جنوری کا مہینہ جنوبی ایشیا کے عظیم رہنماؤں خان عبدالغفار خان اور خان عبدالولی خان کی برسیوں کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن خصوصاً ان کی بے مثال قربانیوں اور اصول پسندی کو یاد کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی پختون قوم کے حقوق، عدم تشدد کی جدوجہد اور سماجی انصاف کے لیے وقف کر دی۔ ان کی جدوجہد کا پیغام آج کی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
خان عبدالغفار خان، جنہیں دنیا “باچا خان” اور “سرحدی گاندھی” کے نام سے بھی جانتی ہے، اپنی زندگی کے ہر پہلو میں بے لوث خدمت اور اصول پسندی کی علامت تھے۔ وہ 1890 میں پشاور کے ایک گاؤں اتمانزئی میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی پختونوں کی پسماندگی اور برطانوی سامراج کے استحصال کو دیکھتے ہوئے گزری، جس نے انہیں اپنی قوم کو شعور اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عزم دیا۔ انہوں نے 1929 میں خدائی خدمتگار تحریک کی بنیاد رکھی، جو سرخ قمیصوں کے لباس کے ذریعے پہچانی جاتی تھی۔ یہ تحریک صرف سیاسی آزادی تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد پختون قوم کو تعلیمی، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں خودمختار بھی بنانا تھا۔
باچا خان، جنہیں “فخرِ افغان” بھی کہا جاتا ہے، ایک عظیم رہنما، مصلح، اور تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایک ایسی کنجی تھی جو کسی بھی قوم کو ترقی، شعور، اور خودمختاری کی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ جہالت اور انتہا پسندی وہ مسائل ہیں جن کا خاتمہ صرف تعلیم کے ذریعے ممکن ہے۔ اسی نظریے کے تحت، انہوں نے پختون علاقوں میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے، جن میں “آزاد اسکول” کا قیام نمایاں تھا۔ ان اسکولوں کا مقصد صرف رسمی تعلیم نہیں تھا بلکہ نوجوان نسل میں سماجی شعور، برداشت، اور امن کے اصولوں کو بھی فروغ دینا تھا۔
باچا خان کا فلسفہ تھا کہ ظلم اور جبر کے خلاف لڑائی تشدد یا انتقام کے ذریعے نہیں، بلکہ علم، شعور، اور عدم تشدد کے ذریعے جیتی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے اس پیغام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے گاندھی جی کے ساتھ مل کر برطانوی سامراج کے خلاف عدم تشدد کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کی تحریک صرف سیاسی آزادی کے لیے نہیں بلکہ سماجی اصلاحات، نسلی اتحاد، اور مساوات کے اصولوں پر بھی مبنی تھی۔
باچا خان کی جدوجہد آسان نہیں تھی۔ انہوں نے تقریباً 30 سال جیل میں گزارے، جہاں انہیں جسمانی اور ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود، انہوں نے اپنے اصولوں اور عدم تشدد کے نظریے سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک سیاسی رہنما تھے بلکہ ایک اخلاقی رہنما بھی تھے، جنہوں نے اپنی قوم کو امن، تعلیم، اور شعور کی روشنی دی۔
تقسیمِ ہندوستان کے وقت باچا خان نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی کیونکہ ان کے نزدیک یہ تقسیم برصغیر کے عوام کو مزید تقسیم در تقسیم اور محرومی کا شکار کرے گی۔ تاہم، جب پاکستان وجود میں آ گیا تو انہوں نے حقیقت کو قبول کیا اور کہا: “اب جب پاکستان بن گیا ہے تو اسے بگاڑو نہیں بلکہ ترقی کے میدان میں آگے بڑھو۔”
باچا خان نے امن، مساوات، اور خصوصاً پختون عوام کے حقوق، تعلیم، اتحاد، اور خودمختاری کے لیے اپنی جدوجہد پوری زندگی جاری رکھی۔ ان کا انتقال 20 جنوری 1988 کو ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن کیا گیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ پختونوں کا اتحاد جغرافیائی سرحدوں سے بالاتر ہے۔ آج ان کی قبر امن، برداشت، اور اتحاد کی ایک روشن علامت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ باچا خان کا پیغام دنیا بھر کے انسانوں کو ظلم کے خلاف مزاحمت، عدم تشدد کی راہ اختیار کرنے، اور انسانیت کے اعلیٰ اقدار کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔
باچا خان کے بیٹے، خان عبدالولی خان، نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پختون قوم کی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ 17 جنوری 1917 کو اتمانزئی میں پیدا ہونے والے ولی خان نے اپنی عملی سیاست کا آغاز خدائی خدمتگار تحریک سے کیا۔ وہ اپنے والد کی طرح عدم تشدد کے حامی تھے اور برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد میں اپنے والد کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد، انہوں نے پختون قوم کے حقوق، سماجی انصاف، اور جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد کو ایک نئے رخ پر ڈالا۔
ولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی بنیاد رکھی، جو پختونوں کے حقوق کے لیے ایک مضبوط اور موثر سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوئی۔ یہ جماعت صرف پختونوں کے حقوق کی علمبردار نہیں تھی بلکہ اس کا نظریہ تمام قوموں کے مساوی حقوق، وفاقیت، اور آئین کی بالادستی پر مبنی تھا۔ ولی خان کا یقین تھا کہ پاکستان کی سالمیت، استحکام، اور ترقی صرف اسی صورت ممکن ہے جب ملک میں بسنے والی تمام قومیتوں کے ساتھ انصاف کیا جائے اور انہیں مساوی حقوق، وسائل میں شراکت، اور شناخت دی جائے۔
ولی خان نے اپنی سیاست میں ہمیشہ جمہوری اصولوں کو مقدم رکھا۔ وہ ہر اس اقدام کے شدید ناقد تھے جو غیر آئینی ہوتا یا عوامی حقوق کو غصب کرتا۔ ان کی جدوجہد صرف پختونوں کے سماجی، اقتصادی، اور سیاسی حقوق تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ پورے ملک میں ایک ایسا نظام چاہتے تھے جہاں کوئی بھی قوم یا طبقہ محرومی کا شکار نہ ہو۔
انہوں نے پختونوں کی ترقی کے لیے ہمیشہ ایک جامع منصوبہ بندی کی حمایت کی، جو تعلیم، معیشت، اور سیاسی شعور کو فروغ دینے پر مبنی ہو۔ ولی خان کی سیاست کا محور جمہوریت، عدم تشدد، اور آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے ترقی کے حصول پر مرکوز تھا۔ ان کے نزدیک عوام کی حقیقی ترقی اسی وقت ممکن تھی جب جمہوری اصولوں کا احترام کیا جائے اور تمام فیصلے عوام کی شمولیت سے کیے جائیں۔ ان کا نظریہ آج بھی پاکستان میں مساوات، اتحاد، اور آئین کی بالادستی کے لیے ایک روشن مثال ہے۔
ولی خان کی سیاسی اور سماجی جدوجہد آسان نہیں تھی۔ انہیں اپنی اصولی سیاست کی وجہ سے کئی بار جیل جانا پڑا، اور ان کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو بھی مختلف ادوار میں سخت پابندیوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود، ولی خان اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے اور کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
ان کی قیادت میں پختون قوم نے اپنے حقوق کے لیے نہ صرف کامیاب آواز بلند کی بلکہ پاکستان کی قومی سیاست میں ایک نمایاں اور تعمیری کردار ادا کیا۔ ولی خان نے پختونوں کو سیاسی شعور دینے، جمہوری عمل میں ان کی شمولیت یقینی بنانے، اور تمام اقوام کے مساوی حقوق کے لیے بے پناہ محنت کی۔ وہ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ ترقی اور استحکام صرف جمہوری اقدار اور آئین کی بالادستی کے ذریعے ممکن ہے۔
ولی خان کا انتقال 26 جنوری 2006 کو ہوا، لیکن ان کی جدوجہد آج بھی ایک تحریک کی صورت میں زندہ ہے۔ ان کے اصول اور نظریات نہ صرف عوامی نیشنل پارٹی بلکہ پاکستان کے ہر اس فرد کے لیے مشعل راہ ہیں جو مساوات، انصاف، اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ ان کی شخصیت اور جدوجہد پختونوں اور دیگر اقوام کے لیے ایک یادگار ورثہ ہے، جو ہمیشہ انصاف، امن، اور حقوق کے حصول کے لیے تحریک دیتی رہے گی۔
باچا خان اور ولی خان کی برسیوں کے موقع پر ہر جمہوریت پسند اور حق پرست کو ان کے پیغامات اور جدوجہد کو یاد رکھنا چاہیے، کیونکہ ان کی زندگیاں اصول پسندی، مساوات، اور عدم تشدد کی عملی تصویر تھیں۔ ان دونوں رہنماؤں نے اپنے الفاظ اور عمل سے یہ ثابت کیا کہ حقیقی قیادت صرف اقتدار کے حصول کا نام نہیں بلکہ خدمت، عاجزی، اور اٹل اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ ان کی قربانیاں اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ سماجی انصاف اور امن کے قیام کے لیے مسلسل جدوجہد اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
باچا خان اور ولی خان کا نظریہ آج بھی ایک نئی نسل کو یہ سکھاتا ہے کہ معاشرے کی ترقی صرف اور صرف تعلیم، شعور، اور اتحاد کے ذریعے ممکن ہے۔ یہ رہنما ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ ترقی کی بنیاد امن
اور علم پر ہے، نہ کہ تشدد، جنگجو پن، یا دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہونے پر۔ ان کا ماننا تھا کہ طاقتور بننے کے لیے بندوق اٹھانے کی نہیں بلکہ شعور کی روشنی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
کاش آج کے پختون ان رہنماؤں کے پیغام کو سمجھ سکیں اور جان سکیں کہ ان کی حقیقی ترقی، خودمختاری، اور شعور کا راز کسی نام نہاد بہادری، جہادی جذبات، یا ہر کسی کو اپنا کندھا دینے میں نہیں، بلکہ تعلیم، اجتماعی شعور، اور جمہوری اقدار کو اپنانے میں پوشیدہ ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو نہ صرف انفرادی زندگی بلکہ قوموں کی تقدیر کو بھی بدل سکتی ہے۔ ان کی زندگیوں کے یہ سبق آج کے دور میں اور بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، جب دنیا کو امن، مساوات، اور انصاف کے اصولوں کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