سموگ اور ہمارے بیان…………!

پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے ایک ایسے مسئلے سے دوچار ہے جس کا حل کئی ترقی یافتہ اور متعدد ترقی پذیر ممالک کامیابی سے کر چکے ہیں، لیکن ہم نے اس مسئلے کو نظرانداز کیا اور نتیجہ یہ ہے کہ آج اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سموگ کی وجہ سے ایک سے پانچ سال کے ایک کروڑ سے زیادہ بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، لیکن ہم آج بھی سوچ رہے ہیں کہ کرنا کیا ہے؟ ہم دنیا سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ لاہور جو کبھی باغوں کا شہر تھا، جہاں ہر طرف سبزہ اور ہریالی تھی، اسی لاہور میں ”جنگل“ بھی تھا۔ مقبرہ جہانگیر کے گرد کھجوروں کے درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ تھے۔ بند روڈ کے ساتھ متعدد ”قدرتی میاواکی جنگل“ موجود تھے۔لاہور شہر کے اندر نہر کنارے صرف درخت تھے اور سموگ کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا، لیکن پھر ہم نے وہ درخت کاٹ دئیے۔ ان ممالک سے جو اِس وقت سموگ سے لڑرہے تھے ان سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نتیجہ آج ہماری جان پر بن آئی ہے، لیکن اس سب کے باوجود ہم آج بھی بیان بازی پر زور دے رہے ہیں۔ سب سے اچھا بیان مجھے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا لگا کہ جنہوں نے مجھ سمیت لاہور کے ڈیڑھ کروڑ اور ملتان کے 40، 50 لاکھ شہریوں کو پنجاب چھوڑ کر کراچی آنے کی دعوت دی کہ آؤ پُرفضاء ماحول میں زندہ رہو۔ بلاول بھٹو سے درخواست ہے اپنے بلاول ہاؤس اور اسکے اردگرد کے ماحول کو ہی کراچی نہ سمجھیں۔ اپنے کسی ملازم کی سوزوکی مہران یا موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر کراچی کا دورہ فرمائیں، اگر اسکے بعد وہ یہ کہہ سکیں کہ ”سب اچھا ہے“ تو پھر بھی ہم کراچی نہیں جائیں گے۔ ایک بیان وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کا ہے، انکا کہنا ہے سموگ کا مسئلہ برسوں پرانا ہے راتوں رات حل نہیں ہو گا۔ یقینا اس میں کوئی شک نہیں، لیکن ساتھ ہی انہوں نے نیچے ایک ایسا جملہ کہا جو میرے اوپر سے گزر گیا۔ انہوں نے فرمایا ماضی میں اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا، سمجھ نہیں آرہی کہ ماضی سے ان کی کیا مراد ہے؟ پنجاب میں تو 1982ء سے 2018ء تک صرف 10 سال کے علاوہ انکے خاندان کی حکومت تھی اور اب پھر ہے، یعنی اگر ماضی میں کچھ اچھا نہیں ہوا تو یہ ذمہ داری مریم بی بی کے خاندان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ مریم نوازشریف کا کہنا ہے کہ سموگ کے مسئلے سے نبٹنے کے لئے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ سے بھی رابطہ کریں گے، مگر وہ بھول گئی ہیں کہ 2017ء میں ان کے چچا اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بھارتی پنجاب کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کو ایک چٹھی بھیجی تھی جس میں سموگ سے نبٹنے کے لئے ”ریجنل کوآپریشن“ کا لفظ استعمال ہوا تھا۔ مریم نوازشریف کے بیان پر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگوت مان سنگھ کہتے ہیں کہ ”پاکستانی پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کہتی ہیں کہ دھواں ہماری طرف سے ان کے پنجاب جاتا ہے، جبکہ دہلی والے بھی کہتے ہیں کہ ان کی طرف دھواں پنجاب سے آتا ہے“۔ انہوں نے کہا یہ کیسا دھواں ہے جو چکر کھاتا ہے، کمال ہے۔ ان بیانات کے بعد کچھ عدالتی بیانات بھی ہیں جو ”خاصے حوصلہ افزاء“ ہیں، جیسے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم کا کہنا ہے کہ حکومت فوری طور پر ایک 10سالہ پالیسی بنائے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کو کنٹرول کرے، زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بننے نہ دی جائیں۔ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کی جسٹس مسرت ہلالی کہتی ہیں خرابی کی وجہ ملک میں ہر جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کا بنایا جانا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کہتے ہیں سموگ صرف پنجاب یا اسلام آباد کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ گاڑیوں کا دھواں ہے، جسٹس نعیم اختر افغان کہتے ہیں قدرت نے ہمیں زرخیز زمین دی اور ہم اسے ختم کر رہے ہیں۔ یہ وہ بیان ہیں جو ہمیں حوصلہ دیتے ہیں کہ شاید کچھ بہتر ہوجائے گا، لیکن جو ہونا چاہئے وہ نہیں ہو رہا۔ آج ہمارے ہاں پروازیں منسوخ ہو رہی ہیں، موٹرویز بند کی جاتی ہیں، ٹرینیں گھنٹوں تاخیر کا شکار ہیں، مسائل ہی مسائل ہیں، بیماریاں پھیل رہی ہیں،ہسپتالوں میں بیماروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر ہم فوری اقدامات نہیں کر رہے۔جب پرانے لاہور کی بات ہوتی ہے تو لاہور ”اومنی بس سروس“ کو کیسے کھایا گیا یاد آ جاتا ہے۔ اربوں کھربوں روپے مالیت کے لاہور اومنی بس سروس کے ڈپو کیسے کوڑیوں میں بانٹ دئیے گئے۔ بھارت کا دارالحکومت دہلی بھی آج برے حال میں ہے، وہاں بھی لاہور والا حال ہے، لیکن وہاں ”جنگ“ جاری ہے، وہاں پر انہوں نے ماحول کو ٹھیک کرنے کے لئے عرصہ پہلے اقدامات شروع کئے تھے۔ آج دہلی میں 400 کلومیٹر میٹروٹرین چلتی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کی 7000 بسیں شہر میں چلتی ہیں۔ 2015ء کے بعد شہر سے پرانی گاڑیوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی کی گئی ہے، اس کے باوجود وہاں بُرا حال ہے، لیکن اقدامات کئے جا رہے ہیں اور بہتری بھی آ رہی ہے۔ برطانیہ میں 1952ء میں ایسی ہی سموگ سے 10ہزار افراد صرف چار دن میں دنیا سے چلے گئے تھے۔اس کے بعد انہوں نے کوئلے کا استعمال ختم کیا،رہائشی عمارتوں میں گرمائش کے لئے کوئلے کا استعمال بند کر دیا، آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں پر پابندیاں لگائی گئیں اور پھر بہتری آئی۔ چین نے گزشتہ چند برسوں میں بیجنگ میں فضائی آلودگی میں تقریباً 50 فیصد کمی کر لی ہے۔اس کے لئے انہوں نے کوئلے کے پاور پلانٹ ختم کئے ہیں (جملہ معترضہ یہ ہے کہ وہ پاور پلانٹ وہاں سے خرید کر ہم نے اپنے ملک میں لگائے ہیں) بیجنگ میں فضائی آلودگی سے نبٹنے کا بجٹ 2013ء میں 430 ملین ڈالر تھا،جو اب دو ارب 60 کروڑ ڈالر ہو چکا ہے۔ لاہور میں آج 50 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں ہیں، جبکہ لاکھوں گاڑیاں اس کے علاوہ ہیں۔ چند سال پہلے لاہور کینال پر ٹھوکر نیاز بیگ سے جلوموڑ تک بسیں چلتی تھیں۔اب لوگ چنگ چی رکشوں اور دوسری سواریوں میں سفر پر مجبور ہیں۔ پھر ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اقدامات کر رہے ہیں،ہم تو بس سکول بند کر رہے ہیں، کاروبار بند کر رہے ہیں اور یہ اس سال نہیں پچھلے سال بھی ہم نے یہی کچھ کیا تھا۔ اس کے باوجود امید ہے کہ ہمارے ”لیڈران“ صرف بیان بازی تک محدود نہیں رہیں گے اور ویسے ہی اقدامات کریں گے جیسے برطانیہ میں کئے گئے یا جیسے چین نے کئے۔ چین تو ہمارا بہت قریبی دوست ہے، ہم اس سے مشورہ بھی لے سکتے ہیں۔ بھارت ہمارا دشمن سہی مگر ہم دہلی سے کچھ سیکھ تو سکتے ہیں۔ آلودہ ترین شہروں میں لاہور کا مقابلہ کرنے والا دہلی اگر آج 400 کلومیٹر میٹرو کی پٹری بچھانے اور سات ہزار بسیں چلانے کے باوجود آلودہ ترین شہر ہے تو ہم نے تو ابھی سفر کا آغاز بھی نہیں کیا ہے،اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں