ایسے سرفروش کہاں سے ملیں گے؟

انٹرویو لینے والوں نے مجھ سے پوچھا کہ علی امین گنڈاپور کی کے پی اسمبلی میں تقریر سنی ہے؟ میں نے کہا ان کی کافی تقرریں سن چکا ہوں اور مزید سننے کی اِچھّا نہیں رہی۔ ڈی چوک سے کہاں گئے‘ ساری رات اور دن کہاں غائب رہے‘ سچ پوچھئے اس بارے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میری نظروں میں نہتے ورکروں کا تمام رکاوٹوں کو عبورکرتے ہوئے ڈی چوک یا اُس کے قریب پہنچ جانا اور پھر اسلام آباد پولیس کے سارے زور کے سامنے ڈٹ جانا‘ اس سارے معرکے میں یہ سب سے اہم بات تھی۔ انہیں یوتھیا کہیے یا جیالا کہیے‘ قرب وجوار سے یہ زیادہ تر نوجوان خود سے آئے اور متواتردو روز وہاں موجود پولیس کا سارا زور برداشت کیا۔ آخرکار پولیس تھک گئی اور اُسے پیچھے ہٹنا پڑا اور یہ نہتے لوگ وہیں نعرے لگاتے کھڑے رہے۔ کوئی سپلائی ٹرینیں ان کے پیچھے نہیں تھیں لیکن یہ بھی کیا حوصلہ افزا بات ہے کہ اسلام آباد کے شہری وہاں اپنے سے پانی کی بوتلیں اورحسبِ توفیق کھانا پہنچاتے رہے۔
روح پرور مناظر تو یہ تھے‘ کون کے پی ہاؤس گیا اور پھر وہاں سے کہاں چلا گیا ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہمارا معاشرہ ایسا ہو چکا ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنی ذات اور اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کے دائروں سے نکل نہیں پاتے۔ بیشتر ہم جو لوگ ہیں ہمارے سامنے کوئی بڑا مقصد نہیں۔ اسی لیے اس خود غرضی کے مارے ماحول میں کوئی دیوانہ قسم کے مرد وخواتین نظر آئیں تو ہم جیسے پاپیوں کا دل بھی پگھلنے لگتا ہے۔ یہ اعزاز معتوب جماعت اور اس کے مقید قائد کا ہے کہ ایسے جذبے سے سرشار لوگ اُس نے پیدا کیے ہیں۔ باقی کیا ہے‘ وقت گزر ہی جاتا ہے اور یہ بھی گزر جائے گا۔
میرے جیسے مصلحت یا ڈر کے مارے لوگ تو وہاں جا نہ سکے لیکن دیکھئے ان نوجوانوں کو‘ جن میں ایک کثیر تعداد خواتین کی بھی تھی‘ جو سب مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اور کنٹینروں اور پولیس کے جتھوں کی پروا کیے بغیر وہاں پہنچے اور پھر دوسری طرف سے جوکچھ ہو سکا اور جوکچھ پھینکا جا سکا اُس کے سامنے کھڑے رہے۔ ملک کا حال برا ہو گا‘ بھکاری پنے کی پتا نہیں کون سی سطح پر پہنچ چکا ہو گا‘ لیکن جس قوم میں ایسے بے غرض اور باہمت نوجوان ہوں اُسے آپ گری ہوئی یا مردہ قوم تو نہیں کہہ سکتے۔ ایسے لوگوں کو بچانا اور اُن کی سیاسی نشوونما کرنا معتوب جماعت کے سامنے سب سے بڑا مشن ہے۔ اس ملک میں کمٹِڈ اور جذبے سے سرشار لوگوں کی کمی ہے۔ یہی لوگ ہیں جن پر کچھ امیدیں باندھی جا سکتی ہیں‘ نہیں تو ہم جیسے لوگ‘ جو کبھی اسمبلیوں میں گئے اور بیشتر وقت اسمبلیوں سے باہر رہے‘ ہم تو چلے ہوئے کارتوس ہیں‘ ہم سے کیا توقع رکھنی۔ پی ٹی آئی انقلابی جماعت نہیں ہے لیکن جن امتحانوں سے وہ گزر رہی ہے اور جس طریقے سے اس کا لیڈر اور اس کے ورکر ڈٹے ہوئے ہیں ان میں ایک انقلابی جذبہ پیدا ہو رہا ہے۔ وہ کسی تبدیلی کا نقشہ نہیں کھینچ سکیں گے‘ کال مارکس اور لینن کی تحریریں ان کی نظروں سے نہیں گزریں‘ لیکن تبدیلی کا بے کراں جذبہ ان کے دلوں میں پیدا ہو چکا ہے۔
ان ورکروں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے‘ انہیں بے جا تھکانا بھی نہیں چاہیے۔ منصوبہ بندی ہو‘ سوچ سمجھ کے ہو۔ احتجاج کے اعلانات ہوں تو تمام پہلوئوں کا پہلے بغور جائزہ لیا جائے۔ بغیر سوچے سلسلۂ احتجاج پر زیادہ زور اب نہیں دینا چاہیے۔ اس سارے جھمیلے میں ورکر تو تھے‘ اور ڈٹے رہے لیکن قائدین کہاں تھے؟ کتنے قائدین کہہ سکتے ہیں کہ ہم موجود تھے؟ مجھے کسی نے بتایا کہ طیبہ راجہ وہاں تھیں‘ بہت ساری اور بے نام قسم کی خواتین بھی تھیں لیکن اسمبلیوں میں بیٹھنے والے اور کور کمیٹی والے‘ یہ کن اندھیروں میں گم ہو گئے تھے؟ علی امین والے مسئلے پر بھی پارٹی کو کچھ سوچنا چاہیے۔ وہ ایک صوبے کا چیف منسٹر ہے‘ وہاں کے حالات پر توجہ دے۔ یہ کوئی بات جچتی ہے کہ ہر پندرہویں روز اُس صوبے کا چیف منسٹر قافلہ یا لشکر لیے کبھی سنگجانی‘ کبھی لاہور اور کبھی ڈی چوک کی طرف روانہ ہو رہا ہے؟ صوبہ کے پی معتوب جماعت کا اثاثہ ہے۔ وہ جو ہمارے سرخیل افغانستان کے بارے میں کہتے تھے کہ پاکستان کی سٹرٹیجک گہرائی وہاں ہے‘ پی ٹی آئی کی سٹرٹیجک گہرائی کے پی ہے۔ اسے ضائع مت کیجئے۔ وہاں کا سربراہ احسن طریقے سے وہاں کے معاملات سنبھالے تاکہ کے پی سارے ملک کیلئے ایک مثال بن سکے۔ کے پی کی حکومت معتوب جماعت کے ہاتھوں میں رہی تو علی امین گنڈاپور کے لشکروں کے بغیر بھی پی ٹی آئی کے احتجاجی ورکر جہاں بھی ہوں انہیں تقویت ملتی رہے گی۔ ایک اور بات ہے کہ آپ کسی جگہ کی حکومت چلا رہے ہوں تو بڑھک نما تقریریں اچھی نہیں لگتیں۔ زیادہ زور ٹھوس کام پر ہونا چاہیے اور دیگر نتائج خود بخود پیدا ہوتے رہیں گے۔ دو تین مرتبہ تو جذبے سے سرشار نوجوان گنڈاپور کی بڑھکوں کے جادو میں آگئے لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ نہیں آئیں گے۔ یوں سمجھئے کہ ڈی چوک پر ان کا یہ آخری حملہ تھا۔
