ایک بار پھر بہتر توقعات کی آس بندھی، سیاست اور کھیل کے میدان سے کچھ بہتر خبریں سامنے آئی ہیں، چیمپئن کرکٹ ٹورنامنٹ کا فیصلہ سامنے آیا تو جنوبی افریقہ سے بھی بہتر خبر ملی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے دوسرا ایک روزہ انٹرنیشنل میچ جیت کر تین میچوں کی سیریز بھی جیت لی کہ دونوں میچ شاہینوں ہی نے جیتے ہیں جبکہ آئی سی سی کے اکثریتی اراکین کی رائے کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ کی طرف سے ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کے جواب میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی شرط بھی مان لی گئی ہے جس کے مطابق بھارت اپنے میچ غیر جانبدار وینیو پر کھیلے گا تو پاکستان کرکٹ ٹیم بھی بھارت نہیں جائے گی اور اپنے میچ غیر جانبدار وینیو پر ہی کھیلے گی۔ یوں چیمپئنز ٹرافی پر جو خدشات تھے وہ دور ہو گئے اور پاکستان کی طرف سے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے کے فیصلے کے باعث جو خطرات محسوس کئے جا رہے تھے وہ ٹل گئے ہیں اور اب یہ ٹورنامنٹ اگلے سال فروری ہی میں ہوگا یوں بھارت کی طرف سے کھیل میں سیاست کا عمل اس حد تک تو کامیاب نہ ہو سکا کہ ٹرافی کاانعقاد ہی نہ ہو سکے، پاکستان بورڈ کی طرف سے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا گیا اور بہتر حکمت عملی کے طور پر ”ادلے کابدلہ“ والا معاملہ پیش کر دیا اور واضح کیا کہ اول تو کھیل اور سیاست جدا عمل ہے، بلکہ کھیل کے ذریعے تعلقات بہتر ہوتے ہیں، اس لئے کھیل کو اس عمل سے الگ رکھنا چاہیے لیکن بھارت کی طرف سے یہ عذر پیش کیا گیا کہ ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے پاکستان آنا بھارتی حکومت کی اجازت سے مشروط ہے اور بھارتی حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، اس پر آئی سی سی کے اراکین کے درمیان غیر رسمی مشاورت شروع ہو گئی،اس میں آئی سی سی بورڈ اراکین کی واضح اکثریت نے پاکستان کے حق میں رائے دی اور اس موقف کو ہی درست قرار دیا کہ اگر بھارت ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کرتا تو الگ بات ہے اور اگر شرکت کے لئے شرط پاکستان نہ جانا اور اپنے میچ غیر جانبدار وینیو پر کھیلنا ہے تو پھر پاکستان کرکٹ کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بھی بھارت میں ہونے والے ٹورنامنٹ کے لئے بھارت نہ جائے، چنانچہ اس موقف کی جیت ہوئی اور دونوں ممالک پر غیر جانبدار وینیو کا یکساں اطلاق ہو گا اور یہ سلسلہ 2027ء تک چلے گا کہ اس عرصہ میں بھارت میں ٹورنامنٹ ہونا ہیں، جبکہ خواتین کرکٹ کے ٹورنامنٹ کی میزبانی پاکستان کو ملی ہے یوں یہ معاملہ طے ہو گیا ہے اور بقول محسن نقوی اس میں کھیل کی جیت ہوئی ہے۔
دوسری طرف جنوبی افریقہ سے بھی بہتر خبر موصول ہوئی کہ پاکستانی شاہینوں نے دوسرا ایک روزہ میچ بھی جیت کر سہ روزہ سیریز میں دو،صفرکی واضح اکثریت حاصل کرلی اور سیریز جیت لی، اس میں اطمینان کی یہ بات ہے کہ شاہین واپس ٹریک پر آنا شروع ہو گئے اور مسلسل شکست والا داغ بھی دھلنے لگا ہے ایک روزہ سیریز کا اب ایک میچ رہ گیا جس کے بعد دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز ہوگی اور یہ بھی امتحان ہی ہوگا کہ ٹریک اتفاقاً تو ٹھیک نہیں ہوا۔ محنت بھی شامل ہے، اس سلسلے میں یہ بات خو ش آئند ہے کہ بابر اعظم کا اعتماد بحال ہو رہا ہے اور یہ ریکارڈ ساز کھلاڑی ابھی اور بھی کئی ریکارڈ توڑے اور بنائے گا جبکہ صائم ایوب کی محنت رنگ لا گئی اس کی تعریف بھی ہونے لگی ہے۔ ایک اور امر اطمینان کا باعث ہے کہ کامران غلام کا اعتماد بڑھ گیا جواننگ اس نے کھیلی وہ اس کے جوہر کا اظہار ہے اور اسی کے لئے وہ مرد میدان (مین آف دی میچ) ٹھہرایا گیا، البتہ نئی تشویش عبداللہ شفیق کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ وہ ”بیڈپیچ“ کا شکار ہو گیا، حالانکہ وہ تینوں فارمیٹ کا افتتاحی کھلاڑی ہے، اس کی حوصلہ افزائی لازم ہے، ٹیم مینجمنٹ کو توجہ دینا ہوگی، بہرحال مجموعی طور پر ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوئی، توقع کرنا چاہیے کہ اب یہ شاہین مستقل مزاجی دکھائیں، یہ نہیں کہ پھر کہا جائے، ”یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں“ اس میچ میں باؤلنگ بھی بہتر ہوئی ہے اور شاہین آفریدی کی چار وکٹیں اس کا اعتماد بحال کرنے میں بہتر ثابت ہوں گی، اسے ٹیسٹ سکواڈ میں نہیں رکھا گیا اور کہا گیا کہ ورک لوڈ زیادہ ہے، یہ تو رؤف کے ساتھ بھی ہے اور حالیہ ایک روزہ میچوں میں اس کی باؤلنگ نے کلک بھی نہیں کیا، سلمان اکبر کی تعریف اور حوصلہ افزائی بھی لازم ہے وہ سمجھداری سے کھیلا اور اس کے جوہر نظر آئے ہیں، ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں اور توقع ہے کہ ”میرٹ“ پر عمل زیادہ سے زیادہ ہوگا کہ یہاں تو پرچی بڑے گھر سے بھی آ سکتی ہے۔
یہ تو ایک اچھی خبر ہے اس کے اندر چھپی ہوئی حقیقی اطلاع یہ ہے کہ عالمی کرکٹ کونسل کے اراکین اس بار بھارت کے دام میں نہیں آئے اور یہ مستقبل کے لئے بھی بہتر ہے کہ بھارت کا معاندانہ رویہ صرف پاکستان کے لئے نہیں وہ بڑے ممالک سے بھی متھا لگانے لگا ہے۔ یہ درست کہ بھارت بڑا سرمایہ دار ملک ہے اور اس کے سرمایہ دار بھارتی حکومت کی خوشنودی کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ چنانچہ حسد کی حد یہ ہے کہ آئی پی ایل کے انعقاد کی تاریخیں ایسی رکھ دی گئی ہیں کہ وہ ہمارے پی ایس ایل سے ٹکراتی ہیں، بین الاقوامی کھلاڑیوں کو زیادہ رقوم سے للچایا گیا ہے، اس کے باوجود بھی دنیا ختم نہیں ہوتی اور بہت اچھے عالمی کھلاڑی ابھی موجود ہیں جو پی ایس ایل کو دستیاب ہوں گے۔ اس بارے چیمپئنز ٹرافی اور پی ایس ایل ہمارا انتظامی امتحان بھی ہوگا گو بھارت کے مقابلے میں ہمارا ملک رقبے میں چھوٹا اور وینیوز کم ہیں اس کے باوجود یہاں شائقین بہت ہیں اور مقابلے جاندار اور دلچسپ ہوں گے اور نہ صرف پی سی بی بلکہ پی ایس ایل والے بھی سرخرو ہوں گے۔
بات شروع کی تھی دو اچھی خبروں سے جواب تک بڑھ کر تین ہو چکی ہیں، لیکن شائقین کی دلچسپی کے حوالے سے کرکٹ والی خبریں اہمیت کی حامل بن گئی کہ یہاں فیصلے تو ہو گئے۔
بہرحال توقع کرنا چاہیے کہ دوسرے حوالے سے بھی ایسی ہی بہتر اطلاع ہوگی۔ جس دوسری خبر کا ذکر مقصود تھا وہ تو یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کی وساطت سے تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور اس امر کے باوجود کہ لب آزاد ہیں اور بولے چلے جا رہے ہیں، پھر بھی بتایا جا رہا ہے کہ پارلیمان کی سطح پر کمیٹی بن جائے گی اور یہ مشترکہ کمیٹی مذاکرات کی مشترکات پر بھی رضا مند ہو کر قواعد طے کرلے گی جس کے بعد باقاعدہ بات چیت ہوگی اور نتیجہ خیز ہوگی، تحریک انصاف کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مقتدرہ سے براہ راست رابطہ اور مذاکرات پر زور دیتی تھی تو ادھر سے مثبت جواب نہیں آیا۔ تاہم اب مذاکرات کا آغاز ہوگیا تو یہ بالواسطہ رابطہ ہو گا کہ حکومتی ذمہ دار حضرات تو کہتے چلے آ رہے ہیں کہ مقتدرہ کو اعتماد میں لیا جائے گا، اللہ سے دعا ہے کہ یہ عمل بخیر و خوبی عمل پذیر ہوگا اور ملک میں امن ہو جائے گا۔
چلتے چلتے جو تیسری خبر آ گئی وہ یہ کہ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے دعوت دی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے قبول کرلی اور ملاقات ہو بھی گئی۔کہا تو یہی گیا ہے کہ خوشگوار رہی اور مولانا مدارس اتحاد سے بات کرکے جواب دیں گے۔