لاشیں بھی گریں‘ پنچھی بھی اُڑے اور خون بہا

آج کا کالم رسیدی ہے۔ آپ اسے تاریخ کے کندھوں پر ایسا بوجھ بھی کہہ سکتے ہیں جو تھا‘ ہے‘ اور ہمیشہ رہے گا۔ کوئی چاہے کچھ کر لے سچ کا کھرا‘ جھوٹ کا کھوجی کبھی نہیں مٹا سکتا۔ لمبی تاریخ کو چھوڑ دیتے ہیں‘ یہ تو ابھی گزرے کل کی بات ہے جب عمران خان کو مریم نواز نے جلسے میں وڈیو کیمروں کے سامنے طعنہ دیا: جب تمہارا پرٹوکول ہٹ جائے گا‘ سرکاری وسائل پرے ہو جائیں گے‘ تم گھر سے باہر نکلو گے تو تمہیں پتا چل جائے گا‘ لوگ کس طرح تمہارا پیچھا کریں گے اور تمہیں ٹماٹر ماریں گے۔ یہ بلا کی سچی پیش گوئی تھی جو نواز شریف نے اپنی زبان سے سو فیصد سچ کر دکھائی۔ نواز شریف بھی وڈیو کیمروں کے سامنے ان لفظوں میں بولے: یہ چھوٹے چھوٹے لڑکے ہمارا پیچھا کرتے ہیں‘ راستہ روکتے ہیں‘ بدتمیزی کرتے ہیں اور ٹماٹر بھی مارتے ہیں‘ سیاست میں بدتمیزی کا یہ کلچر پی ٹی آئی نے پیدا کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں نواز شریف کی ٹیم کہتی ہے کہ عمران خان اس قدر کمزور اور غیرمقبول ہو چکا ہے کہ اُسے احتجاج کے ذریعے لاشیں گرانے اور خون بہانے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے What Goes Around Comes Around۔ اُردو میں اس کا بے کیف سا ترجمہ بنتا ہے ”جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘۔ نواز شریف اینڈ کمپنی نے سیاست میں بدتمیزی شروع کرنے کا الزام پاکستان تحریک انصاف کے نوجوانوں اور طالب علموں کے متھے مارا ہے۔ اچھا ہوا یہ بحث شروع کی گئی۔ ذرا چلیے بازارِ سیاست میں سیاست کاری بذریعہ تہمت‘ الزام اور دشنام کہاں سے شروع ہوئی‘ آئیے اس بدمزہ تاریخ کے بانیوں کے کھرے کے پیچھے چلتے ہیں جس کے کئی فٹ پرنٹ اَن مٹ نشانات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ شریف خاندان کو آج جن لہروں کا سامنا ہے ان کے لیے نہریں کھودنے پر خود انہوں نے عشروں محنت کی تھی۔
پاکستانی سیاست میں طوفانِ بدتمیزی کی پہلی لہر: 1970ء کے عشرے کی مقتدرہ نے مرحوم ایئر مارشل اصغر خان کو ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں پاپولر عوامی لیڈر بنانا چاہا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تحریک استقلال نامی جماعت عوامی پارٹی کے طور پر سامنے لائی گئی۔ یہ وہی تحریک استقلال تھی جس میں شامل ہو کر نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی کا پہلا قدم اٹھایا تھا۔ ایئر مارشل صاحب بھٹو کے خلاف جلسوں میں انتہائی متشدد زبان استعمال کرتے تھے۔ ایئر مارشل صاحب ہی ”گلے میں رسہ ڈال کر کوہالہ پل پر لٹکانے‘‘ جیسے جملوں کے بانی تھے۔ جس کے جواب میں رجائیت پسند ذوالفقار علی بھٹو نے اُنہیں ”آلو‘‘ کا خطاب دیا۔
پاکستانی سیاست میں طوفانِ بدتمیزی کی دوسری لہر: اس لہر کے بانی اُسی تحریک استقلال سے سیاست شروع کرنیوالے نواز شریف صاحب ‘بقلم خود‘ ہیں۔ میاں صاحب نے ہی بے نظیر بھٹو کو ‘امریکن سنڈی‘ کا خطاب دیا تھا۔ جب ان کی روشن ضمیری اور اخلاقِ عالیہ جیسے اوصافِ حمیدہ کی تسلی و تشفی نہ ہو پائی تو اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے ایک جہاز کرائے پر لیا۔ لاہور کے ایک معروف صحافی کے ذریعے سے بے نظیر بھٹو کی برہنہ تصاویر کرافٹ کرکے انہیں جہازوں کے ذریعے پمفلٹ پر چھپوا کر آسمان سے زمین پر پھینکا۔ ظاہر ہے جب ہزاروں فٹ کی بلندی سے کاغذ پر چھپی ہوئی تصویر نیچے پھینکی جائے گی تو اسے بزرگوں سے پہلے بچے دوڑ کر اٹھائیں گے‘ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کاغذ میں ہے کیا۔ یوں اعلیٰ درجے کی اخلاق سازی کے ذریعے جن نوجوانوں کی تربیت کی گئی‘ وہ بعد میں موصوف کی پارٹی (ن) لیگ کے ٹکٹ پر اسمبلیوں کے ایوانوں میں پہنچ گئے۔
پاکستانی سیاست میں طوفانِ بدتمیزی کی تیسری لہر: میاں صاحب نے سیاست کے اخلاقِ عالیہ کی تعلیم عام کرنے کیلئے جو تنظیم سازی کی تھی‘ اس کی چند جھلکیاں‘ وڈیو کلپ کی صورت میں آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر انکے لافانی وزیرِ دفاع نے ایک سیاست کار مولانا صاحب کو ‘مولانا ڈیزل‘ کے نام سے پکارا۔ اسی تنظیم سازی کے تربیت یافتگان نے سابق خاتون وزیراعظم کو ایک پسندیدہ ٹیکسی سکیم کے نام پر گالی دی۔ کسی زمانے میں مورِس کالی پیلی ٹیکسی چلا کرتی تھی۔ نواز شریف صاحب کے عہدِ شباب کی جو تصاویرپبلک ہیں ان میں موصوف اسی مورِس کے ساتھ پوز بنائے کھڑے ملتے ہیں جس کا صرف پیلا رنگ اڑا دیا گیا۔ بی بی شہید کو یہ غلیظ خطاب اسمبلی کے فلور پر دیے گئے۔ اب اسمبلی کے اسی فلور پر بی بی کا بیٹا اور نواز شریف کا بھائی پاور کوریڈور میں ہم آغوش ہیں۔
پاکستانی سیاست میں طوفانِ بدتمیزی کی چوتھی لہر: اس لہر کے گواہ بہت سے اہم سینئر وکلا بھی ہیں جو اُس دن میرے سمیت چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بنچ میں کیس لڑنے کے لیے کورٹ روم نمبر ایک میں بیٹھے ہوئے تھے‘ جب شریفانہ تربیت کے متاثرین اس بنچ پر چڑھ دوڑے اورجج صاحبان نے چیف جسٹس کے پیچھے پیچھے مشکل سے چیمبرز تک بھاگ کر جان بچائی تھی۔ اس کے فوراً بعد سپریم کورٹ کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ ایک چیف جسٹس اسلام آباد میں شاہراہِ دستور پر‘ جبکہ دوسرا چیف جسٹس سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں عدالت لگا کر بیٹھ گیا۔ تب ہی میاں صاحب کے پسندیدہ وزیر دفاع نے جسٹس رفیق تارڑ کو بریف کیسوں والے مولوی کا خطاب دیا تھا۔
پاکستانی سیاست میں طوفانِ بدتمیزی کی پانچویں لہر: یہ واقعہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں پیش آیا‘ جب لاہور کے گرین ٹاؤن میں خون بہا‘ پرچہ ہوا‘ چار نوجوانوں کو جیل سے نکال کر پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ بچوں کے والد نے اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی۔ پھر ماڈل ٹاؤن قتلِ عام قسط نمبر ایک ہوا۔ جس کے بعد ظلم کی یہ داستان ماڈل ٹاؤن ٹو کے ذریعے دہرائی گئی۔ ماڈل ٹاؤن کی ان دونوں Recorded and Reportedقتل کی وارداتوں میں منہاج القران کے مرکز کی دو خواتین بھی قتل ہوئیں‘ جن کے بطن میں ننھے پھول پوشیدہ تھے۔ جو دنیا میں آنے کی حسرت لیے بِن کھلے مرجھا گئے۔ اسی تربیت کا اگلا حتمی نتیجہ بھی ماڈل ٹاؤن سے گلو بٹ ازم کی شکل میں نکلا۔
پاکستانی سیاست میں طوفانِ بدتمیزی کی چھٹی لہر:یہ عمران خان کا ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت تھا جب اُس وقت کے وزیراعظم کو فساد پھیلانے والا‘ فتنہ‘ منشیات باز کے نام سے پکارا گیا۔ اسی عرصے میں قومی اسمبلی کے فلور پر اعلیٰ اخلاقی تربیت کا ایک اور نمونہ سامنے آیا‘ جب ایک خاتون فیڈرل منسٹر کو شریفانہ دستِ راست نے ٹریکٹر اور ٹرالی کے نام سے پکارا۔ جس کے بعد پورے پاکستان میں خواتین اورصنفِ نازک کی تنظیمیں بجا طور پر سراپا احتجاج ہو گئیں۔ ماسوائے ایک میرے گرائیں راجہ ظفر الحق صاحب ایڈووکیٹ کے‘ (ن) لیگ کے باقی سب قابلِ ذکر لیڈروں اور سپوک پرسنز نے پی ٹی آئی کی سیاسی ورکر خواتین کو جیسے ”مہذب اور بااخلاق‘‘خطابات اور القابات سے نوازا‘ ان کو یہاں ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا ایک کولیگ اور شریف خاندان کا پسندیدہ وزیر وہاں تک جا پہنچا جہاں تنظیم سازی‘ کردار سازی اور تربیب سازی گڈ مڈ ہو گئیں۔ فیصل آباد کی ایک تہذیب سے گری ایف آئی آر نمونے کے طور پر آج بھی ریکارڈپر موجود ہے۔ ہاں یاد آیا! ”اُمیدِ پاکستان‘‘ جس کے لیے انصاف چل کر خود ایئر پورٹ گیا تھا‘ پر کٹے پنچھی اڑائے گئے تھے‘ آٹھ فروری کے اخبارات میں ”وزیر اعظم پاکستان… نواز شریف‘‘ کے اشتہارات چلوائے گئے‘ ان کے سب ترلے حیلے ڈوب گئے۔
لاشیں بھی گریں‘ پنچھی بھی اڑے اور خون بہا
سب ترلے حیلے ڈوب گئے اور کچھ نہ بنا

اپنا تبصرہ لکھیں