یہ سب کچھ عرض کرنے کی اس لیے ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ کئی بار جذبے سے بھرے جتھوں کو بکھرتے دیکھا ہے۔ جنرل ضیا کے زمانے میں پی پی پی کے ورکروں کو قریب سے دیکھا۔ ایک دو مرتبہ ان کے ساتھ جیلوں میں بھی رہے۔ سب کے سب چے گویرا نہیں ہوتے تھے لیکن بہت سے تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ پی پی پی پر لٹا دیا۔ آج وہ کہاں ہیں؟ بہت سے مر کھپ گئے لیکن بہتوں نے وہ راہ ہی چھوڑ دی۔ یعنی سلسلۂ سیاست کو ہی ترک کر دیا اور شاید اچھا کیا کیونکہ ایک دو کو میں جانتا ہوں جنہوں نے کاروباری لائن پکڑی اور آسودہ حال ہو گئے۔ 1983ء کی ایم آر ڈی تحریک شروع ہوئی تو چھوٹا موٹا احتجاج کمیٹی چوک راولپنڈی میں ہر شام ہوا کرتا تھا۔ ایک دو لیڈر قسم کے لوگ گرفتاریاں دینے آتے تھے۔ باقاعدگی سے ہم اسلام آباد سے آتے وہ منظردیکھنے۔ اب نہ وہ گرفتاریاں دینے والے رہے نہ اُس زمانے کا کمیٹی چوک۔ بہت حد تک پی پی پی کا وجود ہی راولپنڈی میں نہیں رہا۔ یہی حال باقی پنجاب میں ہے۔ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ پنجاب میں اتنا ضیا کی آمریت نے پی پی پی کو ختم نہیں کیا جتنا کہ لالچ اور پیسے کی سیاست نے۔ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم بنیں تو پیپلز پارٹی پیسے کی دوڑ میں لگ چکی تھی اور اس انداز سے کہ پیسے کے کلچر نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لیے سب کچھ ختم کر دیا۔
2014ء میں جب عمران خان اور وہ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری‘ جن پر اب ہنسی آتی ہے‘ نے اسلام آباد میں دھرنے دیے تو مجھے تحریک منہاج القرآن کے ورکروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ شیخ الاسلام تو اپنی جگہ بڑے فنکار ٹھہرے لیکن ان کے پیروکاروں میں‘ کیا مرد اور کیا خواتین‘ کیا کوٹ کوٹ کر جذبہ بھرا ہوا تھا۔ کئی بار آنکھوں سے دیکھا کہ پولیس نے ان پر چڑھائی کی اور ان جیالوں نے پولیس کی دوڑیں لگوا دیں۔ یاد رہے کہ یہی وہ لوگ تھے کہ جب ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ہوا اور منہاج القران کے چودہ اشخاص بشمول دو خواتین پولیس کی گولیوں سے گر پڑے تھے لیکن وہاں سے بھاگے نہیں کھڑے رہے۔ شیخ الاسلام کینیڈا میں مزے سے زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کے نامۂ اعمال میں اگر کوئی سب سے بڑی چیز لکھی گئی تو وہ یہ ہے کہ کیسے اپنی فنکاری پر انہوں نے اپنے پیروکاروں کا جذبہ قربان کر دیا۔ اس دھرنے میں ان کو نچانے والے اور تھے لیکن آنکھوں پر پٹی باندھ کر اپنی تنظیم کو بربادکر دیا۔ اور ایسا برباد کیا کہ وہ جذبہ پھر واپس نہ آ سکا۔
پی ٹی آئی والوں کے لبوں پر یہ سوال رہتا ہے کہ خان کب رہا ہو گا۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ چھوٹی کبڈی نہیں‘ لمبا کھیل ہے۔ تبدیلی کے امکانات تب ہی آتے ہیں جب کوئی فیصلہ کن موڑ آئے۔ وہ موڑ کب آئے گا کوئی کہہ نہیں سکتا۔ اس لیے اپنی طاقت کو بچائیے اور وقت کا انتظارکیجئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں