یہ تاثر ان دِنوں عام ہے کہ بیورو کریسی مختلف احتسابی عوامل کے ڈر کی وجہ سے اپنے فرائض انجام دینے سے ہچکچاتی ہے، اور اب اس تاثر کی تصدیق ایک مستند تحقیق نے بھی کی ہے، جس میں اس کو بنیاد بنا کر انتظامیہ میں جلد سے جلد تبدیلیاں لانے کی سفارش کی گئی ہے،تحقیقی جائزے میں شامل افراد سے پوچھا گیا کہ وہ بیورو کریسی میں فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں پائی جانے والی ہچکچاہٹ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اس ہچکچاہٹ کی وجہ بننے والے عناصر کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، عام لوگوں اور سول سرونٹس کے جوابات گہری سنجیدگی کے متقاضی ہیں۔اگرچہ سول سرونٹس کی اکثریت کا ماننا ہے کہ وہ محنتی ہیں اور پیچیدہ مسائل حل کرنا بھی جانتے ہیں، تاہم کام میں ان کی ہچکچاہٹ کے بارے میں عوامی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ بیورو کریسی آئین،قانون اور ضوابط والے فیصلے نہیں لے رہی، بیورو کریسی ذمہ داری سے کترا رہی ہے،عوام کو بیورو کریسی تک رسائی حاصل نہیں،بیورو کریسی میں مسئلے کو حل کرنے کا رجحان نہیں پایا جاتا اور بیورو کریسی عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی ہے۔کچھ عرصہ قبل تک نیب کو بیورو کریسی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا،حکمرانوں،بالا دست ریاستی اداروں کا دباؤ،احتسابی اداروں کی مداخلت اور باز پرس بیورو کریسی کے آزادانہ فرائض انجام دینے میں آڑے آتی رہی، حکمرانوں کی نہ مانو تو وہ ناراض اور فوری ناپسندیدہ جگہ تبادلہ یا ایس اینڈ جی اے ڈی رپورٹ کی ہدایت یا کھڈے لائین لگنے کا خوف، حکومت جن سول سرونٹس کو سیاسی مخالفین کے قریب تصور کرتی تھی ان کے خلاف نیب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا،سول سرونٹس کے لئے عام طور پر کافی توہین اور ذلت آمیز احتسابی عمل پایا جاتا تھا، کیونکہ نیب سول سرونٹس کے خلاف میڈیا میں خبریں لیک کرنے کا اہتمام بھی کرتی رہی ہے۔
بیورو کریسی کو عدلیہ سے بھی شکایت رہی،انتظامی معاملات میں عدلیہ کی دخل اندازی کو غیر معقول عمل سمجھا جاتا ہے، کثرت سے سوموٹو ایکشن کا استعمال انتظامی فیصلہ سازی کے عمل کے لئے خوفناک عمل تھا،،سرکاری ملازمین عدالتی احتساب کے ڈر سے فیصلوں میں تاخیر سے فیصلے کرتے جا بجا اعتراضات عائد کئے جاتے،فائلیں روک لی جاتیں یا اپنی سے کسی دوسری میز پر شفٹ کر دی جاتیں، پیشیوں کے دوران عدالتوں میں بیورو کریسی کی تذلیل ہوتی،سول سرونٹس کے حوالے سے مین سٹریم میڈیا کا رویہ بھی غیر منصفانہ رہا،انتظامی فیصلوں کو درست طریقے سے رپورٹ نہیں کیا جاتا،میڈیا سنسنی خیزی سے اجتناب نہ کرتا، سیاسی اثر و رسوخ کے حوالے سے اکثریتی رائے کچھ یوں تھی کہ سیاستدانوں اور سول سرونٹس کا گٹھ جوڑ زمینی حقیقت ہے،اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے ترقیاتی کام تعطل کا شکار ہوتے رہے اوراس گٹھ جوڑ کی وجہ سے مالی کرپشن کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
بیورو کریسی کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے مختلف اوقات دانشوروں،صحافیوں،سابق بیورو کریٹ کی طرف سے تجاویز آتی رہی ہیں،جن کا مختصر احاطہ یقینی طور پر وقارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا، تجاویز دی گئیں، فیصلہ سازی سے متعلق چیلنجز کو تسلیم کیا جائے، بیورو کریسی اور احتسابی اداروں کے درمیان حریفانہ کشمکش ختم کر کے دونوں کے درمیان پائیدار اور باہمی احترام کے روابط استوار کئے جائیں،حکمرانوں،ارکان اسمبلی،وزراء حکومتی جماعت کے رہنماؤں کی مداخلت ختم کر کے بیورو کریسی کو مالی اور انتظامی طور پر خود مختار بنایا جائے،عدالتی نگرانی لازمی ہے،لیکن سول سرونٹس کی ذاتی حیثیت میں تذلیل نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی اس سے فیصلہ سازی کا ماحول بہتر بنانے میں کوئی مدد حاصل ہوتی ہے،بیورو کریسی میں موجود فیصلہ سازوں کو سیاسی”بڑوں“ کے ناجائز اثر و رسوخ سے بچائے رکھنے کی عملی،مگر موثر کوشش کی جائے،فیصلہ سازی کے عمل میں تعطل کی وجوہات کا سراغ لگانے کا کوئی میکنزم بھی ضروری ہے،داخلی ضابطہ اخلاق اور نظم و ضبط کو سختی کے ساتھ نافذ کئے جانے کی ضرورت ہے۔