سیاسی جماعتوں میں یہ عمومی رویہ ہے کہ اراکین کا ایک دوسرے سے اختلاف ہو جاتا ہے تاہم اب تک کی پریکٹس یہ ہے کہ ان اختلافات پر قیادت بھاری ہوتی ہے،اگر کسی طور قائد جماعت کی اپنی ذات مقبول ہو تو پھر سب کچھ اسی کے گرد گھومنا شروع کر دیتا ہے۔گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں سابق گورنر اور مسلم لیگ(ن) کے سابق رہنما محمد زبیر نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ(ن) میں تین دھڑے ہیں اور یہ مذاکرات کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف ختم ہو جائے، دوسری طرف سے ان کی اس بات کو غلط قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بات درست نہیں۔جماعت کے اندر گر کسی مسئلہ پر مختلف آراء ہوں تو اسے اختلاف یا دھڑا نہیں کہا جا سکتا۔ مسلم لیگ(ن) مشاورت کی قائل ہے اور جب قائدین کے روبرو فیصلہ ہو جائے تو سب کے لئے قابل قبول ہوتا۔
یہ بات ان معنوں میں درست ہے کہ تحریک انصاف میں رہنماؤں کے متضاد بیانات ہیں،حتیٰ کہ واقعاتی اختلاف سامنے آتا ہے تاہم فرد اور رہنما جماعت کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی بات ہی کو حتمی قرار دیتا ہے۔اب یہاں اتفاق یہ ہے کہ عمران خان ہی ایک لیڈر اور شخصیت ہیں ان کی ذات جماعتی طور پر اتنی بڑی ہو گئی کہ اب ان کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔اگرچہ جماعتی رہنما برملا ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں، بعض حضرات اسے حکمت عملی کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں، لیکن حقیقت واضح ہے کہ اس جماعت میں کئی گروپ ہیں،گو عمران خان کی طرف سے بیرسٹر گوہر خان کو جگہ پُر کرنے کے لئے جماعت کا چیئرمین بنا دیا گیا لیکن واضح طور پر نظر آتا ہے کہ دوسرے حضرات ان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں،اِسی لئے بیرسٹر شیر افضل مروت اور ان کے درمیان سلوک بہت ہے۔ حتیٰ کہ مطالبات کی تحریر دینے کے حوالے سے بھی گوہر خان اور شیر افضل مروت ہی نے ملاقات کے بعد کہا کہ عمران خان نے مطالبات تحریری طور پر دینے کی منظوری دے دی ہے۔
ہماری ملکی سیاست میں بعض ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کے لئے بھی ”راز کی بات“ کہہ دی والا رویہ اختیار کرتے ہیں اس سلسلے میں ابتداء تو پیر علی مردان شاہ پیر پگارو کی تھی، لیکن وہ معلومات کی بناء پر ذومعنی گفتگو کرتے اور پیش گوئی کرتے تھے۔ان کی باتیں اہم ہوتی تھیں،مثلاً وہ کہتے ہم فوج سے ساتھ ہیں، اسے دوسری طرح رپورٹ کیا جاتا تو وہ ایک بار برہم ہو گئے اور ہمارے بعض دوستوں کو مخاطب کر کے کہا ”بھئی! میں نے کب کہا فوج ہمارے ساتھ ہے میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہم فوج کے ساتھ ہیں اور ہم نے اپنے حر فوج کو دیئے ہیں اور باقاعدہ حر بٹالین ہے، پیر صاحب کی تو اپنی شان تھی، پھر جن رہنما کی شہرت ہوئی وہ شیخ رشید ہیں۔انہوں نے بھی ایسا ہی انداز اپنایا اور پیشگوئیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پیر پگارو کی تو اکثر باتیں درست ہو جاتی تھیں لیکن شیخ صاحب کے نمبر ہمیشہ کٹ جاتے ہیں اور اب تو کافی عرصہ سے انہوں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ ان کے لئے گیٹ نمبر4 بند ہو گیا ہے تاہم تازہ بتازہ ہمارے شیر افضل مروت ہیں،ان کا انداز گفتگو بھی یہ ہے کہ چپ رہو اور دیکھتے جاؤ،اب وہ کہتے ہیں کہ رابطے ہیں۔بانی نے اجازت دے دی اور مذاکرات پھر سے شروع ہونے والے ہیں۔ جب اعلامیہ آئے گا تو آپ لوگ اپنی اپنی انگلی کاٹ لیں گے، بہرحال کچھ بھی کہا جائے ایسے کردار ہماری سیاست میں بہت ہیں جن کا تکیہ کلام ہے ”یاراں ای دا کم اے“ سینیٹر فیصل واوڈا ان دِنوں خاموش اور پُراسرار طور پر سکرین سے باہر ہیں انہوں نے چینلز کا بہت وقت لیا، شاید سب سے زیادہ وقت لینے والے یہی تھے نہ معلوم اب کہاں ہیں؟ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں آ رہی،شاید وہ کہیں سکون سے خبریں تلاش کر رہے ہیں اور کسی روز یکایک منظر پر آ جائیں گے۔
بات اختلاف اور دھڑوں سے شروع کی تھی، مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے وہ محمد زبیر نے کہا جو خود مسلم لیگ(ن) کا حصہ اور نواز شریف کے ترجمان رہے، ان کی یہ بات درست ہے کہ مسلم لیگ(ن) میں نواز شریف اور شہباز شریف کے حوالے اور ان کی پالیسیوں کے باعث متعدد حضرات کے درمیان واضح اختلاف سامنے آ جاتے ہیں اور بعض رہنما نواز شریف کی قیادت پر بہت زور دیتے ہیں،گو شہباز شریف کی لابی بھی موجود ہے لیکن وہ خود اسے دھڑے تک نہیں لاتے اور ہر بات میں نواز شریف کو فوقیت دیتے ہیں۔ وہ بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے ہیں۔
اب اگر پیپلزپارٹی کی بات نہ کی جائے تو زیادتی ہو گی یہ جماعت ایسی ہے کہ اس میں ماں بیٹی کے درمیان اختلاف ہوا، حتیٰ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی چار کے ٹولے والی اصطلاح سامنے آئی، لیکن جب بھی کبھی ایسا ہوا مخالفین ہی کو ہار ماننا پڑی، وہ مصطفےٰ جتوئی تھے، محمد حنیف رامے یا ملک معراج خالد کوئی بھی ان کی جماعتی حیثیت کو متاثر نہ کر سکا،ابھی بھی حالات یہ ہیں کہ اس جماعت میں مقامی اختلافات تو ہیں تاہم اعلیٰ سطح پر اجلاس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی کچھ بے چینی ہے، بلاول بھٹو ذرا تیز سیاست کرنا چاہتے اور کوشش کرتے ہیں، لیکن صدرِ مملکت آصف علی زرداری مخصوص طریقے سے سمجھا دیتے ہیں۔یواں واضح طور پر اختلاف رائے کے باوجود شخصیت کو کوئی فرق نہ پڑا۔اب ذرا غور کریں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کسی بھی جماعت کے اندر سے اختلاف قیادت کو متاثر نہیں کرتا۔ پیپلزپارٹی کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ جماعت اب بڑی شخصیت اور رہنما کے طور پر بلاول کو ترجیح دیتی ہے،لیکن زرداری صاحب چھتر چھاؤں بنے ہوئے ہیں۔جماعتوں کے اندر ایسے اختلاف کو بھی دشمنی میں بدلتا دیکھا جا سکتا ہے،لیکن تحریک انصاف کی حیثیت کو کوئی متاثر نہیں کر سکا۔ یہ سب ہمارے ہی ملک میں ہوتا ہے،ترقی یافتہ ممالک میں اسکی شکل دوسری ہے،وہاں اختلاف اس حد تک نہیں جاتے کہ جماعت ہی متاثرہو،اس لئے ہم تو نہ صرف مذاکرات کے حامی،بلکہ ایسے اختلافات کو بھی درخوارعتنا نہیں جانتے دُعاگو ہیں کہ مذاکرات ہوں اور ٹھوس قومی موقف سامنے آئے اور یہ کوئی ناممکن نہیں، اگر سب جماعتیں اور لیڈر شپ ملکی امور پر الگ الگ طور پر ایک ہی موقف کے طور پر گفتگو کرتے ہیں تو پھراکٹھے ہو کر اتفاق رائے سے بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ایک دانشور کا قول ہے کہ اب تو یہ وقت آ گیا کہ نیا میثاق جمہوریت ہو اور یہ سب جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے اور اسی لئے یہ سب جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے اور اسی کے پس منظر میں سیاست کی جائے۔ پنجابی کی ایک کہاوت پر بات ختم کرتے ہیں۔
”اے کون نیں ”چٹھے،کھان پین نوں وکھو وکھ لڑن مرن تو اکٹھے“