زندگی میں انسان کوئی کام شروع کرتا ہے اور وہ پھر ادھورا رہ جاتا ہے،لیکن بعض اوقات برسوں کے بعد وہ ادھورا چھوڑا سامنے آ جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک ”ادھورا کالم“ کچھ ضروری کاغذات کی تلاش کے دوران ملا جو میں نے پنجاب کی طاقتور اشرافیہ کی مرکزی رہائش گاہ ”جی او آر ون“ کے مرکزی گیٹ کے باہر شاہراہ قائداعظم پر رات 10 بجے کے قریب ایک انتہائی خوبصورت معصوم بچی کو بھیک مانگتے دیکھ کر لکھنا شروع کیا تھا، لیکن پھر مہینوں تک سڑکوں پر اسے ڈھونڈتا رہا کہ کاش وہ مل جائے تو کسی ادارے کے ذریعے اسے کسی ”محفوظ مقام“ پر پہنچا سکوں۔ وہ معصوم، ڈرا سہما چہرہ عرصہ تک میرے خوابوں میں آتا رہا، وہ گاڑیاں صاف کرنے والے کپڑے بیچنے کے لئے اشارے پر کھڑی تھی، کاش میں اس رات وہاں رُک جاتا، کاش اس رات وہاں کوئی پولیس والا ہوتا…… کاش، کاش، کاش…… لیکن اب اس کاش کا کیا فائدہ؟ خدا جانے اب وہ بچی کہاں ہو گی،خدا کرے وہ محفوظ ہو، کیونکہ اس بچی کو دیکھنے کے کچھ عرصہ بعد قصور میں ”زینب والا واقعہ“ ہوا جس میں قرآن پاک پڑھنے کیلئے جانے والی آٹھ سالہ زینب کو ریپ کر کے کوڑے پر پھینک دیا گیا۔ زینب کے قاتل کو تو عوام کے اشتعال میں سڑک پر نکل آنے کے بعد ”تلاش کرکے پھانسی“ دی گئی، اسے پھانسی کی سزا ہوئی، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ اور پھر صدرِ مملکت نے رحم کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ آج بھی حیرانی ہے کہ یہ سارا عمل 10ماہ میں مکمل ہو گیا۔ ملزم عمران کو سزا تو ملی لیکن اس زمانے میں عجیب و غریب کہانیاں بھی سننے کو ملیں۔ ایک مشہور ٹی وی اینکر نے ملزم کا تعلق ایک ڈارک ویب مافیا سے جوڑا، ملزم کے تین درجن بنک اکاؤنٹ بھی نکال دئیے، سیاسی تعلق بھی جوڑ دیا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے ایک ”خصوصی تفتیشی کمیٹی“ بناکر تفتیش کروائی اور جب کچھ نہ ملا تو عدالت کے سامنے اس اینکر نے شرمندگی کا اظہار کیا اور سکون سے چلتے ہوئے عدالت سے باہر آ گئے۔ کاش کہ ”اس طاقتور اینکر“ کو بھی جھوٹ بولنے کی سزا ملتی۔ زینب کے اس کیس کے بعد وہ بچی مجھے زیادہ یاد آئی۔ وہ کالم جو میں نے ادھورا چھوڑا تھا آج اس کو دہرائے دیتا ہوں، وہ ادھورا کالم اس طرح تھا۔
وہ رات کے اندھیرے میں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر لال پیلی سبز روشنی کے نیچے اکیلی کھڑی تھی، 8، 9 برس کی ایک بچی کو رات 10 بجے فٹ پاتھ پر اکیلا کھڑا دیکھ کر تعجب ہوا، مگر پھر اس کے ہاتھ میں گاڑیوں کی صفائی والے کپڑے دیکھ کر سمجھ آگئی کہ وہ یہاں کیوں کھڑی ہے، مگر اس میں آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں تھی۔اس کے چہرے پر موجود بے بسی اور بے چارگی دیکھ کر جیب میں ہاتھ ڈال کر چند روپے اسے تھما دئیے تو اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اس نے مجھے میری موٹر سائیکل کی صفائی کے لئے کپڑا دینے کی کوشش کی،میں نے انکار کیا تو بھی اس نے زبان سے کچھ نہیں کہا بس اپنی شکر گزار آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ اس نے کچھ اور موٹر سائیکل اور گاڑیاں والوں کو کپڑے بیچنے کے لئے پیش کئے تو چند دیگر موٹر سائیکل والوں نے بھی اسے کچھ روپے دیدیے۔اس نے پیسے لینے کے بعد پھر آسمان کی طرف دیکھا، سمجھ نہیں آتا آسمان آخر رویا کیوں نہیں؟