگا۔ اس حوالے سے پہلے سے موجود عدالتی فیصلے اثرانداز نہیں ہوں گے….مسلح افواج سے متعلق موجودہ قوانین آئینی ترمیم کے بغیر تبدیل نہیں کیے جا سکیں گے۔
مختصراََ یہ کہ ایک الگ سے آئینی عدالت قائم کی جا رہی ہے، جس کا سربراہ بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے علاوہ ہوگا،،، اور پھر ایک مخصوص شخصیت کو فائدہ دینے کے لیے ججز کی ریٹائرمنٹ کو بھی بڑھایا جارہا ہے اور آرمی کی طرز پر تین سال کے چیف جسٹس تعینات کی جائے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ آئینی ترامیم ایسے وقت میں کی جارہی ہیں جب موجودہ چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ کے چند دن گزار رہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں نے لگتا ہے کہ اس پر پورا ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ کیوں کہ اس قانون سازی کے لیے اُنہیں قومی اسمبلی میں 224 سیٹیں درکار تھیں جبکہ ان کے پاس 214اراکین کی حمایت حاصل ہے، اسی طرح انہیں سینیٹ میں 64اراکین کی حمایت حاصل ہونی چاہیے مگر ان کے پاس 63اراکین کی حمایت ہے۔ اب قومی اسمبلی میں انہیں مزید 10ووٹ چاہیے، جبکہ سینیٹ میں مزید ایک ووٹ اور اگر مولانا کی بات کریں تو اُن کی قومی اسمبلی میں 8سیٹیں جبکہ سینیٹ میں 5سیٹیں ہیں۔ (اگر مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی اس آئینی ترمیم کی حمایت کر تی ہے تو پھر بھی حکومت کو تین سے چار ووٹ مزید درکار ہوں گے جن کے بارے میں حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے ارکان کچھ بھی بتانے سے گریزاں ہیں۔)فی الوقت اسی لیے مولانا اس وقت اپوزیشن اور حکومت دونوں کے لیے سر کا تاج بنے ہوئے ہیں۔ ویسے تو مجھ سمیت بہت سوں کو اُمید تھی کہ مولانا ماضی کی طرح حکمران اتحاد کی سائیڈ پر ہی کروٹ لیں گے مگر اس بار انہوں نے نہایت شاندار کردار ادا کیا۔ اور یہی سمجھا کہ عجلت میں ہونے والی قانون سازی ہمیشہ ملک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ تبھی انہوں نے کہا کہ پہلے وہ مسودے کا بھرپور جائزہ لیں گے تب ہی وہ حکومت کے اس فعل میں حصہ دار ہوں گے۔
بہرحال اس سارے عمل میں مجھے تو حکمران اتحاد انتہائی ناقص حکمت عملی والا لگا ، کیوں کہ سب کے علم میں تھا کہ مولانا اس وقت بہت مضبوط پوزیشن میں ہیں، تو مولانا کے خدشات کو پہلے سے دور کیوں نہ کیا گیا، اگر ایسا ہوتا تو شاید یہ کبھی بھی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا باعث نہ بنتے۔ اور ان کی اس حکمت عملی کے بعد بظاہر سب کو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ یہ ایک صاحب ہیں جن کو نوکری کی ضرورت ہے۔ ان کی نوکری کی مدت ختم ہورہی ہے وہ بظاہر تو کہہ رہے ہیں میں تو ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا۔لیکن یہ سارا کام انہی کے لیے کر رہے ہیں۔
بہرکیف قوم کا ہیرو بننے کا فضل الرحمن کے پاس موقع ہے،وہ اگر اصولی موقف پر قائم ہیں تو یہ سب کے لیے ایک سوچنے کی بات ہے کہ اگر حکمران مبینہ طور پر پانچ ججز کی سمری حکومت کو بھیج کر اگلا چیف جسٹس لگوانا چاہ رہی ہے تو سب کے علم میں ہے کہ پانچویں جج کا جھکاﺅ کس طرف ہے،،، اگر چھٹے جج کا جھکاﺅ ان کی طرف ہوتا تو انہوں نے ترامیم میں چھ ججز کے نام ہی وزیر اعظم کو لکھنے کا قانون پاس کروانا تھا۔ اور پھر آپ خود دیکھ لیں کہ آسٹریلیا، کینیڈا ،بھارت ،ملائشیا، نائیجیریا،برطانیہ ،امریکا اور تمام کامن ویلتھ ممالک میں علیحدہ آئینی عدالتیں نہیں ہیں، آسٹریا ، جرمنی ، اٹلی اور اسپین سمیت یورپی ممالک میں حتمی طور پر آئینی سوالات اعلیٰ ترین عدالت کے پاس ہوتے ہیں ، اسے یورپی نظام بھی کہا جاتا ہے ۔ اور جہاں آئینی عدالتیں موجود ہیں وہاں بھی ہمیشہ مسائل ہی رہتے ہیں کہ عدلیہ آپس میں اُلجھتی رہتی اور ایک دوسرے کے اقدامات کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔
لہٰذاسرکار ایسے کام کرے جو عوامی نوعیت کے ہوں، ایسی ترامیم کرے جس سے عوام کو فائدہ ہو۔ صرف اپنی حکومت کو طول دینے یا مخالف جماعتوں کو دبانے کے لیے ڈرامے بازی نہیں کرنی چاہیے، ایسا کرنے سے یہ مزید ایکسپوز ہوں گے اور رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ میرے خیال میں اگر موجودہ حکومت نے ایسے ہی اداروں کے سہاروں سے حکومت کرنا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ یہ مولانا فضل الرحمن کی پیروی کرلیں جن میں کم از کم اخلاقیات تو ہیں!کہ وہ ماضی کی سخت ترین جماعت تحریک انصاف کے ساتھ صرف اور صرف اصولوں کی وجہ سے کھڑی ہے!