فیصلہ کرنے والو آنکھیں کھولو! ملک ڈوب رہا ہے!

کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ چین نے مقروض ممالک کی فہرست جاری کی ہے جس میں الحمد اللہ ہم نے ”فشٹ“ پوزیشن حاصل کی ہے، اور پھر کیا کسی کو یہ بھی علم ہے کہ یو اے ای اور سعودیہ نے پاکستان کا قرضہ رول اوور کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہا ہے،بلکہ خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ سعودی عرب نے بلوچستان میں مختلف پراجیکٹ میں سے حصہ لینے کی بھی شدید خواہش کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف نے منی بجٹ کا کہا ہے جبکہ ہمارے وزیر خزانہ بضد ہیں کہ ہم بغیر منی بجٹ کے ٹیکس ریکوری سے کام چلائیں گے، جو بظاہر ممکن نظر نہیں آرہا ۔ اور تو اور اس بار سموگ نے جو ہماری حالت کی ہے، اس سے تو میں خود ڈر گیا ہوں کہ اب تو واقعی یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا۔ کیوں کہ جان ہے تو جہان ہے۔ کہاں پہلے سموگ کا نام تک نہیں سنا تھا، اور اب پشاور سے کراچی تک ہر شہر اس کی ضد میں آرہا ہے۔ ان مسائل کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے 80فیصد سے زائد نوجوان اس وقت بیرون ملک بھاگنے کے چکر میں ہیں۔ کیوں کہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک سال کے دوران سب سے زیادہ ہجرت پاکستانیوں نے کی ہے۔ یعنی پاکستان سے باہر بھاگنے والوں کی تعدادایک سال میں سولہ لاکھ سے زیادہ رہی۔ دوسرے نمبر پر سوڈان تھا جہاں سے ساڑھے تیرہ لاکھ سوڈانیوں نے ہجرت کی۔ بھارت تیسرے نمبر پر تھا۔ پونے دس لاکھ بھارتی ہجرت کر کے ملک سے باہر چلے گئے۔ بھارت کے تو آپ چھوڑ دیں کیوں کہ سوا ارب آبادی میں سے اس تناسب سے بیرون ملک روزگار کے لیے جانا معمول کی بات ہے۔ مگر تشویشناک صورتحال پاکستان کے لیے ہے، جہاں کاروباری طبقہ تو ویسے ہی ملک چھوڑ کر جا رہا ہے، ساتھ ”برین ڈرین“ بھی ہو رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس ملک کا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ بھی اس ملک سے جا رہا ہے۔ اور پیچھے بچ جانے والے وہی ہیں جنہیں یاتو بیرون ملک روزگار میسر نہیں یا وہ اُنہیں مواقع میسر نہیں ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے حکمرانوں کو اس صورتحال کا علم ہے؟ ملک کے حکمرانوں میں تمام سیاستدان‘ تمام پارلیمنٹیرین اور مقتدرہ‘ سب شامل ہیں! کاش نواز شریف‘ شہباز شریف‘ صدر زرداری‘ آرمی چیف‘ سب اس پر تشویش کا اظہار کرتے۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی۔ ایک کمیٹی بنتی جو اس صورتحال کے اسباب پر غور کرتی۔ الیکٹرانک میڈیا پر مباحثے ہوتے! یہ معلوم کیا جاتا کہ ان سولہ لاکھ افراد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کتنے ہیں؟ ملک پر ہولناک درجے کے اس برین ڈرین (Brain Drain) کے کیا منفی اثرات پڑیں گے؟ جانے والوں میں لیبر کلاس کتنی ہے؟ مگر لگتا ہے کہ اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں۔ ذمہ دار افراد اور اداروں کو اس تشویشناک صورتحال کا علم ہے نہ پروا! جیسے کہہ رہے ہوں کہ کھان خصماں نوں! سانوں کی! ایک سابق وزیراعظم نے تو کھلم کھلا کہہ بھی دیا تھا کہ لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں تو جائیں! اسی بے رحمانہ انداز میں ایک سابق صدر نے بھی امریکہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ عورتیں اس لیے ریپ ہوتی ہیں کہ مغربی ملکوں میں پناہ حاصل کر سکیں!