سول سرونٹس کو لاحق خوف کے پیچھے دیگر محرکات جیسے احد چیمہ اور فواد حسن کی گرفتاری، بریگیڈیئر اسد منیر کی خودکشی اور سول سرونٹس کے خلاف متعدد کیسز شامل ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ چونکہ نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے متعدد افسروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اس لئے بیورو کریسی موجودہ احتسابی مہم کے باعث خوف کا شکار ہے۔
ایوب، یحییٰ، بھٹو اور ضیاء الحق کی جانب سے بیورو کریسی کو ”پاک صاف“ کرنے کی جو کوششیں کی گئی تھیں،انہیں بیورکریسی اب تک بھولی نہیں، نواز شریف جن بیورو کریٹس پر مہربان تھے انہیں خوب نوازا، مگر جن کے مخالف تھے ان کے خلاف انتقامی کارروائی سے بھی گریز نہیں کیا،شہباز شریف کا دور بیورو کریسی کے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھا،تاہم مریم نواز نے بیورو کریسی کے حوالے سے رویہ مشفقانہ رکھا ہے،یہ ضروری بھی ہے اِس لئے کہ مفاد عامہ سے متعلق بیورو کریسی کی بے حسی پر شہری بھلے ہی شکایات کرتے ہوں،لیکن ایک موثر بیورو کریسی ایماندار افسروں کے تحفظ کی گارنٹی کے بغیر ملک کا نظام چلانا مشکل ہو جاتا ہے،ایسے ایماندار افسر جو بالخصوص اپنے سیاسی باسز کو درست مشورہ دے سکتے ہوں۔
یہ بات مسلمہ حقیقت ہے اور پوری دنیا اسے تسلیم کر چکی ہے کہ پالیسیوں میں تسلسل،قوانیں پر یقینی عملدرآمد،گڈ گورننس صرف اچھی،محنتی،قابل اور اہل بیورو کریسی کے ذریعے ہی ممکن ہے، مگر اس کے لئے ضروری ہے سول سرونٹس کو ریاستی ملازم کا درجہ دیا جائے حکومتی یا ذاتی ملازم کا نہیں،اختیارات کے ساتھ اگر بیورو کریسی کو اعتماد بھی دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کوئی حکومت ناکام ہو اور عوام کو ریلیف دینا ممکن نہ رہے،اگرچہ بیورو کریسی بھی رکاوٹ بنتی ہے اور مزاحمت کرتی ہے لیکن تب جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ان پر زیادہ بوجھ آئے گا یا ان پر سختی ہو سکے گی،لیکن اس میں پیمانہ یہی ہونا چاہئے کہ عام لوگوں کے کام نہ رُکیں اور اس کا اہتمام کرنے کی ذمہ داری بیورو کریٹس سے زیادہ وقت کی حکومت پر عائد ہوتی ہے،حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ وہ پانچ سال کے لئے آئے ہیں جبکہ بیورو کریٹس کم از کم 25 سال تک ریاست کا ملازم ہوتا ہے، اسے سابق حکومت کے طریقہ کار اور پالیسیوں کا بھی کما حقہ علم ہوتا ہے اور نئی حکومت کی پالیسیوں سے بھی آگاہ ہوتا ہے اِس لئے اس سے بہتر کوئی مشیر بھی میسر نہیں آ سکتا نہ اس سے بہتر کوئی حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنا کر عام شہری کو کوئی ریلیف دے سکتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ان کے طرزِ حکومت پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے سرکاری ملازم پر حکومت سیاسی ساتھیوں سے زیادہ اعتماد کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ حکومت اور بیورو کریسی ایک دوسرے کے دشمن نہیں،بلکہ دست و بازو ہوتے ہیں اسی وجہ سے ان ممالک میں مالی اور انتظامی بدعنوانی کا تصور نہیں کیا جا تا،آج بھی اگر کوئی حکمران چاہے کہ وہ پانچ سال کے عرصہ میں ڈیلیور کرے، عوام کو ریلیف دے اور معاشی انتظامی بحران کا خاتمہ کرے تو اسے بیورو کریسی کو بہت زیادہ بھی نہیں تو صرف اسے آئین میں حاصل خود مختاری ضرور دینا ہو گی۔