وزرائے اعظم کا سلیکٹڈ سے الیکٹڈ تک کا سفر

فرض کریں کہ حکومت والے سچ کہتے ہیں کہ عمران خان سلیکٹڈ تھے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ذہن میں ایک الجھن پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ملک کی تاریخ میں کیا عمران خان پہلے سلیکٹڈ حکمران تھے یا ان سے پہلے بھی سلیکٹڈ حکمران ہو گزرے ہیں؟ مثلاً صدر جنرل سکندر مرزا کی مہربان آنکھوں نے نوجوان بیرسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو چنا اور اپنی کابینہ میں وزیر بنالیا۔ یہ وہی جنرل سکندر مرزا تھے جن کی پشت پناہی اُس وقت کی ملٹری سٹیبلشمنٹ کررہی تھی۔ جنرل سکندر مرزا کی ذلت آمیز چھٹی کے بعد اُس وقت کی ملٹری سٹیبلشمنٹ کے سربراہ جنرل ایوب خان نے ملک کی سربراہی سنبھالتے ہی باصلاحیت بیرسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی پدرانہ شفقت دی۔ اسی لیے ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کو سیاست میں اپنا ڈیڈی کہتے تھے۔ ایک مبینہ روایت کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے ہی جنرل ایوب خان کے لیے فیلڈ مارشل کا عہدہ تجویز کیا تھا۔ جنرل ایوب خان کی چھٹی ہونے پر جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء لگایا تو سمجھدار ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ کے اِس اقدام کو خوش آمدید کہا۔ مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ بھی ذوالفقار علی بھٹو کے معترف نکلے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو اُس وقت کی فوجی سٹیبلشمنٹ کے سلیکٹڈ نہ ہوتے تو 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل ہوجاتا اور 1970ء کے شفاف انتخابات کے بعد اقتدار کی شفاف منتقلی ہوجانے کے نتیجے میں پاکستان دولخت نہ ہوتا لیکن جیسے الفت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں ویسے ہی سلیکٹڈ کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ لہٰذااکثریتی جماعت عوامی لیگ کو نظرانداز کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے لیے پھولوں کی سیج تیار کردی گئی۔ یہ علیحدہ بات کہ اس کاروائی میں پوری قوم کانٹوں سے گزرتے ہوئے اس قدر لہولہان ہوگئی کہ آج تک زخم بھرنے کو نہیں آتے۔ کہیں ذوالفقار علی بھٹو کا جنرل سکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ کا پسندیدہ ہونا سلیکٹڈ کے مفہوم میں تو نہیں آتا؟ بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے 1988ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ ان کے مدمقابل آئی جے آئی کا اتحاد تھا۔ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی دونوں کے پاس قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں نہ تھیں کہ وہ اپنی حکومت بناسکیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی نے آزاد امیدواروں اور دوسرے منتخب اراکین کو اپنے ساتھ ملانے کی تگ و دو شروع کردی۔ اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان بینظیر بھٹو کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دینے سے ہچکچا رہے تھے لیکن مبینہ طور پر امریکہ نے صدر غلام اسحاق خان پر دبائو بڑھانا شروع کردیا کہ بینظیر بھٹو کو حکومت دی جائے۔ لہٰذا انتخابات کے 2ہفتے بعد صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کو حکومت بنانے کی باقاعدہ دعوت دی اور اس موقع پر ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی اتحادی بن گئی۔ یہ تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم نے بھی کسی بیرونی دبائو کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا ہوگا۔ اس طرح 1988ء میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ حکومت کی سربراہ بینظیر بھٹو تھیں۔ کہیں بینظیر بھٹو کو امریکی دبائو کے بعد وزیراعظم بنانا سلیکٹڈ کے مفہوم میں تو نہیں آتا؟ نواز شریف 1990ء میں پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان عام انتخابات کے بارے میں اُس وقت رائے عامہ کے جتنے بھی سروے تھے اُن میں بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی لیکن انتخابات کے نتائج نے سب تجزیہ نگاروں کو حیران کردیا کیونکہ 1990ء کے عام انتخابات میں پاپولر جماعت پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں صرف 44 سیٹیں جبکہ ان کے مدمقابل اتحاد آئی جے آئی نے 111 سیٹیں حاصل کیں۔ اس طرح آئی جے آئی کے رہنما نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ اس گیم چینجر نقشے کے ماسٹرمائنڈ صدر غلام اسحاق خان تھے جنہوں نے مبینہ طور پر اُس وقت کی ملٹری سٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر انتخابات کے نتائج کو آئی جے آئی کے حق میں تبدیل کیا۔ صدرغلام اسحاق خان نے ہی 1990ء کے انتخابات کرانے کے لیے نگران حکومت کی سربراہی غلام مصطفی جتوئی کو دی جو خود آئی جے آئی کے سربراہ تھے۔ اس سب کا مقصدپیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو جان بوجھ کر کمزور کرنا تھا۔ بعد ازاں 2012ء میں اصغرخان پٹیشن کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ دو آرمی جرنیلوں جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی نے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ مل کر اپنی منظورِ نظر جماعتوں کو مالی معاونت دی۔ کہیں نواز شریف کو صدر اور ملٹری سٹیبلشمنٹ کی طرف سے 1990ء میں وزیراعظم بنانا سلیکٹڈ کے مفہوم میں تو نہیں آتا؟ اگر فرض کریں یہ سچ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف سلیکٹڈ ہونے کے بعد رفتہ رفتہ الیکٹڈ اور جمہوری ہونے لگے اور سِول سپرمیسی کے بڑے مبلغ بن گئے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ذہن میں ایک الجھن پیدا ہوتی ہے کہ اتنی جلدی بھی کیا ہے کیونکہ عمران خان بھی تو پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تھے۔ ہو سکتا ہے رفتہ رفتہ وہ بھی ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے نقش قدم پر چل نکلیں اور حقیقی الیکٹڈ بن جائیں۔ یعنی ’’آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہوگئے‘‘ میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے۔ اگر فرض کریں کہ گزشتہ 77 برسوں میں وزیراعظم بننے کی اندرونی کہانی لکھی جائے تو اُس کتاب کا نام سلیکٹڈ ہی ہوگا کیونکہ یہ سچ ماننا پڑے گا کہ ہر وزیراعظم پہلی مرتبہ تو سلیکٹڈ ہی ہوتا ہے تاہم دوسری مرتبہ الیکٹڈ بننے کی کوشش کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں