بیوروکریسی پر ہی تنقید،کیوں؟

عملی طور پر آج پاکستان کا ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اپنی اہمیت ہی کھو بیٹھا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے ملکی اور ادارہ جاتی معاملات ڈنگ ٹپاؤ طریقے سے چلتے دکھائی دے رہے ہیں،ہماری یہ بھی بد قسمتی ہے کہ ہر ادارہ اپنا کام کرنے کی بجائے دوسرے ادارے میں نقص نکالنے کے لئے اپنا قیمتی وقت برباد کرتا رہتا ہے، اور آخر میں تمام ملبہ اس ملک کے اہم ترین ادارے بیوروکریسی پر ڈال دیا جاتا ہے، دور کیا جانا آج کل کے حالات بھی ایسے ہی ہیں، سیاستدانوں سمیت تمام اداروں نے بیوروکریسی کو ایک گالی بنا کر رکھ دیا ہے ایک خاص سوچ کے تحت بیوروکریسی پر چاروں طرف سے حملے کئے جا تے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس ملک کے مسائل اور مشکلات کا ذمہ دار صرف یہی ادارہ ہے،،کج سانوں مرن دا شوق وی سی،، کے مصداق بیوروکریسی کی اکثریت نے بھی اپنی بربادی کے فسانے لکھنے میں کمی نہیں کی مگر پھر بھی سول سروس میں کچھ سر پھرے ابھی تک اپنی سروس کے تقدس کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔،پچھلے دنوں میں نے ایک امریکی یونیورسٹی کے ڈاکٹر میتھیوہل کی کتاب کے حوالے سے انکے پاکستانی بیوروکریسی کے متعلق خیالات آپ تک پہنچائے تھے،یقینی طور پر وہ تصویر کا ایک رخ تھا،دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستانی بیوروکریسی اور اس کے سسٹم کی وجہ سے ہی یہ ملک چل رہا ہے،میں پچھلے تیس پینتیس سالوں سے حکومتوں اور سرکاری دفاتر کی کارکردگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، میرے اپنے تجربے اور مشاہدے کے مطابق پاکستانی بیوروکریسی اور سسٹم کے بارے میں لوگوں کی اکثریت کا تصور اور خیالات یکطرفہ ہیں۔ ان خیالات کے مطابق،، ہماری بیوروکریسی کی ساخت برطانوی اور نوآبادیاتی آقاؤں نے اپنے مفادات کے لیے تیار کی تھی اور اب یہ ڈھانچہ پرانا اور بہت سی خامیوں کا شکار ہے، یہ نہ تو عوامی ضروریات کو پورا کر رہا ہے اور نہ ہی عوامی خدمات کی جدید ضروریات کو سامنے لا رہا ہے،،۔ میرا ابتدائی سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظام اتنا ہی برا تھا تو پھر بھارت اور یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے اس پرانے نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا کیوں نہیں پایا اور وہ کیوں اسی نظام کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ برقرار رکھے ہوئے ہیں؟ مزید برآں، ان کی معیشتیں پاکستان سے بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں اور ان کے لوگ نسبتا بہتر زندگی گزار رہے ہیں اور وہ بھی اسی پرانے انتظامی ڈھانچے کے تحت،جس کے متعلق ہم پاکستان میں منفی باتیں کرتے ہیں،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی کے ڈھانچے اور سروس کے حالات میں بار بار کی جانے والی انتظامی اصلاحات مطلوبہ نتائج دینے میں کیوں ناکام رہی ہیں؟ ہم سب بیوروکریٹس کی رہایشی کالونیوں جی او آرز پر سخت تنقید کرتے ہیں مگر کبھی کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ رہایش گاہیں ایک ایسے سسٹم کا حصہ ہیں جو انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کی بہتر ادائیگی کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں اور ایسی ہی رہائشیں لاہور کے میو گارڈنز، پنجاب بھر کی ایریگیشن کالونیوں اور کنٹونمنٹس میں موجود افسروں کے لیے بھی بنائی گئی تھیں۔

آج بھی پاکستان میں سول سرونٹس ابتدائی بھرتی سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر ترقی تک ایک سلسلہ وار تربیت سے گزرتے ہیں، جو کیریئر کی ترقی یا اعلیٰ درجوں میں ترقی کے لیے لازمی شرط ہے، وفاقی پبلک سروس کمیشن میں ایک انتہائی محنتی ،ذہین اور دور اندیش ڈپٹی چئیرمین نے دو ہزار تیرہ،چودہ میں سی ایس ایس کے امتحان کے نصاب کو نئے اور مستقبل کے موضوعات جیسے آئی ٹی اور مینجمنٹ سائنسز وغیرہ کو شامل کرنے کے لیے نظرثانی کی ،جس کے لئے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور سارک ممالک کی سول سروسز کے ایسے مقابلے کے امتحانات کے نصاب کا مطالعہ کیا گیا اور بہترین طریقوں کو اپنایا گیا۔ اسی طرح، آئی کیو، جذباتی پختگی، پیشہ ورانہ مہارت اور تعلیمی قابلیت جیسے عوامل کے معاملات کو بھی شامل کیا گیا۔ بدقسمتی سے، مسئلہ بھرتی کے نظام یا سروس کلچر میں نہیں ہے، خرابی سیاسی قیادت کے اقدامات میں ہے، ان لوگوں میں ہے جو حکومت کے نظام کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، طویل عرصے سے، سیاسی حکمرانوں میں ویژن یا متحرک قیادت کا فقدان ہے جو ملک کو استحکام اور معاشی ترقی کے دور میں لے جانے کے لیے کوئی روڈ میپ تیار کر سکے، عارضی انتظامات کیے جاتے ہیں، پسندیدہ افراد کو ترجیح دی جاتی ہے اور انہیں اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے، اور یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو کوئی بھی بامعنی تبدیلی لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

یہ وہی بیوروکریسی ہے جو ایوب خان اور ضیاء الحق کے دور میں خدمات انجام دے رہی تھی اور اْس وقت ترقی کی شرح 7 فیصد تھی، ان دنوں، میرٹ پر مبنی نظام موجود تھا اور سرکاری ملازمین نے حکومتوں کو عوامی خدمت کی منصفانہ اور عمدہ فراہمی کے لیے پالیسیوں کی تشکیل میں مدد کی۔ سروس ڈیلیوری میں مجموعی طور پر تنزلی اس وقت آئی جب سیاسی قیادت میں کم صلاحیت کے حامل لوگ داخل ہو گئے جنہوں نے ایڈہاک ازم اور اقربا پروری پر یقین رکھا۔ بیوروکریٹس کو گروہوں اور کارٹلوں میں تقسیم کر دیا گیا، ان کی انفرادی قابلیت یا مہارت کو کبھی نہیں دیکھا گیا، سیاسی وابستگی ہی واحد معیار یا سیڑھی بن گئی ہے جو ترقی کے لیے استعمال کی جاتی ہے، نتیجتاً، وہ وقت گزارنے والے بن چکے ہیں۔ اس انتشار میں، بیوروکریٹس اکیلے مجموعی زوال کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ 1973 اور 2001 کی انتظامی اصلاحات کے بعد، پاکستان میں بیوروکریسی کے پاس سیاسی قیادت کی تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ تقرری، ترقی اور کیریئر کی ترقی اب سیاستدانوں اور سیاسی آقاؤں کی صوابدید پر منحصر ہے جو اس وقت نظام چلا رہے ہیں،کسی ضمانت کی عدم موجودگی میں، کون اپنی گردن آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا؟ 1985 کے بعد کے چند عشروں نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ عہدے اور پوسٹنگز کو مزارات پر نذر نیاز کی طرح تقسیم کیا جاتا ہے، پے در پے حکومتوں نے سرکاری ملازمین کی عزت اور میرٹ کو کچل دیا ہے، آپ کو اوپن مارکیٹ سے کبھی بھی ایسے باصلاحیت لوگ نہیں ملیں گے،سیاستدانوں نے اتنے نئے چہرے شامل کیے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ہمیں اور ہماری حکومتوں کو چاہئے کہ اپنے سرکاری ملازمین کی عزت کریں اور انہیں اپنائیں مگر مغلوں کی طرح برتاؤ کرنا چھوڑ دیں اور درباری بھرتی بند کردیں۔

بیوروکریسی کسی حکومت کا چہرہ ہی نہیں ہوتی بلکہ حکمرانوں اور عوام میں پل کا کردار بھی ادا کرتی ہے،کسی بھی بحرانی دور میں عام شہری کو ریلیف دینا ،حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں پر بہترین پیرائے میں عملدرآمد اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، عام شہری کیلئے اصل حکومت بیوروکریسی ہی ہوتی ہے جسے انتظامیہ بھی کہا جاتا ہے اور ریاست کا تیسرا ستون بھی تسلیم کیا جاتا ہے،یورپ اور امریکہ کی کئی ریاستوں میں ایک مضبوط،خود مختار بیورو کریسی ہی حکومتوں کی کامیابی کا سبب ہیں،یہ حقیقت دنیا بھر میں مسلمہ ہے کہ اچھی حکومت کے قیام کیلئے اچھی،تجربہ کار،تعلیم یافتہ اور اپنے شعبہ میں ماہر بیوروکریسی ناگزیر ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں