27نومبر کی رات ریاست نے اپنے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا ، اُس نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی یاد تازہ کر دی، اُس وقت بھی ن لیگ کی حکومت تھی اور آج بھی ن لیگ ہی برسر اقتدار ہے، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت ماڈل ٹاﺅن میں شہداءکی لاشیں ایک ساتھ رکھ دی گئی تھیں اور پتہ لگ گیا تھا کہ ریاست نے 14لوگوں کو شہید کیا ہے۔ جبکہ اس بار تو مکمل بلیک آﺅٹ ہے، میڈیا دباﺅ میں ہے، صحافی گرفتار کیے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا اتنا سست کر دیا گیا ہے کہ کوفت ہورہی ہے۔ تبھی شہداءکی تعداد کا صحیح انداز میں تعین نہیں ہو پارہا ۔ لیکن شکر ہے کہ حکومت چار پانچ شہادتوں پر تو قائم ہے، اور زخمیوں کے بارے میں بھی تعداد سینکڑوں میں بتا رہی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین کا زخمی ہونا بھی اس بات کے ثبوت ہیں کہ ریاست نے اسلحے کا استعمال کیا ہے۔ خیر جو ہوا وہ انتہائی افسوسناک عمل ہے، میں پھر یہی کہوں گا کہ حکمرانوں نے یہ بھی ایک نئی روایت قائم کر دی ہے، کہ کل کو جب یہ لوگ اپوزیشن میں ہوں گے اور احتجاج کریں گے تب بھی سیدھی گولیاں ہی چلا کریں گی، اُس وقت بھی جس کی لاٹھی اُسکی بھینس ہوگی۔ لہٰذاہمیں اس وقت ڈائیلاگ کی طرف آنا چاہیے، کیوں کہ ابھی تک تو حکمرانوں اور مقتدرہ نے من مانیاں ہی کی ہیں جس کا ریاست کو نقصان ہی ہوا ہے۔ اور پھر قومی ڈائیلاگ کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہے، ہم پرتشدد سیاست سے بچ جاتے ہیں، ملک کسی بڑے سانحے سے بچ جاتا ہے اور تو اور ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکلتا ہے۔ لہٰذاملکی حالات پر بات کرنے کے لیے لیڈر میڈیا گروپ نے ایسے ہی ایک سیمینار جس کا عنوان تھا ”قومی مکالمہ ضروری ہے“ کا انعقاد کیا جس میں ملک کے نامور دانشور، سیاستدان، تجزیہ کار، کالم نگار اور وکلاءحضرات نے شرکت کی۔ ایسے سیمینارز جو کسی سانحہ کے بعد ہوں ، وہ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں، میں نے یہ بات سیمینار میں بھی کہی کہ آج دل خون کے آنسو رورہاہے، ہم بے حسی کی وادیوں میں کھوچکے ہیں اب لاشوں پر خوشی کااظہار کیا جاتاہے جو ایک افسوسناک امر ہے، اگر ایک بھی انسان مراہے تو اسکا ذمہ دارکون ہے؟ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، جو کچھ چند روز قبل ہوا وہ ناقابل برداشت ہے پورے ملک کو جام کیا گیا۔ ایمولینس میں جاتے لوگ راستے میں دم توڑ گئے، کیونکہ راستے بند تھے اور مریضوں کو ہسپتال لیجانے میں بھی مشکلات تھیں، لا ک ڈاﺅن اور راستوں کی بند ش سے ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں ۔ایسی بے حسی تو فلسطین میں نظر آتی ہے، ہم مقبوضہ کشمیر کی بات کرتے ہیں آزادی کے حقوق تو یہاں بھی سلب کیے جارہے ہیں، پوری دنیا کامیڈیا ہمارے بارے میں کیا لکھ رہاہے۔ پی ٹی آئی کا انداز سیاست بھی درست نہیں انہیں بھی سولائزڈہونا چاہیے۔ ان کا موقف ہے کہ ہم پر جھوٹے مقدمات بنائے جارہے ہیں ناجائز گرفتاریاں کی جارہی ہیں دوسرا فریق کہتاہے دھرنانہیں ہونے دینگے ، اسلام آباد آنے سے روکیں گے اس طرح تصادم ہوگا ،یہی بات سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے بھی چند روز قبل کہی ،انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کی قیادت میں سندھ سے مارچ اسلام آباد آیا ،مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قافلہ آیا ،مریم نواز کی قیادت میں ریلیاں نکالی گئیں لیکن سب پرامن رہا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہیں روکا نہیں گیا ،طاقت کے ذریعے جب بھی احتجاجی مارچ کو روکا گیا تو تصادم ہوا۔خیر اس موقع پر ایک اہم قرارداد بھی پیش کی گئی جس کے مطابق کہا گیا کہ صحافیوں کی بے دریغ گرفتاریوں سے اجتناب کیاجائے ….وفاق کو کسی صوبے کے ساتھ تضاد سے گریز کرنا چاہیے ….کسی بھی صوبے میں گورنر راج کی مخالفت اورپی ٹی آئی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں لگنی چاہیے…. صوبہ سرحدمیں ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات اوربلوچستان کی بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورتحال پر تشویش کااظہار کیا گیا….ڈی چوک اسلام آباد میں ہونے والے واقعے پر دلی رنجم وغم کا اظہارکیا گیا ….ہم پاکستان میں سول حکومت کی مضبوطی اورپاکستان میں ایک صحیح جمہوری معاشرے کے قیام کیلئے زور دیا گیا۔
اس موقع پر مقررین نے بھی خطاب کیا اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، آپس میں ایسی رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں جس سے مزید دوریاں بڑھیں ،موجودہ حالات میں پارلیمنٹ کا اجلاس ہونا چاہیے ،پارلیمان کو ایک رول دیا جائے یہ ظلم خدارا بند کریں ،عمران خان کی جان کی حفاظت حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے پنجاب سے بننے والے وزیراعظم کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، عدالتیں جب تک کسی ملزم کے بارے میں فیصلہ نہ کریں اسے مجرم نہیں بنایا جاسکتا ۔پوری قوم کو متحد کرناہوگا ،خیبر پختونخوا کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اسکے لئے پنجاب کو اپنا کردار ادا کرناہوگا، جب پہلی بارکے پی کے سے آنیوالوں پر تشدد ہوا تو میں فوراً وہاں گیا،میں نے کہا کہ میں پنجاب کی طرف سے حاضرہوا ہوں ایسا نہیں ہونا چاہیے آپ سب ہمارے بھائی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب کاکردار دوسرے صوبوں کیلئے بڑے بھائی کا ہونا چاہیے، ہم سب کو ملکر اس ملک کو بچانا ہے ہمیں عملی طور پر یہ ثابت کرناہوگا کہ ہم سب پاکستان کی سالمیت کے محافظ ہیں۔
معروف صحافی دانشور وتجزیہ نگار امتیا زعالم نے کہا کہ یہ بہت ناز ک مرحلہ ہے، جس میں آج کے سیمینار کاانعقاد کیا جارہاہے، اب صحافی ہونا قابل عزت نہیں رہا ،صحافیوں کو سب پتہ ہے اسلام آباد میں کیا ہوا کتنے لوگ مارے گئے لیکن کوئی جرا¿ت نہیں کررہا، خبر دینے کی ،خون کی ہولی کھیل کر کونسی لائن کھینچی گئی ہے پوری دنیا میں اصل چہرہ دیکھا گیا ۔مجھے پی ٹی آئی سے اختلاف ہے لیکن لوگوں کو مارنے والوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوسکتا، انہوں نے کہا پہلے لاپتہ افراد کا سنتے تھے اب لاپتہ لاشوں کا بھی سن رہے ہیں ریاست کا کردار ماں کا ہونا چاہیے، کے پی کے سے آنیوالے جوان بھی اس ریاست کے بچے ہیں پاکستان کو بچائیں اسے توڑنے کی کوشش نہ کریں اسلام آباد میں جوہوا اسکی مذمت ہونی چاہیے۔
معروف صحافی وتجزیہ نگار سلمان غنی نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ایک ہاتھ میں ایٹمی قوت اور دوسرے ہاتھ میں کشکول رہتاہے ،وہ دن خوشی کا ہوتاہے جس دن ہمیں قرضہ مل جائے ہم سب کو سر جوڑنا ہوگا اگر سر نہیں جوڑیں گے تو سر ٹوٹتے نظر آئیں گے ہر شخص دوسرے کو گرانے کی کوشش میں ہے۔ ریاستی بحران بڑھ چکاہے حکومت سیاستدانوں عدلیہ اور اداروں میں قومی مکالمہ ہونا چاہیے ،پاکستان کے ادارے اپنی بالادستی کے خواہاں ہیں ،پاکستان ہم سب کا ہے ،24کروڑ عوام اسکے مالک ہیں یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ،ہماری بدقسمتی ہے کہ پارلیمنٹ نے کبھی دہشت گردی ،انتہا پسندی ،شدت پسندی عوامی مسائل خصوصاًغربت ،بےروزگاری اور مہنگائی کیلئے سرنہیں جوڑا وہ سرجوڑتے ہیں اپنی تنخواہوں ،مراعات اور پی آئی اے کی مفت ٹکٹوں کیلئے ،ایسے ملک نہیں چلتے ایک وقت میں ایک کہتاہے ہم ایک پیج پر ہیں ایک وقت میں دوسرا کہتاہے ہم ایک پیج پر ہیں سیاست ڈائیلاگ کا نام ہے سیاست میں اداروں کی عزت وتوقیر بڑھانا اور عام آدمی کے مسائل کاحل شامل ہونا ضروری ہے۔ کسی نے عوام کا نہیں سوچا ،گڈگورننس ،مہنگائی ،بے روزگاری پر بات نہیں ہوتی ایک شخص کی رہائی پر بات حاوی ہوچکی ہے یہ سب کچھ کیوں ہورہاہے کو ئی اس طرف دھیان نہیں دے رہا، ہمیں ایٹمی قوت ہونے کی سزا مل رہی ہے دشمن ہمار اکچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن ہمارے ملک میں افراتفری پیدا کرتاہے وہ سازش کررہاہے اور کرتا رہے گا۔ ہمیں اپنا احتساب کرناہوگا۔
ساﺅتھ ایشیاءپارٹنر شپ کے ڈائریکٹر محمد تحسین نے کہا کہ آج جو ملکی صورتحال ہے اس میں دونوں فریقین کی طرف سے خلاف ورزیاں ہورہی ہیں میں اس بات کا گواہ ہوں جب ہم نے سب کو اکٹھے بیٹھانے کی جستجو کی تو واحد عمران خان تھے جنہوں نے سب کے ساتھ بیٹھنے سے انکارکردیا یہ صرف سیاستدانوں کا کام نہیں ہم سب کو ملکر کردار اداکرنا ہوگا یہ سوچنا ہوگا کہ کیسے اکٹھے ہوسکتے ہیں سب کو پتہ ہے گولیاں چلانے والے کون ہیں انہیں احکامات دینے والے کون ہیں۔
جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم نے کہا کہ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مکالمہ نہ کرے ماضی میں بھی دھوکہ دیاگیا آئندہ بھی دھوکہ ملے گا،جب تک اصل بنیادی چیز کو ٹھیک نہیں کیا جائیگا مکالمے کا کوئی فائدہ نہیں پاکستان میں جمہوریت نہیں بچہ جمہوراہے پہلے یہ طے کریں کہ اس ملک میں جمہوریت لانی چاہیے جمہوری جدوجہد کے حوالے سے مغرب کی جمہوریت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے وہاں خوشحالی ہے حکومتوں کی بحالی نہیں،بحالی جمہوریت کیلئے جدوجہد انتقال اقتدار پر مکالمہ کرناچاہیے اسکے لئے وقت بہت کم ہے اداروں کے اندر شخصی لیڈر شپ کا خاتمہ ہونا چاہیے وہ چاہے کوئی بھی ادارہ ہو،قومی ،صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی انتخابات ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں،اسطرح وہ نہیں ہوگا جو کچھ اسلام آباد میں ہوا۔
