دیرآئید درست آئید کے مترادف خبریں آرہی ہیں کہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کیلئے رابطے شروع ہوگئے ہیں اور اس باب میں پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کیا جائے گا۔ ملاقاتوں سمیت رابطے کی دوسری صورتیں بھی اختیار کی جارہی ہیں لیکن معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ دونوں فریقوں کے قریب آنے میں وقت لگے گا۔ متضاد اور متصادم دعوے سامنے آرہے ہیں اور مزید سامنے آنے کے امکانات نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعد المشرقین کی موجودہ کیفیت میں بات ایک دم آگے بڑھنے کی امید معجزے کی توقع کے مترادف ہے مگر ملکی حالات متقاضی ہیں کہ بحرانوں پر قابو پانے اور آگے بڑھنے کیلئے غیریقینی کیفیت کو ختم کیا جائے۔ اس کیلئے مذاکرات نہ صرف ضروری ہیں بلکہ فریقین میں اس کی خواہش بھی پائی جاتی ہے۔ کشیدگی کی شدید کیفیت میں اگرچہ یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کل ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا جبکہ 24 نومبر کا واقعہ بھی حال ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہونے تو پھر تیسری قوتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ اس کی مثال آپ بھٹو دور کے آخری سالوں کی لے سکتے ہیں ،یعنی اگرہم 1977کی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا جائزہ لیں تو اس میں شک وشبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ عوام کی ایک غالب اکثریت اس تحریک میں شامل تھی۔لیکن اس کے برعکس ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن کے عزائم اور عالمی سازشوں سے بخوبی آگاہ تھے لہذا انھوں نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا راستہ ا پنانے کا فیصلہ کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے بہت سے قریبی دوست مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے مخالف تھے کیونکہ سیاست پر ان کی نظر ذوالفقار علی بھٹو جتنی گہری اور وسیع نہیں تھی۔پاکستا ن قومی اتحاد نے اپنی حکومت مخالف تحریک میں صرف ذوالفقار علی بھٹو کی ذات کو نشانہ بنایا تھا کیونکہ انھیں علم تھا کہ پی پی پی صرف ذوالفقار علی بھٹو کی ذات کا ہی نام ہے لہذا ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد پی پی پی دفا عی پوزیشن میں چلی جائیگی اور پھر ہماری جیت کو کوئی روک نہیں سکے گا۔ پاکستان قومی اتحاد میں بھی مذاکرات کے نام پر سخت اختلافات پائے جاتے تھے کیونکہ ایک گروہ کو جس کی قیادت ایئر مارشل اصغر خان کر رہے تھے کو سخت خد شہ تھا کہ مذاکرات سے ذوالفقار علی بھٹو زندہ بچ کر نکل جائیگا لہذا وہ مذاکرات کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔وہ اسی تحریک کے زور سے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے تھے کیونکہ اس سے بہتر موقع انھیں شائد دوبارہ نہ ملتا۔لیکن دوسرے گروہ نے ان کی رائے کو غیر اہم سمجھ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کیاکیونکہ جمہوری معاشروں کی پہچان مذاکرات ہی ہوا کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ پاکستان کے عوام ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لہذا انھیں انتخابات میں شکست دینا اپوزیشن کے بس میں نہیں ہو گا۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپوزیشن کے سارے مطالبات مان کر دوبارہ انتخابات کی راہ ہموار کر دی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ انتخا بی دھاندلی کے الزامات انھیں بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں حالانکہ سچ یہی ہے کہ اپوزیشن انتخات ہار چکی تھی لیکن اسے تسلیم کرنے سے عاری تھی۔