مشرق وسطیٰ کی موجودہ سرحدیں تاریخی فیصلوں کا نتیجہ ہیں، جو زیادہ تر یورپی استعماری طاقتوں کے زیر اثر اُس وقت تشکیل دی گئیں جب سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہو رہی تھی۔ اہم واقعات اور معاہدے جنہوں نے ان سرحدوں کو تشکیل دیا، درج ذیل ہیں:
1. سلطنت عثمانیہ کا کردار
پہلی جنگ عظیم سے پہلے، مشرق وسطیٰ زیادہ تر سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول تھا، جو علاقے کو ولایات کے نظام کے تحت چلایا کرتی تھی۔یہ نظام مقامی انتظامیہ پر زور دیتا تھا اور سخت جغرافیائی سرحدوں کی بجائے علاقائی تقسیم پر مبنی تھا۔
2. سائیکس پیکو معاہدہ (1916)
برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ، جسے روس کی منظوری بھی حاصل تھی، نے عثمانی علاقوں کو اثر و رسوخ کے زونز میں تقسیم کر دیا۔یہ معاہدہ ایسی مصنوعی سرحدوں کی بنیاد بنا جو نسلی، قبائلی اور مذہبی تقسیم کو نظرانداز کرتی تھیں۔
3. اعلان بالفور (1917)
برطانیہ کی جانب سے جاری کردہ یہ اعلان فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی حمایت کا وعدہ تھا، جس نے زمین پر مستقبل کے تنازعات کی بنیاد رکھی۔
4. معاہدہ سیورے (1920) اور معاہدہ لوزان (1923)
ان معاہدوں نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کیا اور نئی سرحدوں کو رسمی شکل دی۔ لیکن یہ زیادہ تر مقامی آبادی کی خواہشات کی بجائے استعماری طاقتوں کے مفادات کو ترجیح دیتے تھے۔
5. مینڈیٹ سسٹم (پہلی جنگ عظیم کے بعد)
لیگ آف نیشنز نے برطانیہ اور فرانس کو عراق، فلسطین، شام اور لبنان جیسے علاقوں پر حکومت کرنے کے مینڈیٹ دیے۔ان مینڈیٹوں نے یورپی کنٹرول کو ادارہ جاتی شکل دی اور جدید ریاستوں کو ایسی سرحدوں کے ساتھ قائم کیا جو مقامی جغرافیہ یا ثقافت سے ہم آہنگ نہیں تھیں۔
6. قوم پرستی اور بغاوتیں
غیر فطری سرحدوں نے قوم پرستی کی تحریکوں اور بغاوتوں کو ہوا دی، کیونکہ مختلف نسلی اور مذہبی گروہ ریاستوں کے درمیان تقسیم ہو گئے یا اُن میں دب کر رہ گئے۔
7. وراثت اور چیلنجز
یورپی طاقتوں کی کھینچی ہوئی سرحدیں آج بھی مشرق وسطیٰ کی سیاست پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ کردوں کی خودمختاری کی جدوجہد، اسرائیل-فلسطین تنازعہ، اور فرقہ وارانہ تقسیم جیسے مسائل انہی تاریخی انتظامات کی پیداوار ہیں۔موجودہ ریاستوں کو شناخت کے بحران کا سامنا ہے کیونکہ ان کی سرحدیں مصنوعی طور پر بنائی گئی ہیں۔
ڈاکٹر رائے کاساگراںڈا جیسے محققین نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ یورپی طاقتوں نے اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دلچسپی کے مطابق سرحدیں قائم کیں، جو طویل المدتی عدم استحکام کا باعث بنیں۔
ان تاریخی فیصلوں کو سمجھنا مشرق وسطیٰ کے موجودہ تنازعات کو حل کرنے اور بہتر طرزِ حکمرانی کے لیے ضروری ہے۔اس تاریخ میں جھانک کر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی سرحدیں محض نقشے پر لکیریں نہیں بلکہ سامراجی عزائم، مقامی مزاحمت، اور تاریخی واقعات کا ورثہ ہیں۔