سیمینار میں معروف صحافی و تجزیہ کار طاہر ملک کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں الیکشن کے نتائج سرکاری ملازمین دیتے رہیں گے، ہماری جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی، اور ہم ہمیشہ انتشار کا شکار رہیں گے۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہا کہ پاکستان کو بچانے کیلئے مکالمے بہت ضروری ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ دیکھناہوگا کہ اس وقت 24کروڑ عوام کہاں کھڑی ہے عملی جمہوریت نظر آنی چاہیے، 4دن ملک جام رہا جس سے اربوں کا نقصان ہوا آنیوالے حالات کافی خوفناک نظر آرہے ہیں، ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کو ا±ٹھا لیا جاتاہے ثاقب بشیر اور شاکر اعوان کو اٹھایا گیا، مطیع اللہ جان کے خلاف منشیات کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا، اس بات کا اعتراف خود رانا ثناءاللہ نے بھی کیا ہے۔ کب تک ڈبل کیبن ڈالوں میں صحافیوں کو اٹھا کر لیجا جاتا رہے گا، جھوٹے مقدمات درج کیے جائیں گے یہ ملک کب تک ادھار پر چلے گا ملک کو بڑے معاشی بحران کاسامنا ہے جوہورہاہے دونوں طر ف سے غلط ہورہاہے معاملات صرف بات چیت سے حل ہوتے ہیں تشدد مسائل کا حل نہیں۔
معروف قانون دان عابد ساقی نے کہا کہ قومی مکالمہ ضروری ہے تو پہلے قوم ضروری ہے وہ قوم نظر نہیں آرہی لگتاہے وہ زمین پر موجود ہی نہیں صرف لاثانی اور جغرافیائی قوم نظر آرہی ہے یہ ہمارے لیے ایک المیہ ہے۔ سیاسی رہنما منظور گیلانی نے کہا کہ آج ضرورت برادشت کی ہے سیاسی برداشت ناپید ہوگئی ہے ہم نے بات چیت کو ختم کردیا ہے اسکا ذمہ دار کون ہے ہم نے فیصلہ کرناہے صبروتحمل سیاستدانوں میں ہونا چاہیے تشدد کا ہمیشہ نقصان ہوتاسب سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوں آج اس بات کی شدت سے ضرورت ہے لاہور بار کے سابق صدر معروف قانون دان جی اے خان طارق نے کہا کہ اس وقت قومی مکالمہ کی نہیں قومی مزاحمت کی ضرورت ہے وابستگیوں کی ٹوپی اتار کر 24کروڑ عوام کا سوچیں ان مظلوموں کا سوچیں جو اس وقت مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں انہوں نے کہا کہ تقاریر سے حقوق نہیں ملنے والے جبر اور لاقانونیت کے خلاف جدوجہد کرناہوگی بارکی تنظیموں اور بار کی تنظیموں کو بھی اپنا کردار ادا کرناہوگا اگرانہوں نے اپنا کردار ادا کیا ہوتا تو آج گلی گلی مکالمے ہورہے ہوتے ۔
اُمید ہے اس سیمینار کی گونج ایوان بالا تک ضرور پہنچی ہوگی، اور ہم اُمید بھی یہی کرتے ہیں کہ ملکی سلامتی اور عوام کے تحفظ کے لیے ہمیں ہر حد تک جانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ قومی مکالمہ ہمیشہ قائم رہے، اس سے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں!