ہر چند ماہ بعد ایک ایسا وقت آتا ہے جب ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار سے پاکستان کے کسی بھی حصے میں جانے کیلئے لوگوں کو ایک کانوائے کی شکل میں سفر کرنا پڑتا ہے۔اس کی وجہ پاڑہ چنار اور ٹل کے درمیان واحد رابطہ سڑک پر حملوں کا خطرہ ہے۔ ایسے حملے جو زمینوں کے اس تنازعے سے جڑے ہیں جس سے اٹھنے والی لڑائی چند گھنٹوں میں فرقہ ورانہ فسادات میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر یہ سلسلہ کئی ہفتے جاری رہتا ہے۔
پاکستان کے نارتھ ویسٹرن بارڈر پر موجود ضلع کرم کا صدر مقام پاڑہ چنار ہے جہاں آبادی کی اکثریت اہلِ تشیع مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔پاڑہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں سدہ کے علاقے سے گزرتی ہے۔ یہ علاقہ یعنی سدہ، سنی اکثریتی آبادی پر مشتمل ہے۔جب بھی یہاں فرقہ واریت بڑھتی ہے یا زمینوں پر تنازعہ پھیلتا ہے تو پاڑہ چنار کے رہائشیوں کو سدہ کے سنی اکثریتی علاقے سے گزرنے کیلئےسکیورٹی فورسز کی گاڑیاں تحفظ فراہم کرتی ہے۔
پاڑہ چنار کے داخلی مقام اور ٹل اور کرم کی سرحد پر واقع چپڑی چیک پوسٹ کے مقام پر وہ لوگ جمع ہوتے ہیں جنھیں پاڑہ چنار سے ملک کے دیگر حصوں یا دیگر شہروں سے پاڑہ چنار کی جانب سفر کرنا ہو۔ اور پھر یہ گاڑیاں، ایف سی، فوج یا پولیس کی حفاظت میں ایک کانوائے کی شکل میں اس سڑک پر سفر کرتی ہیں۔
اس کانوائے کا آخری سٹاپ پاڑہ چنار سے تقریبا سو کلو میٹر کے فاصلے پر موجود باب کرم ہے جو ٹل کے ساتھ سرحد پر واقع ہے۔حالات خراب ہونے کی صورت میں یہ سڑک کئی دن تک ہر قسم کی آمدو رفت کیلئے بند کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ مشکلات کا شکار پاڑہ چنار کے شہری ہوتے ہیں۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ یہ سڑک بند کی گئی ہو یا یہاں پرتشدد واقعات ہوئے ہوں۔
حالیہ تاریخ میں دو ہزار سات میں شروع ہونے والے فسادات اس قدر شدید تھے کہ مسافر گاڑیاں روک کر سواریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا جا رہا تھا۔ اس سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ اور پاڑہ چنار کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے والی یہ واحد سڑک طویل عرصے تک بند رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاڑہ چنار کی مقامی آبادی افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہونے پر مجبور تھی۔