ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہ؟

حقیقی جمہوری معاشروں میں ریاست کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے، خود بھوکے رہ کر اولاد کے شکم کورزق کے ایندھن کی فراہمی فرض سمجھ کر ممتا کے جذبے سے کی جاتی ہے، ریاستی حکام راتوں کو جاگ کر عوام کی حفاظت کرتے ہیں اور بحرانی کیفیت میں سارا دن اسی سوچ اور فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ عام شہری کو کیسے ریلیف دیا جائے،ان کی اپنی ہستی ریاست اور شہریوں کے مفادات کے سامنے بے حیثیت ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں مگر گنگا ہر معاملے میں الٹی بہہ رہی ہے،یہ کہنے کو تو اسلامی ریاست ہے، مگر یہاں کے عوام و خواص نے اسلام اور اسلامی تعلیمات سے خود کو از خود اختیار کے تحت مبرا کر لیا ہے،ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے اسلامی احکامات کو مرضی کے معانی دیکر مفاد حاصل کیا جاتا ہے،نام کی حد تک جمہوری ریاست ہیں جمہور کی حیثیت ایک ایسے عنصر کی ہے جو ووٹ کی پرچی سے جن ارکان اسمبلی کو اپنی نمائندگی کے لئے ایوان میں بھیجتے ہیں وہ منتخب ہونے کے بعد خواص یعنی اشرافیہ کے مفادات کے نگران بن جاتے ہیں،دور مت جائیں حالیہ دو اڑھائی سالوں میں بے تحاشا قانون سازی ہوئی، مگر کوئی ایک ترمیم ایسی نہیں لائی گئی جو عوام الناس کے مسائل و مشکلات کو کم کرتی ہو،عوام کو ریلیف دیتی ہو،ہرآئینی ترمیم اور قوانین میں تبدیلی حکمرانوں اور اشرافیہ کے مفاد میں کی گئی۔

ابھی چند دن کی بات ہے پنجاب اسمبلی کے ارکان، وزیروں، مشیروں،معاونین خصوصی،سپیکر،ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ میں پانچ سے دس گنا اضافہ کر دیا گیا،اس اقدام پر پنجاب اسمبلی میں واہ واہ ہوئی،مبارکبادوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا،کسی عوامی نمائندہ نے یہ نہ کہا کہ ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے،ریاست کا نظام اور حکومتی ادارے قرض پر گزر بسر کر رہے ہیں،سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بھی قرض لیکر ادا کی جا رہی ہیں ایسے میں ارکان اسمبلی کی تنخواہ میں اس قدر حیرت ناک اضافہ بھوک ننگ افلاس کا شکار عوام سے ایک گھناؤنا مذاق ہو گا۔کثرتِ رائے سے منظور کئے گئے بل پر اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے اعتراض اٹھایا، مگر اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا پیش کردہ بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، منظوری کے بعد نئے سال یکم جنوری سے اراکین اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ چار لاکھ روپے ہو جائے گی،تنخواہوں میں اضافے کے بل کی منظوری کے بعد اراکین اسمبلی بے حد خوش نظر آئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی، بل کی منظوری کے بعد اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہ 76ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ کر دی گئی ہے،جبکہ صوبائی وزراء کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار،سپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ 1 لاکھ 25 ہزار سے بڑھ کر 9 لاکھ 50 ہزار اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ 1 لاکھ 20 ہزار سے بڑھ کر7 لاکھ 75 ہزار ہوجائے گی،پارلیمانی سیکرٹریز کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھ کر 4 لاکھ 51 ہزاراور سپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار ہوجائے گی۔ بل کی منظوری کے بعد ایڈوائزر کی تنخواہ 1 لاکھ سے بڑھ کر 6 لاکھ 65 ہزار ہوجائے گی۔

پنجاب اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف نے بل کی منظوری کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھایا ہے مگر پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ کئی ارکان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے جبکہ وزیراعلیٰ سمیت کئی ارکان تنخواہ نہیں لیتے،ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھا جائے تو ایسے فیصلوں پر سوال اٹھتے ہیں، ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے پنجاب کی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں کمی آ رہی ہے اور عوام کو ریلیف مل رہا ہے،مگر مبصرین کے مطابق ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے پر سوالات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں نظرثانی کے نام سے یہ بل وزیر برائے پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پیش کیا تھا، بل پر اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے اعتراض کرتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ کیا یہ بل پارلیمانی قوانین سے متعلقہ ایکٹ کے مطابق ہے؟ جس پر سپیکر ملک محمد احمد خان نے جواب دیا کہ یہ بل موجودہ قوانین کے مطابق بالکل درست ہے اور یہ حکومت کا اچھا اقدام ہے۔

دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں کم سے کم تنخواہ حکومت نے 37ہزار مقرر کر رکھی ہے، مگر اس پر عملدرآمد کرانے میں پنجاب حکومت بری طرح ناکام ہے اور سرمایہ دار 15سے20ہزار دیکر عام مزدور سے دس سے بارہ گھنٹے کام لے رہا ہے،ا ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں کو یکدم بہت زیادہ بڑھا دینا معنی خیز ہے،ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں، ایسے وقت میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اچانک زیادہ اضافہ کرنے پر سوال تو ہوں گے، معیشت اِس بڑے اضافہ کو برداشت نہیں کر سکتی، ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کے بعد مزدور کی اجرت میں اضافہ ناگزیر ہے، اُس پر عملدرآمد کو بھی یقینی ہونا چاہئے پہلے کئے گئے اضافے سے بھی مزدور محروم ہے،پنجاب میں مہنگائی کے اِس دور میں کم سے کم اُجرت پر عملدرآمد بمشکل ہی ہوتا ہے،یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ جب ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں ایک دم اتنا بڑا اضافہ کیا گیا ہے تو کسی دوسری مد سے یا کسی دوسرے شعبے سے پیسے نکالے گئے ہوں گے، تعلیم، صحت، پانی، بنیادی سہولتوں یا کسی دوسرے شعبے کے بجٹ میں کٹوتی کرکے ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں کے لئے پیسے دئیے گئے ہوں گے کیوں کہ جو سالانہ بجٹ پاس کیا گیا اس میں ان تنخواہوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں نہ ہی کوئی پیسے رکھے گئے شائد ارکانِ اسمبلی یہ سمجھتے ہوں کہ اگر وہ بار بار اپنی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے تو اْنہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا،جس کا حل یہ نکالا ہے کہ ایک دم ہی تنخواہوں میں زیادہ اضافہ کر لیا جائے۔ ارکانِ اسمبلی کی اکثریت ایسے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جن کے طرزِ زندگی میں تنخواہوں کا بڑھنا یا نہ بڑھنا بہت زیادہ معنی نہیں رکھتا،یہ بات بھی اہم ہے کہ ارکان اسمبلی کے نزدیک ووٹ دیکر منتخب کرانے والے ووٹر کا مفاد اہم نہیں ہوتا،اس لحاظ سے کارکردگی پر بات کرنا شاید بے معنی ہو گا تاہم ارکانِ اسمبلی کو اپنی کارکردگی بہتر بنا کر اِن تنخواہوں میں اضافے کا جواز فراہم کرنا چاہئے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود پاکستان کے لئے قرضے لوٹانا مشکل ہو چکا ہے؟جی ارکان اسمبلی وزراء کی تنخواہوں میں اضافہ کا اثر براہِ راست عوام پر پڑے گا، حکومت ایک طرف دعویٰ کر رہی ہے ملک میں مہنگائی کم اور افراطِ زر کی شرح گھٹ رہی ہے تو دوسری جانب تنخواہوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے،ان کے بقول اگر واقعی مہنگائی کم ہو رہی ہے تو اْس کا اثر ارکانِ اسمبلی پر بھی ہونا چاہئے،جو تنخواہیں بڑھی ہیں اس کا اثر قومی خزانے پر پڑے گا اور قومی خزانے کا مطلب ہے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ یعنی مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی رگوں سے خون چوسنے کے بعد اب ان کی ہڈیوں سے گودا نکالا جائے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں