آئینی ترامیم کی منظوری 8فروری سے بڑا جھٹکا ہوگا!

حکومت آئندہ چند روز میں پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم پیش کرنے جا رہی ہے، یہ ایک ماہ کے اندر 26ویں آئینی ترامیم کروانے کی دوسری بڑی کوشش ہوگی، کیوں کہ اس سے پہلے گزشتہ ماہ حکومت کو اس حوالے سے سخت مایوسی بھی ہوئی تھی اور سبکی بھی اُٹھانا پڑی تھی، خیر اس” متبرک“ کام کے لیے اور اراکین کی تعداد پوری کرنے کیلئے حکومت نے اپنے بیرون ملک دوروں پر موجود اراکین پارلیمنٹ کو 15 اکتوبر تک ہر صورت واپس آنے کی ہدایت کی ہے۔ان اراکین میں ڈاکٹر طارق فضل چودھری ،پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ ، رانا محمود الحسن، باپ پارٹی کے دنیشن کمار ، سینیٹر عبدالقادر سمیت 10سے 15اراکین بیرون ملک ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایم این اے ریاض فتیانہ اور سینیٹر فیصل سلیم بھی ملک سے باہر ہیں۔ اب حکومت نے 15اکتوبر کے آس پاس جب بین الاقوامی ایس سی او کانفرنس ہو رہی ہوگی، تبھی آئینی ترامیم کروانے کا منصوبہ بنایا ہے، کیوں کہ ان کا پلان ہے کہ اسی رولے میں وہ آئینی ترامیم بھی کروا لے۔ لیکن اس ساری تبدیلیوں اور حکمت عملیوں کے بعد ایک بات تو طے ہے کہ 25اکتوبر کے بعد کوئی ایک ستارہ اُبھرے گا اور کوئی ایک ڈوبے گا لیکن اس سے قبل کہانی خطرناک موڑ اختیار کر سکتی ہے۔بقول شاعر
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے
یہ بات تو ثابت بھی ہو چکی ہے کہ ان ترامیم کے بغیر یہ حکومت چلنا شاید مشکل بھی ہو جائے، کیوںکہ حکومت کو ڈر ہے کہ نئے آنے والے چیف جسٹس جن کی تقرری 25اکتوبر کو ہونی ہے، کہیں 8فروری کے الیکشن کا آڈٹ شروع نہ کردیں۔ اور ان خدشات کا اظہار کوئی اور نہیں بلکہ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی ماہ الیکشن 2024ءکے آڈٹ کا خدشہ ہے۔
خیر تبھی اس حوالے سے کہانی کے سب کردار ایک دوسرے کے سامنے بھی آ چکے ہیں۔ ہدایت کار، کہانی کار، ڈرامہ ساز اپنے اپنے کرداروں کو جان کی بازی لگانے کا کہہ چُکے ہیں۔ یوں سمجھےں اختیار کے اس کھیل میں کردار اہم اور اقتدار بے معنی ہو چکا ہے۔ بقا کی یہ لڑائی دلچسپ بھی ہے اور خطرناک بھی۔ سیاسی اور ریاستی زور آزمائی کے مقابلے میں کس کے بازو میں کتنا دم ہے یہ ہاتھوں کو بھی نہیں معلوم، پہلے آنکھ کون جھپکے گا پتلیاں بھی بے خبر۔جھگڑا آئینی ترمیم کا نہیں شخصیت پسندی اور وقت کا ہے، یعنی یہ وقت نہیں تھا ایسے کام کاجب موجودہ چیف جسٹس ریٹائرڈ ہو رہے ہوں۔ جب کہ تحریک انصاف اپنے جسٹس کی پشت پر ہیں۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں دونوں دھڑے شخصیات کے گرد ہیں۔لہٰذااس وقت صورتحال ہے کہ مقتدرہ کے لیے آئینی عدالت اور فوجی عدالتیں ضروری اور مجبوری بن چکی ہیں تو دوسری جانب ان عدالتوں کو روکنا ’کرو یا مرو‘ کی ضد۔ ایک طرف تحریک انصاف منہ پر ہاتھ پھیر کر ان ترامیم کو روکنے کے درپے تو دوسری جانب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اپنا پورا زور لگانے کو تیار۔کیوں کہ تحریک انصاف جانتی ہے، کہ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ میں موجود ان کی مٹھی میں بند طاقت ٹوٹ جائے گی، جب کہ متوقع تبدیلوں کی صورت مطلوبہ نتائج کا حصول بھی ممکن ہے۔ اس بات کا اظہار وہ کر چکے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کے آتے ہی انتخابات کالعدم قرار دیے جا سکتے ہیں یا کم از کم چار حلقے کھل جانے سے مریم نواز کی حکومت ختم ہو سکتی ہے۔
بہرحال میں یہ بات پھر کروں گا کہ آئینی ترامیم میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو ملک کے لیے بہتر ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ان ترامیم پر مختلف فورم میں بحث کیوں نہیں کی گئی؟ جیسے مثال کے طور پر 18ویں آئینی ترمیم کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کی گئی اور اور تمام سیاسی قیادت کی آشیر باد اس ترمیم کو حاصل تھی کیونکہ یہ ایک بہت ہی بڑی ترمیم تھی ،حالانکہ مذکورہ ترمیم جس کے حق میں 292ووٹ ڈالے گئے جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا ، اس ترمیم پر آٹھ ماہ مشاورت جاری رہی۔ اس کا مسودہ میڈیا پر زیر بحث رہا اور یہی وجہ ہے کہ اسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم طویل مشاورت کے بعد منظور کروانے والی پیپلز پارٹی کا چیئرمین بلاول بھٹو آج اسی آئین کو توڑنے مروڑنے میں پیش پیش ہے۔ جے یو آئی ف کے رہنماﺅں نے جب بلاول بھٹو کی توجہ آئینی ترامیم میں موجود کئی انسانی حقوق کی شقوں کے ردوبدل پر مبذول کروائی تو بلاول بھٹو نے نہ جانے کن مجبوریوں کا رونا رو ڈالا۔
اور پھر یہی نہیں حکومت جس1973 کے آئین میں خاموشی سے تبدیلیاں کرنے جا رہی تھی ، یہ آئین متفقہ طور پر منظور ہوا تھا ، اس کا مسودہ منظوری سے ایک سال قبل اپوزیشن کو فراہم کیا گیا ، 17اپریل1972 کو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں ایک پچیس رکنی آئینی کمیٹی تشکیل دی جس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندے موجود تھے ، دو فروری انیس سو تہتر کو آئین کا مسودہ بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ، اور تین ماہ تک اس پر بحث جاری رہی آخرکار10 اپریل 1973کو پارلیمنٹ نے آئین کی منظوری دی جس پر 137 ارکان نے دستخط کرکے عہد کیا کہ اب پاکستان کا نظام اسی آئین کے تحت چلایا جائے گا۔اس آئین کی منظوری کے بعد زوالفقارعلی بھٹو نے اپنی تقریر میں کہا کہ قوم کو آئین مل گیا ہے ، یہ آئین عوام کا ہے ، عوام کی ملکیت ہے اور عوام اس آئین کی حفاظت خود کرے گی۔ مگر نہ تو عوام اور نہ ہی آئین کی محافظ سپریم کورٹ اس کی حفاظت کر سکی اور 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاالحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ آئین کی محافظ سپریم کورٹ کے ججوں نے پی سی او پر حلف اٹھا کر آئین کی بجائے جنرل ضیاالحق کی آئین شکنی کو تحفظ فراہم کیا۔
لہٰذااب یہ 26ویں آئینی ترامیم بھی اسی قسم کی بڑی ترامیم ہیں، لیکن مشاورت صفر ہے۔ حتیٰ کہ ابھی تک مکمل مسودہ نہیں دکھایا جا رہا۔ اور سب سے بڑھ کر ان ترامیم میں عوامی مشاورت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ویسے تو 18ویں آئینی ترمیم بھی عوام کی رائے سے محروم تھی۔اور یہ ہماری سیاست کا بڑا المیہ رہا ہے کہ عوام کو ووٹ کے لیے تو استعمال کیا جاتا ہے لیکن اُس کے بعد ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ملک میں عدلیہ کی اصلاح کے لیے اگر آئین میں ترمیم کرنا ضروری تھا تو ان کا واضح اعلان ہونا چاہیے تھا۔ یہ تجاویز کسی سرکاری نوٹ یا مسودہ کی صورت میں عمومی بحث کے لیے پیش کی جاتیں اور اس کے بعد اس پر سامنے آنے والی آرا کی روشنی میں مناسب رد و بدل کے ساتھ انہیں کابینہ اور پھر پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی کوشش کی جاتی۔ آئینی ترامیم کے لیے چونکہ وسیع تر اتفاق رائے آئین بنانے والوں کو منشا و مقصود تھا، اس لیے سب سے مناسب یہ تھا کہ حکومت ان تجاویز پر سب سے پہلے تحریک انصاف کے ساتھ تبادلہ خیال کرتی اور مل جل کر انہیں وسیع تر قومی مفاد کے مطابق شکل دی جاتی اور کسی تنازعہ کے بغیر ان ترامیم کو منظور کروا لیا جاتا۔ یا اگر تحریک انصاف کسی بھی طرح تعاون پر آمادہ نہ ہوتی تو حکومت ترامیم کسی سیاسی گٹھ جوڑ کے بغیر پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیتی۔ دو تہائی ووٹ ملنے پر وہ آئین کا حصہ بن جاتیں لیکن حکمران جماعتوں کے چہرے پر کالک نہ پوتی جاتی۔
البتہ اس کے برعکس اب جو طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے اس سے سوائے اس کے کوئی تاثر قائم نہیں ہوتا کہ یہ ترامیم ایک خاص سیاسی گروہ کی حمایت یا مخالفت میں مرتب کی گئی ہیں۔ یہ اب بھی ملک کے لیے ٹھیک نہیں اور آنے والے دنوں میں بھی اس کی ملک میں کوئی جگہ نہیں بن رہی ۔جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے جس طرح بڑے خفیہ انداز میں چوری چھپے رات کی تاریکی میں 1973کے آئین میں ترامیم کی ناکام کوشش کی اسے آئین پر شب خون مارنا ہی سمجھا جا رہا ہے ، اس سے حکومت کو شرمندگی اور رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اور آنے والے دنوں میں یہ اس کے گلے بھی پڑ جائے گی۔ بالکل اسی طرح جیسے ن لیگی قائدین اس وقت یعنی ابھی سے ہی ترامیم کے حوالے سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ حکومت ابھی بھی چند روز بعد ان ترامیم کی منظوری کے دعوے کر رہی ہے ، پیپلزپارٹی جس کے بانی زوالفقارعلی بھٹو کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے قوم کو ایک متفقہ آئین دیا لیکن آج ان کے نواسے بلاول بھٹو اپنے نانا کے آئین پر شب خون مارنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی جماعت بھی آئین میں ترامیم کے مسودے سے لاعلم تھی۔
بہرکیف جو حکومت پہلے ہی فارم سینتالیس کی نہایت کمزور بیساکھیوں پر کھڑی ہے اسکی ساکھ مزید مجروح ہو چکی ہے اور بعض حلقوں نے الٹی گنتی بھی شروع کر دی ہے۔ عوام اس وقت انتہائی مایوس ہیں۔ ایک جانب معاشی بحران، مہنگائی اور بیروزگاری نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے ، ملک سے بیرونی کمپنیاں کاروبار بند کر کے بھاگ رہی ہیں ، مقامی انڈسٹری کو تالے لگ چکے ہیں تو دوسری طرف حکومت بجائے عوام کی مشکلات کم کرنے کے اداروں کے سربراہوں کی ملازمتوں کو توسیع دینے اور بچے کھچے انسانی حقوق کا گلا گھونٹنے کے لیے آئینی ترامیم کے لیے جوڑ توڑ اور زور زبردستی میں مصروف ہے ، لہٰذاعوام کو حکومت کی اس بھونڈی حرکت پر اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا ورنہ آپ مزید زور زبردستیوں اور مہنگائی کے بے جا طوفانوں کے لیے تیار رہیں!

اپنا تبصرہ لکھیں