انانیت کی ضد تھی جو اپوزیشن کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی تھی اور جسے پاٹنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔چار جولائی1977کو پی پی پی اور اپوزیشن کے درمیان معاہدہ طے پا گیا لیکن اسی شب جنرل ضیالحق نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا کیونکہ عالمی طاقتیں یہ سمجھ چکی تھیں کہ مذاکرات کی میز پر انتخابات کے انعقاد کیلئے راضی ہونا اپوزیشن کی ہار ہے کیونکہ انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ ادھر جنرل ضیاا لحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ادھر وہ ساری جماعتیں جو ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کر رہی تھیں جنرل ضیا ا لحق کی مارشل لائی حکومت کا حصہ بن گئیں جو یہ ثا بت کرنے کیلئے کافی ہے کہ اپوزیشن ،فوج اور عالمی طاقتیں ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے کے لئے متحد تھیں۔ بہرحال مذاکرات اگر سنجیدہ ہوئے تو ملک پھر ہی بحرانوں اور مشکلات سے نکلے گا، لیکن موجودہ صورتحال میں ہمیں دونوں فریقین ہی سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہے۔ مسلم لیگ کے اپنے لوگ جن میں طلال چوہدری سرفہرست ہے یا شیری رحمن ہیں، یہ لوگ مذاکرات پر ابھی سے طنز کرنا شروع ہوگئے ہیں، لہٰذاابھی بھی ہم کہتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مذاکرات کے لیے بیٹھیں، اس لیے میری تحریک انصاف کے رہنمائوں سے بھی گزارش ہے کہ اگر وہ دیرپا حل چاہتے ہیں تو فوری طور پر مذاکرات کی طرف آئیں۔ آپ شکار کے متعلق کتابیں پڑھ لیں، یا ویڈیوز دیکھ لیں،،، کہ شیر چھلانگ یا جَست لگانے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے۔ ٹیک آف کے عمل میں زمین چھوڑنے سے قبل طیارہ بھی ایک لمحے کے پچاسویں حصے کے لیے پیچھے ہٹتا ہے! اگر آپ کرکٹ کے شوقین ہیں تو دیکھا ہوگا کہ بائولرز بھی زیادہ قوت سے گیند کرانے کے لیے اپنے رن اپ مارک پر پہنچنے کے بعد تھوڑا سا پیچھے ہٹتے ہیں۔ گویا کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے لازم ہے کہ تھوڑا سا توقف کیا جائے‘ اپنے آپ کو سمیٹا جائے‘ اپنی صلاحیت اور سکت کا جائزہ لیا جائے اور پوری قوت کو ایک نقطے پر مرکوز کرکے بھرپور سعی کی جائے۔ اب اس حقیقت کے تناظر میں اپنے معاملات کا جائزہ لیجیے؛ اگر حالات نے آپ کو ایک قدم پیچھے دھکیل دیا ہے تو سمجھ لیجیے کہ قسمت آپ کو کسی بڑے کام کے لیے تیار کر رہی ہے! لہٰذاتحریک انصاف کو بھی اگر ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ بہرکیف دنیا کے لیڈران میں اگر لچک نہ ہوتی تو یہ کب کی تباہ ہو چکی ہوتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، امریکی صدر روزویلٹ، ٹرومین، روس کے اسٹالن، برطانیہ کے چرچل، فرانس کے ڈیگال،چین میں مائوزے تنگ اور چو این لائی،برصغیر میں قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی،ملائشیا میں تنکو عبد الرحمن،انڈونیشا کے سویکارنو،مصر کے جمال عبد الناصر،چیکوسلواکیہ کے مارشل ٹیٹو،،شمالی کوریا کے کم ال سنگ،اور ویتنام کیہو چی من ایسے عالمی لیڈر تھے جنہوں نے اپنے ملک وقوم کی خاطر کئی بار لچک دکھائی۔اسوقت کی عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ مزاحمت کی،حالات سے مصالحت کے بجائے ان کا مقابلہ کیا آج نہ صرف وہ اقوام سر اٹھا کر جیتی ہیں بلکہ اپنے ہیروز کا نام آتے ہی لوگ احترام سے اپنا سر جھکا لیتے ہیں۔اور رہی بات حکومت کی تو یہ اُس کا وقت ہے، آپ کا وقت بھی آئے گا اس وقت تو اُن کا حال ایسا ہے کہ بقول شاعر ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا