اسلام آباد پولیس نے 24 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج پر تھانہ کوہسار میں درج مقدمے میں عمران خان‘ بشریٰ بی بی‘ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور اپوزیشن لیڈ عمر ایوب سمیت 96 نامزد ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے ہیں۔علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے جلسوں اور احتجاج میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ یہ اقدام ان کی طرف سے وفاق کی حاکمیت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے کیونکہ وہ کوئی عام پارٹی کارکن نہیں بلکہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں‘ جنہیں کسی بھی معاملے میں عام آدمی سے مختلف اور بہتر طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن 24نومبر کے بعد دیے جانے والے اُن کے بیانات کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ‘ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اُن پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ ان سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے عام سیاسی کارکن کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ حالیہ دنوں خیبرپختونخوا میں کرم ایجنسی اور پارا چنار کے علاقے خوفناک صورتحال سے دوچار رہے‘ لیکن خیبرپختونخوا حکومت اس دوران منظر سے پوری طرح غائب رہی۔ صوبائی حکومت کی اولین ترجیح صوبے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا ہونی چاہیے‘ لیکن خیبرپختونخوا حکومت تو اُن دنوں اسلام آباد میں احتجاج کی تیاریوں میں مصروف رہی۔ دوسری طرف گورنر خیبر پختونخوا بھی اس صورتحال میں کوئی متحرک کردار ادا نہیں کر سکے۔ خدشہ ہے کہ علی امین گنڈپور کسی دن کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں جس پر ریاست کو کوئی سخت اقدام کرنا پڑے۔ لگتا ہے کہ گنڈاپور کے پیچھے کوئی پُراسرار طاقت موجود ہے جو ان سے ضرور کوئی غلطی کرائے گی۔ وزیرداخلہ محسن نقوی نے بھی 24نومبر کی رات کو اشارہ دیا تھا کہ علی امین گنڈاپور کسی طاقت کے اشارے پر چل رہے ہیں۔اپنے صوبے کو نظر انداز کرکے علی امین گنڈاپور کی وفاق پر بار بار چڑھائی کا اُن کی جماعت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ دیکھا جائے تو تحریک انصاف کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اب عمران خان کے ارد گرد جماعت کی قد آور شخصیات کا ہجوم بھی نہیں ہے‘ جس طرح مشکل وقت میں ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے اردگرد قد آور شخصیات موجود تھیں۔ اس وقت صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ ملک کی کم و بیش سبھی سیاسی جماعتیں فردِ واحد کے گرد گھوم رہی ہیں‘ ان حالات میں ملک میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔ اُدھر وفاقی وزرا آئین کے آرٹیکل 234 کا مطالعہ کیے بغیر خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کی باتیں کر رہے ہیں مگر وہ شاید بھول رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے صوبے خودمختار ہیں اور ایمرجنسی اور گورنر راج صوبے کی خواہش کے برخلاف نہیں لگایا جا سکتا۔
وفاقی وزرا کے بقول حکومت اس وقت کافی مضبوط ہے‘ لیکن جو حکومت مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کی رپورٹنگ سے خوفزدہ ہو جائے‘ اُسے مضبوط قرار دینا اور اس کی پالیسیوں کو گڈ گورننس کے زمرے میں لانا حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہو گا۔ وزیراعظم اور وفاقی وزرا سٹاک ایکسچینج کے ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرنے کو بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں‘ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ سٹاک ایکسچینج کے ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرنے سے عام آدمی کی زندگی میں کیا بہتری آئی ہے؟ کیا اس سے ڈالر کی قیمت کم ہوئی؟ بجلی یا گیس سستی ہوئی؟ پٹرول کی قیمت کم ہوئی؟ سٹاک مارکیٹ پر دراصل ملک کی اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ سٹاک ایکسچینج کے ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرنے سے ہو سکتا ہے اشرافیہ اور بڑے کاروباری اداروں کو تو کوئی فائدہ پہنچا ہو لیکن عوام کو اس سے کوئی ریلیف نہیں ملا۔
پاکستان کو آج پھر اکتوبر 2002ء جیسی صورتحال کا سامنا ہے جب جنرل پرویز مشرف اپنی تمام تر کوششوں اور پنجاب میں رینجرز کے سربراہ میجر جنرل مہدی کی معاونت کے باوجود ”مطلوبہ نتائج‘‘ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور میر ظفراللہ جمالی ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم منتخب ہو گئے تھے۔ حکومت کی مکمل کمان تب جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ میں ہی تھی‘ جو کہ میر ظفراللہ جمالی سے مطمئن نہیں تھے۔ ظفراللہ جمالی تب ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھے جس سے ریلیف کے لیے انہیں روزانہ کئی گھنٹے مساج کرانا پڑتا تھا اور اس کے لیے بیرونِ ملک سے خصوصی مساجر منگوائے گئے تھے۔ لہٰذا پرویز مشرف کی نگاہِ انتخاب ہمایوں اختر پر جا ٹھہری لیکن سکیورٹی امور کے سیکرٹری طارق عزیز اور چودھری شجاعت حسین کی مخالفت کی وجہ سے ہمایوں اختر ملک کے وزیراعظم بننے میں ناکام رہے تو وزیر خزانہ سینیٹر شوکت عزیز کو وزیراعظم نامزد کر دیا گیا اور انہیں اٹک اور تھرپارکر سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا کر ملک کا وزیراعظم بنوا دیا گیا۔ اٹک میں انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران شوکت عزیز کی گاڑی پر حملہ بھی ہوا تھا لیکن چونکہ ان کی گاڑی بلٹ پروف تھی‘ اس لیے وہ محفوظ رہے۔ بعد ازاں اُنہوں نے اسلام آباد سے ہی اپنی الیکشن مہم جاری رکھی اور ان دونوں حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ اُس کے بعد کے واقعات سے سبھی واقف ہیں۔
دیکھا جائے تو وفاقی حکومت ملک میں سیاسی استحکام قائم نہیں کر سکی۔ ملکی معیشت میں جو بہتری آئی ہے وہ بھی جنرل عاصم منیر کی شاندار حکمت عملی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ ملک میں اہم غیرملکی مہمانوں کی آمد سے ملک کا امیج بہتر ہو رہا ہے۔ان حالات میں یہ امکان پیدا ہو چکا ہے کہ مقتدر حلقے شوکت عزیز ثانی فارمولے پر غور کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا کوئی فارمولا زیرغور ہے تو غالب امکان یہی ہے کہ اس صورت میں محسن نقوی ملک کے وزیراعظم ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے اُنہیں لاہور سے قومی اسمبلی کی کوئی نشست خالی کرا کے قومی اسمبلی کا رکن منتخب کرایا جا سکتا ہے۔ محسن نقوی نے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے صوبے میں مثالی ترقیاتی کام کرائے تھے‘ ان کی کابینہ بھی مثالی تھی‘ بیورو کریسی ان کا احترام کرتی تھی۔ میں بھی ان کی کابینہ کا حصہ تھالہٰذا مجھے محسن نقوی کی بطور نگران وزیراعلیٰ کارکردگی کا قریب سے جائزہ لینے کا موقع ملا۔ محسن نقوی کی انتظامی صلاحیت بہترین ہے اور وہ ایک وژنری انسان ہیں۔ تحریک انصاف کے حالیہ اسلام آباد احتجاج کو ناکام بنانے کے بعد وزیرداخلہ محسن نقوی کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے۔ وہ یہ ذمہ داری بھی بخوبی نبھائیں گے۔ محسن نقوی کے بارے میں مَیں نے جو تجزیہ پیش کیا ہے‘ اس پر غور کرنا چاہیے۔ ان میں سب کو ساتھ لے کرچلنے کی صلاحیت موجود ہے۔کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ بین الاقوامی منظر پربھی آ گئے ہیں۔ اسلام آباد کے سفارتی حلقے بھی ان کی قابلیت سے مطمئن ہیں۔ وفاق میں انہیں مزید ذمہ داریاں سونپی جانی چاہئیں کیونکہ وہ کوئی بھی ذمہ داری بطریقِ احسن پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے ملک میں فسادات و ہنگامہ آرائی سے نمٹنے کیلئے عالمی معیار کی انسدادِ فسادات فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس انسدادِ فسادات فورس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے اسے پیشہ ورانہ تربیت اور ضروری ساز و سامان سے لیس کرنا ہو گا۔ انسدادِ فسادات کا فورس کا شعبہ برطانیہ سمیت بہت سے ممالک میں قائم ہے۔ پاکستان میں اس کا قیام زمینی حالات کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