مذاکرات، مذاق بن کر رہ گئے؟

جب سے سیاست کا مرکز لاہور سے تبدیل ہو کرایوانِ اقتدار والے شہر اسلام آباد منتقل ہوا، تب سے کبھی خیر کی خبر نہیں آئی۔ آج تک بھی یہی صورتحال ہے کہ رسہ کشی اور مقابلہ آرائی جاری ہے،اس دوران مذاکرات کا شور و غوغا ہے۔دِل ترس گیا کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان تعطل ختم اور مذاکرات کا آغاز ہو کہ سیاسی امور، سیاسی طور پر بات چیت ہی سے حل ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں گذشتہ دِنوں روشنی پھوٹتی نظر آئی،لیکن پھر سے معدوم ہو گئی اور اب تک تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب بات چیت کا دروازہ کھلنے لگا ہے کہ پھر کوئی انہونی ہو جاتی ہے جس سے سب غلط ہونے اور رہنے والی صورت حال سامنے آنے لگی ہے۔اب اگر وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ اور تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کے حالیہ بیانات پر غور کیا جائے تو بہت بڑی امید بندھتی ہے لیکن یہ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ پائی کہ چیئرمین کی طرف سے خاموشی اختیار نہیں کی جاتی، بلکہ آس ٹوٹ جاتی ہے،ان دِنوں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے، ”ہر گز کہ ہے پر نہیں ہے“ والا قصہ ایک طرف سے سے سنجیدہ بات ہوئی تو اس کی تعریف کرتے ہوئے بھی بیانات کی گندھی کھچڑی کام خراب کر دیتی ہے اور اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے، جتنے لیڈرا تنے ہی بیانات چل رہے ہوتے ہیں ایسے میں کیا اعتبار کیا جائے۔

اِس حوالے سے ایک بار پھر یاد دِلا دوں کہ1977ء کے عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزام لگے اس سے پہلے نو جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد بنا تھا۔ پاکستان قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی کے درمیان مقابلہ ہوا اور پیپلز پارٹی جیت گئی تھی،انتخابی نتائج تسلیم نہ کیے گئے اور قومی انتخابات کے بعد جب صوبائی انتخابات کی باری آئی تو پی این اے کی طرف سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا جو پی این اے کی حد تک پورا پورا تھا تاہم حکومت نے یہ انتخابات کروا لئے اور وزارتیں بن گئیں،اس کے بعد باقاعدہ تحریک شروع ہو گئی اور وہی کچھ ہوا جو انکار کی صورت میں ہوتا ہے۔لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ پھر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک دن وہ آیا جب پی این اے کی ساری قیادت نظر بند تھی اور ڈیڈ لاک ہو چکا تھا۔عام انتخابات کے بعد تحریک کے ابتدائی حصے میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی مفاہمت کی کوشش کی خود چل کر نوابزادہ نصراللہ اور مولانا مودودیؒ کے پاس پہنچے،ان کو بتا دیا گیا کہ مذاکرات کا اختیار کسی فرد کے نہیں پی این اے کی قیادت کے پاس ہے، چنانچہ بھٹو کو اس کوشش میں ناکامی ہوئی تھی اور تحریک شدت اختیار کرتی چلی گئی۔مولانا فضل الرحمن کے والد قومی اتحاد کے صدرتھے اور مولانا فضل الرحمن کارکن کی حیثیت سے فرائض ادا کرتے تھے۔ تحریک شدت اختیار کرتی چلی جا رہی تھی۔

ان سخت ترین حالات میں بھی کچھ لوگ مصالحت کی کوشش کرتے رہے،کسی کو بھی کامیابی نہیں ہوئی،ان حالات میں مجاہد اول سردار عبدالقیوم کی خدمات حاصل کی گئیں، ان کو حراست سے باہر نکالا اور تمام سہولتیں بہم پہنچائی گئیں اور انہوں نے زیر حراست قائدین سے بات چیت کی اور بالآخر مذاکرات کا دروازہ کھل گیا۔ پی این اے کی کمیٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مذاکرات ہوئے جو بقول نوابزادہ نصراللہ خان کامیاب ہو گئے تھے، لیکن جنرل ضیاء الحق مذاکرات میں بھی موجود تھے۔ چار، پانچ جولائی 77ء کو بھٹو حکومت ختم کر دی اور مارشل لاء لگا دیا۔ قوم نے پھر اسی مارشل لاء اور دورِ ضیاء کی سزا بھگتی، باقی حالات بتانے کی ضرورت نہیں، سب کو علم ہے۔یہ گذارش تو اس لئے بھی ہے کہ بدترین حالات میں بھی بات چیت ہی حالات سنبھالنے کا ذریعہ ہے اور یہ غیر مشروط شروع ہونا چاہئیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ مذاکرات کی بات ہوئی ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلے شکایتیں دور کی جائیں، اب اگر پہلے ہی یہ سب ہو جائے تو پھر مذاکرات کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ یہ بات تحریک انصاف کو سمجھنا چاہئے لیکن وہاں تو عقابوں کی بھرمار ہے جو مذاکرات کا ذکر کرتے ہیں تو پتھر بھی مار دیتے ہیں۔ برسر اقتدار حضرات سے شکوہ یا شکایت ہے تو مذاکرات کس لئے ہوں گے۔ بات چیت ہی میں تو مطالبات اور شرائط کا بھی ذکر آتا اور فیصلہ ہوتا ہے اس لئے بہتر عمل یہ ہے کہ کم بولو اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی ختم کر کے میز پر بیٹھو اور اللہ کا نام لے کر بات چیت شروع کرو۔ اللہ کرم کرے گا۔

جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو وہ کافی مشتعل ہیں اور مدرسوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے جو بِل صدارتی اعتراضات کے ساتھ واپس ہوا ہے وہ صدر نے منظور نہیں کیا اور اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا ہے۔یوں اعتراض کے بعد جو بِل واپس آتا ہے اگر حکومت کی منشاء اسے جوں کا توں منظور کرانا ہو تو اس کے لئے دونوں ایوانوں (پارلیمنٹ کا مشترکہ) کا اکٹھا اجلاس بُلا کر بِل کی منظوری لینا لازم ہے یا پھر ترامیم کر کے اسے پھر سے ایوانوں سے منظور کرا کے صدر کو بھیجا جائے، لیکن مولانا ان تمام قواعد سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس بِل کی منظوری کے طور پر حکومتی اعلانات اور کارروائی چاہتے ہیں،انہوں نے ببانگ ِ دہل کہا ہے کہ یہ مسودہ یا بل باقاعدہ قانون بن چکا کہ دونوں ایوانوں نے منظوری دی تھی ایسے میں اب واپسی یا ترامیم کی کیا ضرورت ہے؟ وہ قواعد و ضوابط مانتے اور تسلیم کرتے ہیں اس کے باوجود بھی بضد ہیں کہ معاملہ جوں کا توں حل کیا جائے وہ تو مذاکرات کرتے رہے۔اب کیا رکاوٹ ہے، جب ہر طرف سے ان کا احترام کیا جا رہا ہے،حضرت مولانا کو بھی چاہئے کہ حکومت سے مذاکرات کریں۔ حکم صادر نہ کریں!

اپنا تبصرہ لکھیں