رپورٹ(علی احمدڈھلون سے)موہن جو دڑو (سندھی:موئن جو دڙو اور اردو میں عموماً موئن جو دڑو بھی؛ انگریزی: Moenjo-daro)
وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی، وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ صوبہ پنجاب سے 686 میل دور ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ء میں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔
1921ء کا واقع ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار راکھال داس بینرجی کو موہن جودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی، ڈائریکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ آثاریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا تاہم کھدائی کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔
وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922ء میں موہن جو دڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جا سکا۔ موہن جو دڑو کے کھنڈر دوکری سے کوئی نو میل کے فاصلے پر لاڑکانہ کی حدود میں واقع ہے۔
موہن جو دڑو کا عمومی پلان ہڑپہ جیسا ہی تھا۔ شہر کے مغرب میں قلعہ ہے۔ شہر کی گلیوں کی ترتیب و مکانات اور اناج گھر سب ہڑپہ جیسے ہیں۔ البتہ یہاں کی منفرد اور سب سے نمایاں چیز بڑا اشنان گھر ہے۔ بڑا غسل خانہ، بڑی باؤلی یا عظیم حمام۔ یہ ایک بڑی سی عمارت ہے۔ جس کے وسط میں ایک بڑا سا تالاب ہے۔ یہ تالاب شمالاً جنوباً 39 فٹ لمبا اور شرقاً غرباً 23 فٹ چوڑا اور آٹھ فٹ گہرا ہے۔ شمال اور جنوب دونوں سمت سے اینٹوں کے زینے اندر اترتے تھے۔ جن پر لکڑی کے تختے چپکا دیے گئے تھے۔ تالاب کی چار دیواری کی بیرونی سمت پر بھی لک ( بچومن ) کا لیپ کیا گیا ہے۔ لک ہائیڈرو کاربن کا قدرتی طور پر نکلنے والا مادہ ہے اور فطرت میں مختلف حالات میں دستیاب ہے۔ لک کے لیپ سے تالاب میں سے پانی کے رسنے کا سد باب کیا گیا ہے۔
اسی طرح موہنجودڑو دریائے سندھ کے اندر ایک جزیرہ نما خشکی پر واقع تھا۔ اس کے ایک طرف دریائے سندھ تھا اور دوسری طرح دریائے سندھ سے نکلنے والا نالہ (جسے نارا کہتے ہیں) بہتا تھا۔ یہ آگے جا کر واپس دریا میں مل جاتا تھا۔ اسی لیے شہر کی حفاظت کے لیے ایک میل لمبا حفاظتی بند باندھا گیا تھا۔ موہنجودڑو میں بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے۔ سیلاب کی لائی ہوئی گار سے اس شہر کی سطح اردگرد کی زمین سے تیس فٹ بلند ہوگئی۔
ہم جب موہن جو دڑو جیسا عالی شان شہر دیکھتے ہیں جس کے مکانات پختہ اور مضبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں۔ ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں، ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ عجیب بات موہن جو دڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں، وہ سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے زوال آتا رہا۔
موہن جو دڑو میں قلعہ اصل شہر کے اندر ایک منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا تھا، جس کے اردگرد گلیاں ایک جال کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں اور گلیوں کے اس جال میں جگہ جگہ عمارتوں کے بلاک میں قلعہ اور شہر اور قلعے کے درمیان میں ایک واضح خلا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قلعہ کے اردگرد وسیع اور گہری خندق ہو۔ جس میں پانی چھوڑا گیا ہو یا پھر دریا کا پانی لایا گیا ہو یا قدرتی طور پر دریا کی ایک شاخ نے اس کو جزیرے کی شکل میں گھیر رکھا ہو۔
موہن جودڑو کا قلعہ ایک ٹیلے پر واقع ہے، جو جنوب میں سطح زمین سے بیس فٹ اونچا ہے اور شمال میں چالیس فٹ۔ آج کل دریائے سندھ کی ایک شاخ اس سے تین میل کے فاصلے پر بہتی ہے۔ جب یہ شہر آباد تھا اس وقت قلعے کی مشرقی دیوار کے پاس سے دریا کی ایک شاخ گزرتی تھی۔ مغربی جانب جو حفاظتی بند تھا، اس سے ایک میل دور دریا تھا۔ قلعہ ایک چبوترے پر واقع ہے۔ چبوترا مٹی اور کچی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ جس زمانے سے اناج گھر اور اشنان گھر تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے نیچے بھی کئی دور رہائش کے مدفون ہیں۔ مگر زیر زمین پانی کی سطح اونچی ہونے کی وجہ سے ابھی تک کھدائی نہیں ہو سکی۔ تاہم جو کچھ ہو سکا ہے اس کے مطابق اوپر سے نیچے تک سات سطحیں ملی ہیں۔ ساتویں سطح سے نیچے ابھی تک کھدائی نہیں ہو سکی۔ چھٹی اور ساتویں سطح کے درمیان میں بیس فٹ موٹی تہہ مٹی اور اینٹ کے روڑوں کی بچھائی گئی ہے۔ گویا پرانا شہر سیلاب سے تباہ ہوا یا سیلاب آیا تو پورے شہر کے اوپر بیس فٹ اونچا چبوترا بنا کر نیا شہر تعمیر کر لیا گیا۔ موہن جو وڑو کے قلعے کے جو برج بنائے گئے ہیں، ان میں بعض جگہ لکڑی کے شہتیر کا ردا لگایا گیا ہے۔ جو نو فٹ لمبا اور پانچ فٹ چوڑا ہے۔ لیکن بعد میں یہ شہتیر گل گئے تو کہیں کہیں اینٹوں کی مرمت کر دی گئی۔ شہتیروں کا یہ عجیب و غریب استعمال ہڑپہ کے اناج گھر میں بھی کیا گیا ہے۔ بعد میں آنے والے معماروں نے یہ طریقہ ترک کر دیا۔ دو برج ایک چور دروازے کے دائیں بائیں بنائے گئے تھے۔ بعد میں یہ چور دروازہ بند کر دیا گیا اور یہاں فصیل تعمیر کر دی گئی۔ اس فصیل کے اوپر دونوں طرف قد آدم دیواریں بنا کر دونوں برجوں کے اس چور دروازے کو بند کر دیا گیا۔ اس جگہ سے مٹی کے 100 باٹ ملے ہیں۔ جن میں کچھ چھ اونس وزن کے ہیں اور باقی ماندہ بارہ اونس کے (بالترتیب ایک پاؤ اور آدھا سیر) قلعے کے جنوب میں ایک برج ہے اور اس کے قریب عقبی دروازہ ہے۔ موہن جو دڑو قلعے کا دفاعی نظام ہڑپہ کے قلعے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
موہنجودڑو کی کھدائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر بتدریح ذوال پزیر ہوا۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار جب نئی تعمیرات ہوئیں تو ان کا معیار پہلے سے بہت پست تھا۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دارلحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہو گیا۔
اس غربت کی وجہ کھیتوں کی ذرخیزی میں کمی یا آبپاشی کے نظام کا آہستہ آہستہ ناکارہ ہوجانا تھا یا اینٹوں اور برتنوں کے بھٹیوں میں جلانے کے جنگلات کو کاٹ کاٹ کر ختم کردینا سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بارشیں کم ہوئیں اور خشک سالی ہوگئی۔ لیکن موہنجودڑو کی کھدائی شدہ سطحوں میں کم از کم تین سیلابوں کا ثبوت ملا ہے۔ جس سے شہر بالکل تباہ ہو گیا۔ ہو سکتا ہے ایسی تباہی نچلے حصہ میں بھی آئی ہو۔ ان سیلابوں نے جو مٹی بجھائی ہے اس کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مٹی ٹہرے ہوئے پانی کی ہے، بہتے ہوئے پانی کی نہیں۔ جس کا مطلب ہے دریا کے نچلے حصے کی زمین ارضیاتی تبدیلوں سے اوپر اٹھی دریا نے واپس حملہ کیا اور شہر غرق ہو گیا۔
یہ طے شدہ ہے کہ بار بار کے سیلابوں نے تباہی مچائی اور یہ ایک عنصر تھا۔ لیکن تہذیب کی حتمی تباہی کسی عظیم طوفان نوح کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ بار بار کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں بتدریج تھی۔ کچھ شواہد حملے اور قتل عام کے بھی ملتے ہیں۔ چھ جگہوں سے لاشیں ملی ہیں۔ جن میں پانچ جگہوں پر متعدد آدمی یکجا مرے اور ایک جگہ ایک اکیلا آدمی ملا ہے۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے :
ایک عوامی کنواں ایک کمرے میں واقع ہے۔ برابر کی گلی سے اونچی ہے اور گلی میں سے سیڑھیاں اس کنویں کے کمرے میں اترتی ہیں۔ ان سیڑھیوں پر دو آدمی مرے پڑے ہیں۔ ایک عورت اور ایک ان میں سے ایک الٹا گرا ہے۔ دو لاشیں گلی میں پڑی ہیں۔ یہ شہر کے آخر زمانے کے لوگ تھے۔ ایک لاش کمرے کے پختہ فرش پر پڑی تھی دوسری پختہ کمرے میں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کنواں اس وقت زیر استعمال تھا اور اسی وقت یہ لوگ مر کر گرے ہیں۔ ان کے ڈھانچے مدفون حالت میں نہیں پائے گئے ہیں۔
ایک گھر میں چودہ ڈھانچے ملے ہیں تیرہ مرد ایک عورت اور ایک بچہ۔ ان میں سے کسی نے گنگن پہن رکھے تھے، کسی نے انگوٹھیاں اور کسی نے منکوں کے ہار۔ یہ لوگ یقینا ایک ہی حملے میں قتل ہوئے ہیں۔ ایک آدمی کی کھوپڑی میں 1146 ملی میٹر لمبا کٹاؤ ہے۔ جو یقینا تلوار یا خنجر کا زخم ہے۔ بعض دوسری کھوپڑیوں پر تشدد کے آثار ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے یہ لاشیں شہر کی آخری تباہی کے وقت کی ہیں۔
ڈاکٹر جارج ایف ڈیلز میں 1942ء میں موہن جو وڑو کی کھدائی میں پانچ ڈھانچے ڈھونڈے جو چاروں شانے چت پڑے تھے۔ یہ گلی کے ایک کونے سے ملے ہیں۔ سر مارٹیمر ویلر کا خیال ہے شاید یہ لوگ حملے کے وقت چھپے ہوئے کھڑے تھے۔ ان میں تین مرد، ایک عورت اور ایک بچہ ہے۔ ان کا زمانے بھی موہنجودڑو کا آخری زمانہ تھا۔
ایک گلی میں چھ ڈھانچے ان میں ایک بچہ ملا ہے۔ ایک گلی میں ایک ڈھانچہ ملا ہے۔
ایک جگہ نو ڈھانچے ملے ہیں جو مڑے تڑے تھے۔ ایسا لگتا ہے کسی نے جلدی میں نو لاشیں گڑھے میں ڈال دی ہیں۔ مگر ان کے پاس ہاتھی کے دو بڑے دانت ملے ہیں۔ اس کا مطب ہے یہ ہاتھی کے دانت کا کام کرنے والا کنبہ تھا۔ جو جلدی میں بھاگ رہا تھا کہ قتل ہو گیا اور کسی نے انہیں گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔ یہ واحد شعوری طور پر دفن کئے گئے ہیں۔ یہ بھی شہر کا آخری زمانہ ہے۔کل اڑتیس لاشیں اس افراتفری کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر میں قتل عام ہوا تھا۔ قلعہ لاشوں سے پاک ہے۔
سر مارٹیمر ویلر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ دوسری ہزاروی قبل مسیح میں بلکہ اس کے وسط میں یعنی 1500 قبل مسیح میں آریاؤں نے حملہ کرکے اس شہر کو تاراج کیا ہوگا۔
جب موہن جو وڑو بتدریج زوال پزیر ہوا۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار نئے لوگوں کا معیار پہلے سے بہت پست تھا۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دارلحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہو گیا اس غلاموں کی بغاوت کا لامتناہی سلسلہ وہ بنیادی سبب ہے جس نے سندھ تہذیب اور سندھ سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا۔ متفرق شہروں کے بار بار جلنے اور اس کے بعد کمتر دستکاری کے مروج ہونے کے بہت سے ثبوت آثار قدیمہ نے فراہم کئے۔ یہ کمتر دستکار دیہی کمی تھے جو سماج کی پست ترین سیڑھی پر تھے۔ یہ کوئی باہر سے آنے والی فاتح اقوام کے افراد نہیں تھے۔ مقامی غلام تھے۔ یہی وجہ ہے سندھ کا کوئی شہر یا قصبہ تباہ ہوتا تو اگلی مرتبہ کمتر ثقافت دیکھنے میں آتی۔ کو بغاوتوں اور تجارتی قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملوں اور شہروں پر کسانوں کے حملے ہونا فطری سی بات ہے۔ ان روز روز کی بغاوتوں نے سلطنت کو بہت کمزور کر دیا۔ جگہ جگہ ریاستی مشنری شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی۔
یہ صورت حال تھی جب آریاؤں کے وحشی قبائل مغرب سے داخل ہوئے اور ان کے پے درپے حملوں نے سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یہ ماننا پڑے گا کہ ذوال آمادہ تہذیب 1700 ق م میں آریاؤں کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ مگر آریاؤں کا حملہ آخری عنصر کی حثیت رکھتا ہے۔