اس دوران ٹریفک چل پڑی، میں نے بھی موٹر سائیکل آگے بڑھا دی،حالانکہ دِل کر رہا تھا کاش کوئی پولیس والا نظر آجائے تو اس بچی کو اس کے حوالے کردوں کہ خدا کے لئے اِسے کسی محفوظ جگہ پہنچا دو، لیکن اپنی ”شرافت کہوں یا بزدلی“ اس بچی کی اس وقت مدد کرنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ اس کے بعد روز دفتر آتے جاتے اس ”معصوم چہرے“ کو تلاش کرتا رہا، لیکن وہ پھر کبھی نظر نہیں آئی۔ کاش اس رات جی او آر ون کے سگنل پر ٹریفک پولیس والے تو موجود ہوتے، نجانے اس شام وہ کیوں نہیں تھے۔ اس بچی کا تصور آج بھی جب ذہن میں آتا ہے تو ”بیشمار کہانیاں“ یاد آجاتی ہیں۔ زینب کا کیس جنوری 2018ء میں ہوا، 2017ء میں قصور میں 12 بچیوں کو ریپ کیا گیا، جن میں سے پانچ کو قتل بھی کیا گیا۔ان کے ”قاتل عمران“ کو سزا مل گئی، مگر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ پولیس نے 2017ء میں ایک شخص کو بچیوں سے ریپ اور قتل کے جرم میں ”پھڑکا دیا“ تھا۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر وہ کون ”بے گناہ“ تھا یا وہ کون سا ”ملزم یا مجرم“ تھا جس کو پھڑکایا گیا۔ سوچتا ہوں کیا پولیس والوں کو سڑک کنارے بھیک مانگتی معصوم بچیاں نظر نہیں آتیں؟ٹریفک پولیس والے تو نرم دِل ہوتے ہیں، ان کو سگنلز پر کھڑی یہ معصوم بچیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ بچیوں، بچوں کے اغوا اور ریپ کے حوالے سے خبریں معمول ہیں۔ آخر یہ ہو کیا رہا ہے اور کیسے اور کیوں ہو رہا ہے؟ گلشن اقبال کراچی کی دو سالہ شمائلہ گھر سے نکلی غائب ہو گئی، ناظم آباد میں دو سال کا عزیز الرحمن گھر سے نکلا اور رکشے میں بیٹھی ایک عورت نے اسے گھسیٹ لیا۔ کراچی کے ایک ہسپتال میں جام پور سے آنے والی ایک ماں اپنی بچی کے ساتھ داخل تھی تو ایک عورت نے اسے کہا کہ ڈاکٹر بُلا رہا ہے اور جب وہ واپس آئی تو بچی غائب تھی، یہ کوئی نئے کیس نہیں ہیں۔ بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی ایک NGO ”روشنی“ کی رپورٹ ہے کہ کراچی میں ایک سال میں 1000بچے لاپتہ ہوئے جن میں 80 فیصد لڑکے تھے۔ روشنی کی رپورٹ کے مطابق ”ایک سے پانچ سال“ کی عمر گداگری کے لئے آئیڈیل ہوتی ہے کیونکہ ”چہرے جلدی بدل“ جاتے ہیں اور پھر والدین بھی پہچان نہیں پاتے۔ اس تنظیم کی رپورٹ یہ بھی ہے کہ پانچ سال اور اس سے زیادہ بڑی عمر کی بچیوں کو ”گداگری کے لئے نہیں ریپ“ کے لئے اُٹھایا جاتا ہے اور اکثر قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ریکارڈ پڑھ کے لگتا ہے ہم کسی جنگل میں رہتے ہیں جہاں شیر کو جب بھوک لگتی ہے تو شکار کرتا ہے، لیکن یہ ہمارے انسانی جنگل جہاں پیٹ بھرنے کے بعد بھی ”شکار جاری“ رہتا ہے، شیر تو پیٹ بھرنے کے بعد سو جاتا ہے، یہاں ”بھوکے بھیڑئیے“ تو پیٹ بھرنے پر بھی بھوکے ہی رہتے ہیں۔ ”بھوک ہے کہ ہوس“ ختم ہی نہیں ہوتی۔ خدا جانے ”یہ ہوس ہے یا بھوک“ جس کا شکار ”کمزور مظلوم عورتیں، گھروں سے باہر نکلنے والے چھوٹے بچے اور بچیاں“ بنتے ہیں۔ ان کا تحفظ کیسے ہو گا؟ مان لیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ”سزا جزا ہے“ لیکن اس سزا جزا کی ابتدا تو انسان کی اس دنیا سے رخصتی اور منوں مٹی کے نیچے جانے کے بعد شروع ہوتی ہے، لیکن زمین پر دندناتے یہ فرعون یہ ہوس کے پجاری یہ بچوں، بچیوں، لڑکیوں، عورتوں کے قاتل انہیں کسی نے تعلیم نہیں دی کہ اسلام میں سزا بہت سخت ہے یا شاید ان بھیڑیوں کے نزدیک موت کے بعد کوئی مرحلہ ہی نہیں ہے، گل سڑ جانا ہے بس کہانی ختم ہو جائے گی۔ مجھے یقین ہے جب تک ہم اسلام کی متعین کردہ سزاؤں پر عمل نہیں کریں گے یہ قاتل دندناتے پھرتے رہیں گے۔ خدا کرے وہ بچی جس کے لئے میں نے یہ ادھورا کالم برسوں پہلے لکھا تھا آج جہاں بھی ہو محفوظ ہو۔ آمین!