پاکستان کی فوجی عدالتوں نے 2023 میں فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہونے پر 25 افراد کو 2 سے 10 سال قید کی سزائیں سنائیں۔ یہ واقعات 9 مئی 2023 کے فسادات کے دوران پیش آئے، جو سابق وزیرِاعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں پھیلے۔ ان فسادات میں فوجی تنصیبات پر حملے، توڑ پھوڑ، اور دیگر پرتشدد واقعات شامل تھے۔ فوج کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) نے ان سزاؤں کو انصاف کی فراہمی میں ایک اہم قدم قرار دیا اور عوام کو خبردار کیا کہ وہ سیاسی پروپیگنڈے کے زیرِاثر قانون ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ انصاف اس وقت مکمل ہوگا جب ان واقعات کے اصل منصوبہ سازوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
یہ پیشرفت سپریم کورٹ کے ایک اہم فیصلے کے بعد سامنے آئی، جس نے فوجی عدالتوں کو تقریباً 85 شہریوں کے مقدمات میں فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی۔ تاہم، جمہوری حکومتوں میں فوجی عدالتوں کے ذریعے سویلینز کو سزا دینا ایک حساس اور متنازع معاملہ ہے جو کسی بھی طور قابل ستائش نہیں اور اس کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی ۔ ـ یہ انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں پر سوال اٹھاتا ہے۔ البتہ موجودہ حالات میں، جہاں عام عدالتوں کے جج یا تو سیاست زدہ ہیں یا پھر واضح ثبوتوں کے باوجود سنگین مقدمات میں فیصلہ دینے سے خوفزدہ ہیں، فوجی عدالتوں کی ضرورت کو مجبوری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی سیاست نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو ایک نئی سمت دی، لیکن یہ سمت زیادہ تر منفی اثرات کے ساتھ آئی۔ ان کی قیادت میں حامیوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف تضحیک آمیز زبان اور جارحیت کی ترغیب دی گئی، جس نے سیاست میں برداشت اور شائستگی کے کلچر کو نقصان پہنچایا۔ اقتدار سے پہلے اور اقتدار میں آنے کے بعد، اس کی تضحیک اور تنقید کا نشانہ اس کے سیاسی مخالفین اور اس کی سوچ سے اختلاف رکھنے والے رہے، کیونکہ فوج، عدلیہ، اور میڈیا اس کے حامی اور سہولت کار تھے اور سب ایک صفحے پر تھے۔ لیکن تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد، عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے اپنی تقریروں اور پروپیگنڈے میں سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ بار بار فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن، اور دیگر قومی اداروں کو نشانہ بنایا اور باقاعدہ نفرت انگیز مہم چلائی، جس سے ان کے حامیوں میں ان اداروں کے خلاف شدید نفرت کو فروغ ملا۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیموں نے اس بیانیے کو مزید تقویت دی، اور اداروں، سیاسی مخالفین، اور صحافیوں کے خلاف جھوٹے الزامات اور نفرت انگیز مواد پھیلایا۔ بیرون ملک مقیم حامیوں نے بھی اس مہم میں بھرپور حصہ لیا، مختلف ممالک میں فوج مخالف مظاہرے کیے، اور مسجد نبوی جیسے مقدس مقامات سمیت عوامی جگہوں پر سیاسی مخالفین کے خلاف نازیبا رویہ اپنایا اورعمران خان کے حامیوں کو اداروں کے خلاف نفرت پر اکسایا۔ یہ رویہ نہ صرف پاکستان کی سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کرتا گیا بلکہ سماجی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچاتا رہا۔ جس کا نتیجہ 9 مئی کے فسادات کی صورت میں ظاہر ہوا۔
سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ان کے رہنما نے صرف ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ 9 مئی کے فسادات اس کی ایک واضح مثال ہیں، جہاں کارکنوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فوجی تنصیبات پر حملے کے لیے اکسایا گیا۔ نتیجتاً، ان کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئیں، جبکہ قیادت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہ رویہ کارکنوں کے لیے مایوسی اور بے اعتمادی کا سبب بنا۔
سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کارکنوں کو مثبت سیاست کی تربیت دیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ کارکنوں کو صرف احتجاج اور انتشار کے لیے استعمال کرنے کے بجائے، انہیں سماجی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔ سیاست میں شائستگی، صبر، اور برداشت کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ جمہوریت مضبوط ہو اور معاشرہ سیاسی استحکام کی طرف بڑھے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رہنما سے یہ سوال کریں کہ انہیں بار بار پرتشدد مظاہروں کے لیے کیوں اکسایا جاتا ہے، اور جب وہ نتائج کا سامنا کرتے ہیں تو قیادت انہیں کیوں تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ جذبات کے بجائے ہوش سے کام لینا اور احتجاجی سیاست کے نقصانات کو سمجھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ تمام سیاسی کارکنوں کو شعور اور سمجھ بوجھ کے ساتھ سیاسی عمل میں حصہ لینا چاہیے تاکہ سیاست معاشرتی ترقی کا ذریعہ بنے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال ایک سبق ہے کہ اگر کارکنوں کو صرف ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کا نتیجہ نہ صرف کارکنوں بلکہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے بھی تباہ کن ہوتا ہے۔ سیاست میں نفرت، انتشار، اور بداعتمادی کی بجائے، اتحاد، برداشت، اور قومی اداروں کے احترام کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ وہ اصول ہیں جو نہ صرف تمام پارٹیوں کے کارکنوں بلکہ رہنماؤں کو بھی اپنانا ہوں گے تاکہ پاکستان ایک مضبوط، مستحکم، اور جمہوری ریاست بن سکے۔