پروفیسر امین مغل کا لاہور!

گزشتہ شام پروفیسر امین مغل صاحب سے گپ شپ کی نشست کے دوران، دیگر موضوعات کے علاوہ، انہوں نے پروفیسر حمید احمد خان، فیض احمد فیض، ایرک سِپریئن، مُلک راج آنند اور الطاف احمد قریشی۔ کے ساتھ بیتے ہوئے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ایک دو واقعات سُنائے۔
پروفیسر امین مغل نے بتایا کہ جب وہ اسلامیہ کالج میں لیکچرر تھے، تو اُن دنوں ایک سینئر پوسٹ خالی ہوئی تھی جس کے لیے دو نام فائنل کیے گئے: ایرک سِپریئن اور فیض احمد فیض۔ پروفیسر سِپریئن بہت قابل تھے، آکسفرڈ سے پڑھے ہوئے، لیکن عوامی حلقوں میں مشہور نہیں تھے اور اپنے کمیونسٹ نظریات کی وجہ سے لائم لائٹ میں آنے سے گریز کرتے تھے۔ دوسری جانب، فیض احمد فیض، اگرچہ ایک ترقی پسند شاعر اور مزدور دوست شخصیت تھے، لیکن انہیں ایک “کمیونسٹ” کے طور پر جانا جاتا تھا۔ نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں گرفتاری اور طویل عرصہ قید کی وجہ سے وہ پاکستان کے دائیں بازو والوں کے لیے راندۂ درگا قرار پا چکے تھے۔۔ امین مغل صاحب کے بقول فیض ترقی پسند شاعر تھے مگر وہ روایتی معنوں میں اتھیسٹ یا کمیونسٹ نہیں تھے۔
سیلیکشن کے اس پروسس میں پروفیسر حمید احمد خان کا اہم کردار تھا۔ پروفیسر صاحب خود بہت قابل اور پنجاب کے ایک اہم علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کیمبرج سے ایم لِٹ بھی کیا ہوا تھا۔ اُن کے والد نے روزنامہ زمیندار کا آغاز کیا گیا جسے بعد میں اُن کے سوتیلے بھائی ظفر علی خان نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ بہرحال پروفیسر حمید خان نے سیلیکشن کے عمل کی نگرانی کی اور انٹرویوز کیے۔
لیکن حتمی فیصلہ انجمن حمایت اسلام کے ایک بورڈ نے کرنا تھا۔ جب انجمن کا سیلیکشن بورڈ فیصلہ کرنے بیٹھا، تو یہ طے پایا کہ فیض احمد فیض کمیونسٹ ہیں، اس لیے ایرک سِپریئن کو منتخب کیا جائے کیونکہ وہ کمیونسٹ نہیں ہیں! یہ بات بیان کرکے امین مغل صاحب بہت دیر تک ہنستے رہے۔
پروفیسر امین مغل، پروفیسر ایرک سِپریئن، اور پروفیسر منظور احمد نے کئی برس اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں تدریس کی۔ پروفیسر مغل اور پروفیسر منظور احمد اساتذہ کے حقوق کے لیے سرگرم رہے، لیکن جنرل یحییٰ خان کے دور میں مارچل لا حکام، انجمن حمایت اسلام اور ایک اسلامی جماعت کی ملی بھگت سے بنائی گئی سیاسی سازش کے تحت انہیں کالج سے برطرف کروا دیا گیا۔ اس کے بعد پروفیسر منظور نے شاہ حسین کالج کا آغاز کیا جس میں یہ تینوں پھر سے درس و تدریس میں لگ گئے۔
الطاف احمد قریشی کا ذکر:
مغل صاحب نے بتایا کہ جوانی میں وہ ایک شرمیلے اور خاموش طبیعت کے حامل شخص تھے۔ ایسے لوگ عموماً زیادہ شہرت حاصل نہیں کرتے اور اپنی دنیا میں خوش رہتے ہیں۔ غالباً 1959 میں اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں ایک سیلیکشن پروسس کے بعد وہ انگریزی ادب کے لیکچرر بنے۔ اُس زمانے میں اردو اور انگریزی ادب کے اساتذہ دونوں انگریزی ادب بھی پڑھاتے تھے۔
اسلامیہ کالج کے پرنسپل پروفیسر حمید احمد خان تھے۔ ان کے کولیگز میں دیگر اساتذہ کے علاوہ سجاد باقر رضوی بھی شامل تھے۔ اسلامیہ کالج کے طلبہ میں قائدانہ صلاحیتیں اور سخنوری اجاگر کرنے کے لیے پروفیسر حمید خان نے “ینگ سپیکرز” کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہوئی تھی۔ پروفیسر سجاد باقر رضوی، جو اس وقت ایک نوجوان لیکچرر تھے، کو اس تنظیم کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔ تنظیم کا سیکریٹری طلبہ میں سے منتخب ہوتا تھا۔
کچھ عرصے بعد پروفیسر حمید کو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے کی پیشکش ہوئی۔ انہوں نے اپنے ساتھ دیگر کولیگز کو بھی یونیورسٹی جوائن کرنے کی دعوت دی۔ اُس وقت اکثر اساتذہ یونیورسٹی چلے گئے، لیکن پروفیسر امین مغل نے اپنے سینئر دوست پروفیسر ایرک سِپریئن سے مشورہ مانگا۔ پروفیسر سِپریئن، جو کہ مارکسسٹ نظریات کے حامل تھے، نے امین مغل سے کہا کہ یونیورسٹی ایک بڑا ادارہ ہے اور سب کی نظریں اُس پر ہوتی ہیں۔ وہاں گئے تو جلد سب کی نظروں میں آ جاؤ گے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کمیونسٹ پارٹی کالعدم قرار دی جا چکی تھی اور اس کے ارکان خفیہ طور پر سرگرم تھے۔ حکومت کی انٹیلیجنس ایجنسیاں کمیونسٹوں کو ڈھونڈتی پھرتی تھیں اور اگر کوئی پکڑا جاتا تو اُس کی زندگی اجیرن ہو جاتی۔ اس مشورے کے مطابق، امین مغل نے اسلامیہ کالج میں ہی رکنے کا فیصلہ کیا۔
کالج انتظامیہ نے انہیں “ینگ سپیکرز” کی اضافی ذمہ داری بھی دے دی، اور الطاف احمد قریشی، جو اس تنظیم کے سیکریٹری تھے جو اس وقت سٹوڈنٹ تھے، آمین مغل صاحب کی ذمہ داری بن گئے۔ مغل صاحب کے بقول، الطاف احمد میں بہت انیشی ایٹو تھا۔ وہ کئی مرتبہ اُن کی اجازت کے بغیر ینگ سپیکرز کے مہمان کا انتخاب کر کے دعوت دے دیتا تھا، جو بات مجھے پسند نہیں تھی، لیکن طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے میں تنظیم کے سیکریٹری کے کاموں کو اون کر لیتا تھا۔
ایک مرتبہ (غالباً 1963-64) میں الطاف احمد نے ینگ سپیکرز کے لیے اُس وقت انڈیا سے آئے ہوئے بائیں بازو کے مشہور دانشور مُلک راج آنند کو مہمان کے طور پر مدعو کر لیا۔ وہ برصغیر کے مشہور اردو اور انگریزی ادیب، ناول نگار، اور نقاد تھے، جنہیں سماجی مسائل اور طبقاتی ناانصافیوں پر مبنی اپنی تحریروں کے لیے جانا جاتا تھا۔ ان کا شمار ہندوستان کے ابتدائی انگریزی ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے عالمی شہرت بھی حاصل کی۔
ملک راج آنند کی آمد بڑی بات تھی، لیکن اُس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک حساس معاملہ تھا، کیونکہ ان میں وہ تمام “عیب” تھے جو کسی بھی ایجنسی کو سیخ پا کر سکتے تھے۔ لیکن دعوت دی جا چکی تھی، اور پروفیسر مغل نے الطاف احمد کے اقدام کو یہ سوچ کر اون کر لیا کہ یہ کالج کی اندرونی تقریب ہے اور خاموشی سے گزر جائے گی۔ تقریب کے بعد وہ الطاف احمد کو سرزنش کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
انجمن حمایت اسلام کے زیر انتظام اسلامیہ کالج میں ملک راج آنند کی آمد شہر کی ایک خبر بن گئی۔ اس تقریب کے بعد، کالج انتظامیہ اور انجمن کے ذمہ داران کے سامنے پیشی ہوئی اور پوچھا گیا کہ ملک راج آنند کو کس نے مدعو کیا تھا۔ پروفیسر امین مغل نے ذمہ داری لیتے ہوئے کہا کہ ملک راج آنند کو اُن کے کہنے پر بلایا گیا تھا۔ اس سے الطاف احمد قریشی کی جان تو بچ گئی، لیکن پروفیسر مغل سے مزید پوچھ گچھ کی گئی۔ بہرحال، انہوں نے انتظامیہ کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ یہ ایک ادبی تقریب تھی تاکہ طلبہ مختلف لکھاریوں کو سن سکیں۔ انھوں نے لکھ کر دیا کہ تقریب میں مُلک راج آنند نے کیا باتیں کی تھیں۔
یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا، کالج کی انتظامیہ نے امین مغل صاحب کی تحریر کی بنیاد پر اس تقریب کی پریس ریلیز جاری کی جو اگلے دن جلی حروف میں اخبارات میں شائع ہوئی۔ امین مغل صاحب کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد وہ الگ تھلگ اور اپنے میں محدود نہ رہ سکے۔ انھوں نے مزاحاً کہا کہ انہیں “لائم لائٹ” میں لانے والا الطاف احمد تھا، ورنہ زندگی شاید خاموشی سے گزر جاتی۔
یہ الطاف احمد قریشی وہی ہیں جو پنجاب پیپلز پارٹی کے سیکریٹری انفارمیشن بھی رہے۔ غالباً یہ وہ زمانہ تھا جب بے نظیر بھٹو نے پنجابی دانشور فخر زمان کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر نامزد کیا تھا۔ فخر زمان نے پارٹی کی قیادت میں کئی اور بھی دانشور، ادیب اور آرٹسٹ کو شامل کیا تھا۔

اپنا تبصرہ لکھیں