حکمران ملک کا ایک لحاظ سے، باپ ہوتا ہے۔ اگر باپ ہی لاتعلق ہو جائے تو بچوں کا کیا بنے گا!بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اس ریاست کا وارث ہی کوئی اور ہے،بلکہ وہی وارث ہےں جواصل فیصلے کرتے ہیں۔ لہٰذا میں مخاطب بھی انہی فیصلہ کرنے والی قوتوں سے ہی ہوں کہ دیکھیں! فیصلے تو آپ نے ہی کرنے ہیں، تو پھر کیوں ان کٹھ پتلیوں کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں، ایک ہی دفعہ مستقل حکمران لے آئیں، جو آپ کی باتیں بھی مانے، اور آپ کی ہاں میں ہاں بھی ملاتا، اُن درباریوں میں شامل ہو جائے جو ایک اشارے پر ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے تھوڑا سا خدا کا خوف کریں،اور ملک کا حال دیکھیں کہ یہ اس وقت کس نہج پر پہنچ چکا ہے۔ چین، سعودی عرب اور یو اے ای کا احوال بیان کر چکا، آئی ایم ایف بھی نت نئی شرائط لگا کر مزید قرضے دینے پر بمشکل رضا مند ہو رہا ہے، پوری معیشت اُس کے کنٹرول میں آچکی ہے، اب وہ قرضہ دینے کے بعد سب سے پہلے اپنا پرانا قرض کاٹ کر واپس کرتا ہے۔
الغرض ہمیں بجٹ سے زیادہ قرضہ اُتارنے کے لیے مزید قرضے درکار ہوتے ہیں۔اور یہ کریڈٹ سیاستدانوں کا نہیں بلکہ آپ کا ہے، اسے سیاستدانوں پر ڈال کر بری الذمہ نہ ہوں۔ کیوں کہ آپ خود برے سیاستدان منتخب کر کے اقتدار میں لے کر آتے ہیں۔ اور پھر جب سے 8فروری کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے، اُس کے بعد سے ملک میں جینا حرام ہوا ہے، اُسی وجہ سے ملک میں ہر چیز خراب ہو رہی ہے، ہر چیز پر نحوست کے سائے چھائے ہوئے ہیں، اور ہر شخص ہاتھ میں چھری پکڑ کر کرپشن کر رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف انا کی تسکین کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ویسے یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ پاکستانیوں کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہ اناکے چکر میں ملک بھی تباہ کر دیتے ہیں، معیشت بھی تباہ کر دیتے ہیں اور لوٹ مار بھی خوب مچاتے ہیں، خاندان تباہ کردیتے ہیں، دوست چھوڑ دیتے ہیں، اور ”انا“ بھی فضول قسم کی ہوتی ہے۔ جس کا نہ کوئی سر ہوتا ہے اور نہ پاﺅں۔ بلکہ یہ انا ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ہی کسی طاقتور کا فون آتا ہے، یہ ساتھ ہی لیٹ جاتے ہیں۔ پھر انا ختم جاتی ہے۔
اور پھر پاکستانی قوم تو اپنے سے کمزور پر ظلم کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ لیکن جونہی طاقتور سامنے آتا ہے، یہ بھیگی بلی بن جاتے ہیں، اور پھر ”انائیں“ رفع دفعہ ہو جاتی ہیں۔ نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ امریکا کے کہنے پر ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑا، امریکا کے دباﺅ پر ہم نے عافیہ صدیقی کو اُس کے حوالے کیا، امریکا کے کہنے پر آپ نے افتخار چوہدری کو رہا کیا، پھر اپنے سے طاقتور کے کہنے پر آپ نے بے نظیر کو چھوڑا، نواز شریف کو چھوڑا۔ بلکہ بیرونی دباﺅ پر ہی این آر او ہوا۔جس میں تمام سیاستدانوں پر سیاسی و کرپشن کے مقدمات کو ختم کردیا گیا۔ اُنہی کے کہنے پر آپ نے ان سیاستدانوں کو ملک میں آنے کی اجازت دی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا آپکی اپنی کوئی انا نہیں ہے؟ اگر انا ہوتی، آپ حق پر ہوتے یا ملک کی خاطر کام کر رہے ہوتے تو آپ کبھی نہ جھکتے، بلکہ ڈٹے رہتے۔ لیکن کیا کریں یہ بات بھی درست ہے کہ آپ کی اولادیں پاکستان میں نہیں، آپ کے کاروبار یہاں نہیں، سب نے متبادل جگہیں تلاش کی ہوئی ہیں، یہیں سے اندازہ لگائیں کہیہاں کون کتنا محب وطن ہے؟ کون نہیں۔
لہٰذاابھی بھی وقت ہے ، خدا کے لیے سب سے پہلے پاکستان کے بارے میں سوچیں، کیوں کہ اس کی بنیادیں ہل چکی ہیں، یہ گرنے کے قریب ہیں، اس پر توجہ کی ضرورت ہے، اسے عوامی ریاست بنائیں۔ اور عوام کو فیصلے کرنے دیں کہ کس کو حکمرانی ملنی چاہیے اور کس کو نہیں۔ پھر دیکھیں ملک دس سال کے اندر اندر بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ اور رہی بات عمران خان کی تو آپ اُس سے مذاکرات کریں، کچھ اُس کی شرائط مانیں، کچھ اُس سے اپنی شرائط پر اتفاق کروائیں۔ اور جھوٹے مقدمات ختم کردیں، آپ دیکھیے گا حالات نارمل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اس لیے فیصلے کرنے میں ہوش مندی کا ساتھ نہ چھوڑیں، دیرپا فیصلے کریں، کیوں کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں، پاکستان ہے تو آپ ہیں، پاکستان ہے تو ہمیں عیاشیاں بھی ہیں، ہمارے ”کاروبار“ ہیں، یہ نہیں ہوگا تو کچھ حاصل نہیں ہوگا، نہ ہمیں کہیں سے کوئی پلاٹ دے گا، اور نہ ہی ہمیں جزیرے خریدنے کے لیے کوئی پیسے دے گا۔
اور خدا کے لیے آزمائے ہووﺅں کو بار بار نہ آزما ئیں اسی میں سب کی بہتری ہے، انہی لوگوں نے آدھا ملک گنوا دیا، انہی لوگوں نے کرپشن کے نت نئے راستے تلاش کیے، بلکہ 30سال ہم نے مارشل لاءکے بھی دیکھ لیے، سب نے دیکھ لیا کہ مارشل لاﺅں سے بھی ملک نہیں چل سکتے، اگر چل سکتا ہوتا تو 10،10سال جو مارشل لاءلگے ہیں اُس میں ملک ترقی کر جاتا۔ سب نے دیکھ لیا کہ مارشل لاءنے کرپٹ سیاستدانوں کو ملک میں کرپشن کرنے کے گرُسکھائے، ورنہ 80کی دہائی سے پہلے تو کسی کو کرپشن کرنا نہیں آتا تھا۔ پھر مشرف دہشت گردی کو پاکستان میں لے آیا جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں، اور بدلے میں ریاست طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی کر رہی ہے۔ پہلے جو مسنگ پرسن صرف بلوچستان میں ہوتے تھے، اب پورے پاکستان میں ہو رہے ہیں۔ بلکہ اب حالات یہ ہیں کہ بلوچستان کے 40فیصد حصے آپ سفر ہی نہیں کر سکتے۔ بلکہ خیبر پختونخوا کا حال بھی یہی ہے۔ وہاں ہر دوسرے روز درجنوں سکیورٹی آفیسرز کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ابھی بھی تحریر لکھتے ہوئے خبر آئی کہ بنوں کی مشترکہ چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ جس سے 12سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے ۔
اس لیے فیصلہ سازوں کو اس پر کم از کم کوئی تھنک ٹینک بنانا چاہیے، کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ لوگ باہر کیوں بھاگ رہے ہیں، یہاں سے برین ڈرین کیوں ہورہا ہے؟ ہمارے ایک طرف بھارت ہے۔ وہ ہم سے کوسوں آگے نکل چکا۔ بہترین ریلوے‘ بہترین انڈر گراﺅنڈ ٹرینیں‘ آئی ٹی میں آسمان پر‘ ڈالر پچاسی روپوں میں! دوسری طرف ایران ہے جو ہولناک اور مسلسل عالمی پابندیوں کے باوجود ہم سے آگے ہے۔ لوگ خوشحال ہیں۔ بجلی سستی ہے۔ ساری معیشت‘ تمام کاروباری سرگرمیاں دستاویزی (Documented) ہیں۔ اور تو اور ایک امریکی ڈالر‘ اڑسٹھ افغانی میں مل رہا ہے۔ ہمارا یہی حال رہا تو بہت جلد افغانستان بھی ہمارے مقابلے میں معاشی دیو بن جائے گا۔ اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے!

اپنا تبصرہ لکھیں