پچھلے ویک اینڈ ملتان جانا ہوا۔ 33سال پرانے دوست جمشید رضوانی کے دل کا پروسیجر ہوا تھا‘ اُسے ملنے جانا تھا۔ شکیل انجم سے بھی گپ شپ کرنی تھی۔ ایک اور دوست طاہر ندیم کی والدہ وفات پا گئی تھیں‘ اُس سے بھی تعزیت کرنی تھی۔
ملتان میں بہت وقت گزرا ہے۔ وہاں تو لگتا ہے کہ جس گلی‘ سڑک‘ محلے سے گزر جاؤ وہیں یادیں بکھری پڑی ہیں۔ کبھی کبھار تو یقین نہیں آتا کہ واقعی کبھی ملتان میں بھی کچھ برس گزرے اور کیا خوب گزرے۔ وہاں کمال دوست ملے۔ باقر شاہ ہوں‘ چودھری نیاز جیسے درویش لوگ ہوں یا پھر روشن ملک کے والد سے رات گئے محبت بھری ملاقاتیں۔
علی شیخ اور شعیب رضوانی کو کہا کہ ملتان سے مظفرگڑھ روڈ پر واقع نواب ہوٹل سے دال کھلاؤ۔ 1998ء میں آخری بار وہاں سے کھائی تھی۔ اب کی بار کھانے گئے تو وہی ذائقہ اور وہی مزہ۔ حیران ہوا‘ کوئی چھبیس برس بعد بھی اپنا ذائقہ اور مزہ برقرار رکھ سکتا ہے۔
کچھ بھی ہو جائے ہم تینوں‘ شکیل انجم‘ جمشید رضوانی اور میں نے ضرور لمبی گپ شپ کرنی ہوتی ہے۔ شکیل انجم ہمارا مُنا بھائی ہے۔ آپ کبھی مشکل میں ہیں‘ تکلیف میں ہیں تو وہ سب دوستوں کے لیے حاضر ہے۔ میرا ماننا ہے کہ آپ کا اور کوئی دوست ہو یا نہ ہو لیکن برج سرطان والا دوست ضرور ہونا چاہیے‘ پھر آپ بے فکر رہیں۔ شکیل کا وہی ستارہ ہے۔
اسلام آباد واپسی سے پہلے دل کیا کہ ڈاکٹر انوار احمد سے ملا جائے اور کچھ یونیورسٹی کے دنوں کی یادیں تازہ کی جائیں۔ اب اسلام آباد واپس پہنچا ہوں تو ڈاکٹر انوار صاحب کا ایک خط میرا منتظر ہے۔ لکھتے ہیں کہ کل جب ہم ملتان کے چند بڑے لوگوں کا ذکر کر رہے تھے تو ان کے ایثار‘ علم افروزی اور استغنا کے مشن کو تقویت دینے والی ان کی بیواؤں کا بھی ذکر آیا۔ ادبی سطح پر ترقی پسند ادبی تحریک اور پنڈی سازش کیس کے اہم کردار سجاد ظہیر (”روشنائی‘‘ کے مصنف) کی بیٹی نور ظہیر نے زور دار طریقے سے ”میرے حصے کی روشنائی‘‘ میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ بہت سے لوگ میرے والد کی کمٹمنٹ اور اسیری کا ذکر تو کرتے ہیں اور میری ماں رضیہ سجاد ظہیر کی استقامت وغیرہ کا بھی مگر کسی نے سوچا کہ عوامی رہنما کے جیل جانے کے بعد اُن کی بیگمات کو بچوں کو پالتے ہوئے اور تعلیم دلاتے ہوئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ اس کے بعد جامعات میں بھی مقالات کے موضوعات میں تبدیلی ہوئی (مجھے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ملتان یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو کی پہل قدمی تاریخ کا حصہ ہے) اچھے مقالے لکھے گئے‘ ایلس فیض‘ بیگم حبیب جالب اور دیگر ایسی خواتین کے بارے میں۔ میں اس مکتوب کے ذریعے تین ایسی خواتین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں‘ نجمہ نصیرالدین صدیقی‘ فہمیدہ مرزا ابن حنیف اور زبیدہ خلیل صدیقی۔ اگرچہ اس مشن میں کچھ اور لوگوں کا ایثار بھی قابلِ ذکر ہے جیسے لطیف عارف مرحوم‘ سید افتخار حسین شاہ مرحوم‘ سومرو مرحوم‘ اقبال ساغر صدیقی مرحوم تاہم میں نے جن بڑی خواتین کا ذکر کیا ہے وہ کم و بیش 85برس کی عمر میں ہیں اور شعبۂ اُردو کی خلیل صدیقی ریسرچ لائبریری اور سرائیکی ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھنے والی ہیں۔ خلیل صدیقی مرحوم پر تو میں نے بہت لکھا ہے مگر ان کی بیگم زبیدہ صدیقی نے ان کا پورا کتاب خانہ ان کی وفات کے بعد ہماری اس لائبریری کو عطیہ کر دیا۔ جب میرا ایڈہاک لیکچرار کا تقرر چار مئی 1971ء کو بغیر جعلی ڈومیسائل بنوائے ہوا اور میں نے گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں پڑھانا شروع کیا تو صدیقی صاحب کالج کے پرنسپل تھے۔ عام طور پر ہر روز شام کا کھانا پرنسپل لاج میں کھاتا تھا۔ ان کی بیگم مجھ سے پردہ کرتی تھیں مگر ایک شام وہ ڈائننگ ٹیبل پر یہ کہہ کر بیٹھیں کہ میں نے پرنسپل لاج کے کچھ بلوچ ملازموں کو یہ کہتے سنا ہے کہ انوار احمد‘ صدیقی صاحب کا بیٹا ہے مگر موجودہ بیگم صاحبہ اس کی سوتیلی ماں ہیں‘ سو میں ان سب کو بتانا چاہتی ہوں کہ انوار میرا حقیقی بیٹا ہے۔ اب بھی میری بیوی کی کسی شکایت پر ڈانٹ ڈپٹ سے بھرا ان کا جلالی فون آتا ہے تب وہ کہیں کہیں سوتیلی ماں لگتی ہیں مگر میں ان کے سامنے کبھی بول نہیں سکا۔ مرزا ابنِ حنیف سے تو آپ واقف ہیں مگر میں ان کی بیگم صاحبہ کو مرزا صاحب کی وفات کے بعد اپنی چاروں بیٹیوں کی خبر گیری اور علالت کے باوجود سرائیکی ریسرچ سنٹر کے میوزیم کے لیے اُن کے عطیات اور خاص طور پر بودھ کی سالم مورتی کے عطیے کو فراموش نہیں کر سکتا۔ بس کبھی کبھار آزردگی ہوتی ہے جب کوئی میرا نادان شاگرد سرائیکی ایریا سنٹر کی ڈائریکٹر کے انٹرویو کا کوئی کلپ بھیج دیتا ہے جس میں وہ باور کرا رہی ہوتی ہیں کہ سرائیکی سنٹر کے میوزیم اور اس مورتی کے حصول کے لیے انہوں نے کیا کیا جتن کیے‘ وغیرہ وغیرہ۔ میری صرف کرسی نشینیوں سے التماس ہے کہ وہ تاریخ اور ثقافت کا چہرہ بے شک مسخ کریں مگر تین چار ماہ میں ایک آدھ مرتبہ اپنے روئے زیبا کو مرزا صاحب کے گھر میں طلوع ہونے کی زحمت دیں‘ ایک گلدستے کے ساتھ اور ممنونیت کے ساتھ یاد کریں‘ اُن کے خانوادے کے علمی احسانات کو۔
نصیرالدین صدیقی اُردو کے استاد تھے اور ان کی بیگم نجمہ نصیرالدین ہر سگھڑ خاتون کی طرح بہت سے پیسے کتابوں کی خریداری پر خرچ کرنے سے الجھتی تھیں۔ میں زمانہ طالب علمی میں ان کے گھر میں بیٹھا تھا جب انہوں نے اپنے شوہر کی معصوم چوری پکڑی تھی کہ جو ”کمیٹی‘‘ انہوں نے واشنگ مشین خریدنے کے لیے ڈالی تھی‘ نصیر صاحب کمیٹی والی باجی سے وہ رقم لے کر کتابیں لے آئے۔ میں نے اس دن نجمہ صاحبہ کا جلال دیکھا مگر برس ہا برس کے بعد میں ان کے گھر گیا اور استاد کی کتابوں کے لیے دامن پھیلایا تو انہوں نے اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر علاء الدین (ڈینٹل سرجن‘ اب آسٹریلیا میں ہوتے ہیں) اور چھوٹے بیٹے شاہد (جو کسی فارما سوٹیکل کمپنی میں ہے) سے کہا کہ یہ کتابیں آج ہی انوار کے شعبے کی لائبریری میں پہنچاؤ۔ میں نے جمشید رضوانی سے بھی آپ کے سامنے کہا کہ کسی دن آپ اپنی بیگم صاحبہ ڈاکٹر فرزانہ کوکب‘ سربراہ شعبۂ اُردو کے ہمراہ جا کے نجمہ نصیرالدین صدیقی کی خدمت میں پھول پیش کریں اور انہیں بتائیں کہ ہمارا شعبہ اپنے محسنوں کو نہیں بھول سکتا۔
میاں سومرو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے طارق سومرو کی دستار بندی پر رکن قومی اسمبلی پیر ریاض حسین قریشی نے اعلان کیا تھا کہ ان کے والد کا کتاب خانہ باغ لانگے خان لائبریری میں جائے گا۔ میں نے شور مچایا کہ مرحوم نے یہ کتاب خانہ ہمارے سرائیکی ریسرچ سنٹر کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ طارق مرحوم مجھ سے علیحدگی میں ملے اور کہا: میرے والد کی کوئی تحریر آپ کے پاس ہے؟ میں نے کہا: آپ کی ایک بہن طاہرہ میری شاگرد ہے‘ میں ان کے ساتھ آپ کے ابو کے کتاب خانے سے واقف ہوا تھا۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ ہر کتاب پر ان کے کمال کے تبصرے ہیں اور آپ چونکہ ملک سے باہر تھے‘ وہ آپ کو سرائیکی میں یہ یہ گالیاں دیتے تھے۔ طارق رو پڑے اور کہا کہ یہ میرے والد کی پسندیدہ گالیاں ہیں۔ اسی دن یہ کتاب خانہ فرنیچر سمیت سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر میں آ گیا۔
میں برمنگھم گیا تو اپنے استاد سید افتخار شاہ مرحوم کی قبر سے سرگوشی کی کہ شاہ جی میں بھلا نہیں سکتا جب آپ نے میاں جھنڈیر کی پیشکش مع دستخط شدہ چیک‘ جس میں رقم کا اندراج ہونا تھا‘ مسترد کرکے کہا تھا کہ میری کتابیں شعبۂ اُردو میں جائیں گی۔ تب مجھے میاں غلام احمد جھنڈیر نے کہا تھا کہ جب تک ملتان یا اس دنیا سے آپ تشریف نہیں لے گئے تب تک ہر صاحبِ علم کے دروازے پر لکھا ہوتا تھا کہ ایک سوالی پہلے آیا تھا اور اس کے پاس چیک بک بھی نہیں تھی۔