گزشتہ ہفتے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق عدالت عظمیٰ کے ایک سابقہ فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کو متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے عدالت کا اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔ 17 مئی 2022ء کو دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ کسی بھی جماعت کے منحرف رکن یا اراکینِ اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہیں ہو گا جبکہ ایسے رکن کی نااہلی کی میعاد کا تعین پارلیمان کرے گی‘ تاہم تین اکتوبر کو سنائے جانے والے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی اس تشریح کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ‘ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ منحرف رکنِ اسمبلی کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا۔آرٹیکل63 اے نظرثانی کیس کا فیصلہ مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کیلئے انتہائی اہم سمجھا جارہا ہے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نے فلور کراسنگ کے حوالے سے جو فیصلہ دیا تھا اس میں قرار دیا گیا تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا رکن نااہل تصور ہو گا‘ اس طرح تحریک انصاف کے وہ 25اراکینِ صوبائی اسمبلی‘ جنہوں نے وزارتِ اعلیٰ کیلئےمسلم لیگ (ن)کے امیدوار کی حمایت کی تھی‘ کو ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیابی ملی۔ اب عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ دیا ہے‘ اس میں 17 مئی 2022ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست جاری ہے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد ڈی چوک میں جلسے کی کال پر مقررہ دن سے دو روز پہلے ہی وفاقی حکومت نے ڈی چوک کی طرف جانے والے تمام راستے جگہ جگہ کنٹینر لگا کر بند کر دیے تھے۔ اسی طرح ریڈ زون کی طرف جانے والے تمام داخلی راستے بھی بند کردیے گئے۔ جگہ جگہ کھڑی کی گئی ان رکاوٹوں کی وجہ سے جڑواں شہروں میں آمدورفت شدید متاثر ہوئی۔ ہفتہ کے روز یہی صورتحال لاہور میں بھی دیکھی گئی۔ حکومت کی طرف سے جلسے کے مقررہ دن سے دو روز قبل ہی وفاقی دارالحکومت کو سیل کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت تحریک انصاف کو ایک بڑی سیاسی طاقت تسلیم کرتی ہے جسے احتجاج سے روکنے کے لیے اتنا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اپنے چیک اپ کیلئے اسلام آباد کے الشفاہسپتال جانا تھا لیکن راستے بند ہونے کی وجہ سے مجھے اپنا چیک اپ مؤخر کرنا پڑا۔ میرے جیسے اور نجانے کتنے مریض احتجاج اور راستوں کی بندش کی وجہ سے ہسپتال نہیں پہنچ سکے ہوں گے۔ اسلام آباد کو بند کرنا جمہوریت کے کس چارٹر میں شامل ہے؟ عدالت عظمیٰ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے‘ جیسے قبل ازیں تحریک لبیک کے احتجاجی دھرنے کا سخت نوٹس لیا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ڈی چوک پہنچنے کیلئے خیبرپختونخوا کے ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ گزشتہ ماہ روالپنڈی اور لاہور کے جلسوں میں پہنچنے کیلئے بھی ایسا ہی کیا گیا تھا‘ اس روش سے تحریک انصاف کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کے احتجاجی جلسوں سے عوام سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بانی تحریک انصاف کو اپنی احتجاجی پالیسی پر غور کرنا چاہیے‘ اس طرح کے احتجاجوں سے ان کے اپنے ورکرز بھی تکلیف سے گزر رہے ہیں اور اس کا سیاسی فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
اُدھر دو اکتوبر کو ایک تقریب سے خطاب کے دوران میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر عوام کے نمائندوں کو اس ملک میں کام کرنے دیا جاتا تو آج ملک میں کوئی شخص بھی بے گھر نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ میرے پہلے دورِ حکومت میں ہم نے ایسی بہت سی سکیمیں شروع کیں لیکن ہمیں فارغ کر دیا گیا اور دوسرے دور میں بھی ایسا ہی ہوا‘ ہم دو قدم آگے چلتے تو ہمیں آٹھ قدم پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میاں نواز شریف ابھی تک 1990ء کی دہائی سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان کی پہلی حکومت اپریل 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کی تھی‘ یہ فیصلہ تب ریاستی مفاد کے پیشِ نظر کیا گیا تھا۔ ممکن ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ملک غلام محمد‘ الٰہی بخش سومرو اور جنرل وحید کاکڑ اُس ملاقات سے پردہ اٹھا دیں جو ایوانِ صدر میں صدر غلام اسحاق خان نے ان حضرات کی موجودگی میں میاں نوازشریف سے کی تھی۔ نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں کچھ ترقی ضرور ہوئی لیکن کچھ فیصلے ریاستی مفاد میں بھی کرنا ہوتے ہیں۔اپنے پہلے دورِ حکومت کی طرح نواز شریف اپنا دوسرا اور تیسرا دورِ حکومت بھی پورا نہیں کر سکے۔جب 2017ء میں انہیں ایوانِ اقتدار سے نکالا گیا تو انہوں نے شاہد خاقان عباسی کو اپنی جگہ وزیراعظم نامزد کر دیا تھا۔2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی عمران خان حکومت جنرل قمر جاوید باجوہ کی محتاج تھی‘ شاید اسی لئے جب خان صاحب کی حمایت ختم ہو گئی تو انہیں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی وجہ سے گھر جانا پڑا۔ آج وہ جیل میں ہیں ‘ البتہ عوام میں مقبول ہیں۔ اس مقبولیت کا راز یہ ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد عوام میں مقتدرہ مخالف بیانیہ منوانے میں کامیاب رہے۔ آج بھی پی ٹی آئی اسی بیانیے پر کار بند ہے۔ پی ٹی آئی اور مقتدرہ کی اس لڑائی میں دیگر سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ اس ساری صورتحال میں سہولت کاری کا کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ عمران خان کا مقابلہ کرنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لئےوہ سیاسی لڑائی لڑنے کے بجائے مقتدرہ کا سہارا لے رہی ہیں۔
عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو ایران اسرائیل کشیدگی اور ایران کے میزائل حملوں کے بعد اسرائیل کے لبنان پر حملوں کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر 200میزائل فائر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اُس نے اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ لے لیا ہے۔ اس حملے کے بعد سے اسرائیل بیروت پر مسلسل حملے کررہا ہے۔ اس امر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایران کے پاس اسرائیل کی فضائی کارروائیوں کا مؤثر جواب موجود نہیں۔ تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد سے ایران کی طرف سے اس معاملے پر خاموشی تھی اور اسے ایران کی حکمت عملی قرار دیا جارہا تھا لیکن حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد ایران کو کارروائی کرنا پڑی۔ اسرائیل پر ایران کا یہ حملہ اپریل میں کیے گئے ایرانی حملے سے زیادہ بڑا اور منظم تھا۔ ایران مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی سب سے بڑا مخالف ہے۔ ایران کے اسرائیل پر حملوں نے مرحوم صدر جمال عبدالناصر‘۱نوار السادات اور صدام حسین کی یاد تازہ کر دی ہے۔ پاکستان بھی ماضی میں اسرائیل مخالف جنگ میں برابر کا شریک رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت روکنے کا واحد راستہ مسلم ممالک کا متحد ہونا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک‘ جو اِن دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں‘ انہوں نے بھی کہا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کو اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کا جواب دینے کے لیے نیٹو کی طرز پر مسلم فوج تیار کرنا ہوگی۔